بورصہ کی عظیم الشان مسجد کا افتتاح ایک نان فروش نے کیا(86) اقتباس۔۔۔۔ بشیر سدوزئی کی کتاب۔ “اسلامبول سے استنبول “

اولو چیپل سائز کے لحاظ سے آج بھی ترکیہ کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ مستطیل شکل کی یہ تاریخی مسجد لمبائی میں زیادہ جب کہ اس کی چوڑائی کم ہے۔ اس عمارت میں کئی انفرادیت اور خصوصیات ہیں جن میں ایم ترین یہ کہ ترکیہ میں اب تک تعمیر ہونے والی واحد مسجد ہے جس کے 20 گنبد اور 2 مینار ہیں۔ جب کہ ہال میں 5 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ جب اس مسجد کو تعمیر کیا گیا تو اس وقت بورصہ کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی اور نہ ہی سیاحوں کی اتنی بڑی تعداد متوقع تھی، تو پھر قومی خزانے سے اتنی کثیر رقم کیوں خرچ کی گئی ہو گی۔ اس کے بارے میں آگئے آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ ایک مسجد نہیں بلکہ 20 مسجدیں ایک ساتھ، ایک ہی جگہ پر تعمیر کی گئیں، یہ الگ بات ہے کہ 20 مسجدوں میں ایک ہی آذان دی جاتی ہے اور ایک ہی امام ہے۔ فی الحال ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ عثمانی طرزِ تعمیر اس مسجد کی دیواروں، چھت حتی کہ ہر ہر حصہ سے ٹپکتا ہے۔ جس کو عثمانیوں کا خاص طور پو سلجوقیوں کا طرز تعمیر دیکھنا ہو وہ ترکی کے شہر بورصہ میں جامع مسجد اولو دیکھ لے۔ جہاں کی یہ جامع مسجد عبادت کرنے میں پرلطف اور دیکھنے میں کمال ہے۔ یہ مسجد عثمانیوں کے چوتھے سلطان بایزید اوّل نے تعمیر کروائی تھی، جب بورصہ سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ اس کی تعمیر 1399ء میں مکمل ہوئی۔ اس طویل عرصے کے دوران کئی مرتبہ ٹوٹی جلی لیکن آج بھی اس خوب صورت شہر کے مرکز میں یہ معبد پوری شان اور شوکت کے ساتھ کھڑا ہے۔ سلطان بایزید اوّل تاریخ میں بایزید یلدرم(آسمانی بجلی) کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے 1396ء میں معرکہ نکوپولس میں عیسائیوں کی مشترکہ فوج کو ہرایا تھا۔ اسی لیے اس معرکہ کو صلیبی جنگ کہا جاتا ہے، جس کی اپیل عثمانیوں کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لیے پوپ بونیفیس نہم نے کی تھی۔ سلطان بایزید کی یہ کامیابی آج بھی تاریخ میں عثمانیوں کی عظیم جنگی فتوحات میں شمار ہوتی ہے۔ سلطان بایزید اول نے جنگ نکوپولس میں روانہ ہونے سے قبل یہ عہد کیا تھا کہ فتح کی صورت میں 20 گنبد تعمیر کروں گا۔ جس کا مقصد 20 مساجد تھا۔ لیکن فتح کے بعد جگہوں کی تلاش ہوئی کہ مسجدیں کہاں، کہاں تعمیر کی جائیں جہاں آباد بھی ہو سکیں۔ اس وقت آبادی کم تھی لہذا الگ الگ جگہوں پر 20 مسجدیں تعمیر کرنے کے بجائے علماء کرام نے مشورہ دیا کہ 20 گنبد والی ایک مسجد کی تعمیر سے عہد پورا ہو سکتا ہے۔ سلطان نے اس جگہ یہ شایان شان مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ دو مینار کے ساتھ جب یہ مسجد تعمیر ہوئی تو اس وقت یہ اسلامی دنیا کی پانچ مساجد میں سے ایک تھی۔ مسجد الحرام مکہ، مسجد النبی مدینہ، مسجد اقصی یروشلم، اموی مسجد، دمشق اور یہ اولو  مسجد بورصہ۔ سلطان بایزید اول کے حکومتی کارناموں میں اس مسجد کی تعمیر بھی بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ بے شک یہ سلطان ہی کا کارنامہ ہے، سوچ، سرمایہ کی فراہمی وغیرہ، لیکن آرکیٹیکٹ علی نجار کی ذہانت اور فنی مہارت کی تعریف نہ کریں تو بخیلوں کی صف میں کھڑے ہوں گے۔ اس وقت کے کیا کمال لوگ تھے، جس شعبہ میں دیکھں کمال ہی کمال لوگ ملیں گے۔ جب سے تعمیرات بلڈرز نے سھنبالی اس مہارت کے لوگ پیدا ہونا بند ہو گئے۔ ہمارے ملک میں تو کوئی ایک آرکیٹیکٹ نہیں جس کے شاہکار کو دیکھ کر طبعیت میں طمانیت آئے۔ کامران لاشاری نے سول سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد یورپ منتقل ہونے کے بجائے لاہور کے تعمیراتی کلچر کو بحال کرنے پر توجہ دی۔ لاہور آج مغلوں اور انگریزوں کے دور جیسا لگتا ہے، سمنٹ کے بلاک کی دیواریں چننے اور پلستر پر رنگ برنگی کوچیاں گھومانے کے بجائے سرخ اینٹوں کے استعمال سے لاہور کا اصل تعمیراتی کلچر بحال اور شہر کا حسن نکھر آیا ہے۔ہمارے کراچی کے پرانے علاقے جو ورثہ تھا، ان عمارتوں کی مرمت کے بعد گردوغبار صاف کر دیا جاتا تو کھارا در میٹھا در پاکستان چوک سمیت برنس روڑ لندن لگتت، لیکن پتھر کی خوب صورت عمارتیں اور نایاب آرکیٹیکچر کو بلڈر مافیا توڑ، توڑ کر بلند عمارتیں تعمیر کر رہی ہے جن کو حکومتی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ بیت المال کا یہ انمول خزانہ سرکاری اداروں کے افسران کے ملوث ہوئے بغیر کیسے لوٹا جا سکتا ہے۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ شہر میں کوئی این جی او یا سول سوسائٹی کا پریشر گروپ بھی ایسا نہیں جو اس معافیہ کے خلاف آواز اٹھائے جو ماضی کی ملکہ مشرق کا گہنا اتار کر اسے سرے بازار رسواء کر رہا ہے۔ بورصہ کی گرینڈ مسجد جو 15ویں صدی کے اوائل میں تعمیر ہوئی آج 21ویں صدی میں بھی خوب صورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ ہے۔ لیکن عثمانی روایات کے مطابق اس کے پہلو میں کوئی مزار ہے نہ قبرستان۔ خلافت عثمانیہ کی یہ روایت رہی ہے کہ ہر خلیفہ نے ایک منفرد اور پہلے سے زیادہ خوب صورت مسجد تعمیر کی، اسی کے پہلو میں باہر دیوار کے ساتھ اپنا مزار تعمیر کرایا اور مزار کے اطراف اپنے خان دان کی قبریں۔ جب کام تمام ہوا تو اسی مزار میں لیٹا دئے گئے اور قبر پر کتبہ نصب ہوا، سلطان۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اطراف میں خان دان کے دیگر افراد کو سلا دیا گیا۔ لیکن اس مسجد کے اطراف ایسا کچھ نہیں۔ اس کے خالق سلطان بایزید اول انقرہ میں تمرین کے ساتھ محرک میں شکست کے بعد گرفتار ہوئے اور ایک سال بعد ثمرقند میں انتقال کر گئے تھے۔ لہذا ان کی قبر سلطنت کی حدود میں نہیں۔ سلطنت عثمانیہ کا یہ واحد افسوس ناک واقعہ ہے کہ سلطان بایزید اول 1402 میں گرفتار ہوا تیمور نے اس معرکہ کے بعد ترکوں کی مار مار کر برا حال کر دیا۔ فوجی جنرل گرفتار ہوئے اور فوج تتر بتر ہو گئی۔ ان کو سنبھلنے میں دس سال لگے۔ 1412ء میں دوبارہ خلاف بحال ہوئی۔ ترک تاریخ میں دس سال کا یہ عرصہ خلاف عثمانیہ کے تسلسل میں رکاوٹ ہے۔ اسی بنا اس مسجد کے پہلو میں اس کے خالق اور اس کے خان دان کے مزارات نہیں۔ مسجد کی دیکھ بحال پر حکومت کی توجہ ہے تب ہی یہ عمارت 640 سال بعد بھی ایسی لگلتی ہے جیسے پانچ سال پہلے تعمیر ہوئی۔ حتی کے مصطفی کمال اتاترک کے زمانے میں بھی اس ورثہ کی مکمل حفاظت کی گئی جس کو ہمارے مولوی دہریا، خلافت کا دشمن اور نہ جانے کیا کیا فتوے جاری کرتے رہے۔ گرینڈ مسجد کے ہرگنبد کے چاروں کونے کے نیچے موٹے اور چورس پلر کھڑے ہیں جس سے گنبد کے نیچے الگ بڑا کمرہ محسوس ہوتا ہے۔ اسی سے ایک چھت کے نیچے 20 مساجد کا تصور دیا گیا ہے۔ ہر کمرے میں اتنی گنجائش ہے کہ امام کے پیچھے چار قطاریں کھڑی ہو سکیں۔ اس وقت آبادی کم تھی زیادہ تر مسجدوں کا یہی سائز ہوتا تھا جو ایک گنبد کے نیچے کمرہ نما حاطے کا ہے۔ گویا مسجد کے چیپل میں 80 سے زائد موٹے چورس پلر نظر تو آتے ہیں لیکن کئی بھی مسجد کی خوبصورتی کو متاثر نہیں کرتے اور نہ ہی نظر الجھاتے ہیں۔ بلکہ ان چوڑے ستونوں پر قرآنی آیات کی خطاطی میں بے پناہ کشش ہے جو نظر کو بھلی لگتی ہے۔ یہ طرز تعمیرات اور خوب صورتی کا شاہکار میں نے زندگی میں پہلی بار ہی دیکھا ہے. اس مسجد سے ایک اور تاریخی واقعہ یا کہانی منسوب ہے۔ جو بھی ہے لیکن سبق آموز ہے کہ اللہ تعالٰی جب چاہے دلوں کو پھیر لے اور جب چاہے مہر ثبت کر لے۔ بے شک اپنے بندوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی معافی کے لیے اسے بھی بہانے چائیے ہوتے ہیں۔ قصہ یوں ہے کہ ترقیاتی کام مکمل ہونے کے بعد سلطان کو رپورٹ دی گئی تو سلطان معائنہ کے لیے پہنچا۔ مسجد دیکھنے اور اس پر رائے دینے کے لیے بورصہ کے قاضی القضاء شیخ امیر سلطان کو بھی بلایا گیا جو سلطان بایزید اول کے داماد بھی تھے۔ سلطان نے قاضی سے رائے پوچھی تو شیخ امیر نے تعریفی کلمات کے بجائے کہا کہ مسجد کے چاروں کونوں میں بار کے علاوہ کوئی کمی نہیں ہے۔ سلطان نے پوچھا کہ خدا کے گھر کے اطراف شراب خانہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ عالم نے جواب دیا کہ خدا کا گھر تو یہ جسم ہے جس کو خدا نے خود پیدا کیا، اس کو تو بار بنانے میں شرمندگی نہیں ہو رہی، اس عمارت کے اطراف بار بنانے سے شرم کیسی؟ سلطان بایزید اول نے سربیا کے شاہ لازار کی صاحبزادی شہزادی ڈسپنا سے عقد کیا تھا۔ عیسائی بیوی کے باعث بایزید جو یلدرم کو شراب کی لت پڑ گئی تھی۔ شیخ امیر سلطان نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر حاکم وقت کو حق کی بات کہہ دی۔ اس کا پیغام یہ تھا کہ جب آپ کا جسم پاک نہیں تو مسجدوں کی تعمیر سے کیا حاصل۔ بتایا جاتا ہے کہ اس واقع کے بعد سلطان بایزید اول نے شراب ترک کر دی تھی۔ لیکن ایک خبر یہ بھی ہے کہ اس واقعہ نے سلطان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تاہم وہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف عیسائیوں کے اعلان جنگ کے بعد شراب سے تائب ہوا۔ جب سلطان خود شراب استعمال کرنے لگا تو سلطنت میں بھی اس پر نرمی کی گئی۔ عام تاثر یہ تھا کہ عیسائی ملکہ دانستہ سلطنت میں خرافات کو عام کر رہی تھی ۔ اس پر علماء نے احتجاج کیا اور اولو مسجد کے دورے کے موقع پر اس کا اظہار بھی کیا۔ اگرچہ سلطان احمد مسجد اور مسجد سلیمان اعظم رقبہ کے لحاظ سے بڑی ہیں لیکن زمین کا کثیر ٹکڑا صحن میں استعمال ہونے سے عبادت کا حصہ چھوٹا ہو گیا۔ اولو مسجد میں کوئی صحن نہیں ہے جو بھی علاقہ ہے وہ چیپل ہی میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے یہ سب سے بڑی مسجد ہے۔ نماز کا صحن تقریبا 3800 مربع میٹر ہے۔ ہم نے عصر کی نماز اسی مسجد کی سرخ رنگ کی دبیز کالین پر محراب کے بالکل سامنے ادا کی جہاں اور لوگ بھی کھڑے تھے۔ ان میں کچھ گوری چمڑی والے بھی تھے۔ معلوم نہیں ترکین تھے یا یورپین لیکن ان کا رنگ روپ دیکھ کر ہم انگریز ہی کہیں گے۔
==================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC