الائیڈ بینک پنشن کے بجائے ٹینشن دے رہا ہے، شاداں سید 32 سال کی بینک سروس کے بعد 1530/- روپے ماہانہ پنشن مل رہی ہے الائیڈ بینک کا پنشنروں کے ساتھ کھلا مذاق پنشن ملنے پر ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بینک ماننے سے انکاری

مسرور احمد مسرور
==============

شاداں سید اپنے الائیڈ بینک کے طویل عرصے کے بینکنگ کیریئر کے دوران اس وقت کی نہایت مستعد اور ڈیوٹی فُل خاتون افسر کے طور پر پہچانی جاتی تھیں۔ انھوں نے 32 سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ الائیڈ بینک کی خدمت کی۔ نہ رات دیکھی نہ دن اپنے ادارے کے لیے محنت اور مخلصانہ طریقے سے کام کیا اور بینک کے ہر شعبے میں رہتے ہوئے انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اپنے بینک کے سرکل میں کا فی مقبول رہیں لیکن اتنی محنتی خاتون کارکن نے جب 32 سال سے زیادہ کام کرکے ریٹائرمنٹ حاصل کی تو انھیں تمام انجام دی گئی خدمات کا محنتانہ جسے پنشن کہا جاتا ہے وہ اتنی منظور کی کہ اس پر شاداں سید کو ہنسی بھی آتی ہے اور رونا بھی۔ لوگ بھی جب سنتے ہیں کہ شاداں سید کو ان کی 32 سالہ خدمات کے عوض 1530/- روپے پنشن دی جا رہی ہے تو وہ اس تلخ حقیقت کو بہت بڑا مذاق سمجھتے ہیں اور اس بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوتے۔ بینک مالکان اور بینک انتظامیہ نے سخاوت کی جو مثال قائم کی وہ اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ 2016 کی بات ہے کہ ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد ملازمین کو بہت کم پنشن دینے کا معاملہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے نوٹس میں لایا گیا۔ انھوں نے اپنے طور پر معاملے کا سوموٹو نوٹس لیا اور عدالتی کارروائی کا آغاز کیا۔ سماعتیں چلتی رہیں، کم پنشن کے حوالے سے نئے نئے انکشافات سامنے آتے رہے حتیٰ کہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک پنشنر کو صرف 85 روپے پنشن کی مد میں دیے جاتے ہیں۔ انور ظہیر جمالی کے بعد یہ سارا معاملہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے سامنے پیش کیا گیا۔ انھوں نے بینک کے تمام بڑوں کو عدالت میں بلا لیا اور ان سے پوچھا گیا کہ وہ کتنے کتنے لاکھ تنخواہ لیتے ہیں؟ جواب میں بتایا گیا کہ 20 لاکھ اور 30 لاکھ ۔ تو چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ اتنی کم پنشن دینے پر شرم نہیں آتی؟ ریٹائرڈ ملازمین کو دی جانے والی پنشن بھی اپنی تنخواہ میں شامل کر لیا کرو، اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بینک کے تمام بڑے شرمندہ شرمندہ سر نیچے کیے کھڑے رہے۔ الائیڈ بینک کے صدر کو تو اس معاملے میں عدالت سے غیر حاضر ہونے پر دو لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا گیا جو کسی خیراتی ادارے میں جمع کرنے کے لیے کہا گیا۔


چیف جسٹس نے تمام معاملے کو سننے کے بعد 13 فروری2018 کو یہ فیصلہ صادر کیا کہ کسی پنشنر کو 8 ہزار روپے سے کم پنشن نہیں ملنی چاہیے اور ہر سال اس پر 5 فیصد اضافہ بھی دیا جانا ضروری ہے۔ بینکوں کے سربراہان نے اس فیصلے کو قبول کرنے کی حامی بھر لی اور خانہ پُری کے لیے چند لوگوں کو 8 ہزار پنشن دے کر سپریم کورٹ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی اور آج 5 سال گزرنے کے بعد بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا۔ بینک انتظامیہ نے وکیلوں اور دوسرے متعلقہ لوگوں کو رقوم دے کر فیصلے کی بے توقیری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پنشن کے سوموٹو کیس میں عدالت عالیہ کے فیصلے پر عمل نہ کرکے توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کوئی دیکھنے والا نہیں کوئی سننے والا نہیں کہ بینک مالکان کو بار بار توہین عدالت کا اختیار کس نے دے رکھا ہے؟ اللہ ہی ان لوگوں سے پوچھے گا۔
شاداں سید اتنی کم پنشن ملنے اور بینک کی طرف سے عدالتی فیصلوں پر عمل نہ ہونے کے معاملے کو دیکھتے ہوئے سخت تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بینک کی طرف سے انہیں ملنے والی انتہائی حد تک کم پنشن بینک مالکان کی فیملی کے نام کر دی ہے تاکہ انھیں مالی پریشانی سے نجات ملی رہے۔ مجھے زکوٰة اور خیرات دینی ہوتی ہے تو وہ بھی ان غریب سیٹھوں کے نام بھیج دیتی ہوں تاکہ وہ مالی پریشانی سے بچے رہیں لیکن دعا کرتی ہوں کہ اللہ کی لاٹھی جو بے آواز ہے ان کے سروں پر ایسی پڑے کہ بینک مالکان کو غریب بیواؤں اور بوڑھے پنشنرز پر کیے گئے اپنے ظلم و ستم اور زیادتیاں یاد آ جائیں عدالت عالیہ کو بینک انتظامیہ جو قانون کے مطابق عدالتی فیصلوں پر عمل کرنے سے انکاری ہے کے خلاف توہین عدالت کے تحت کاروائی عمل میں لائے اور بینک پنشنروں کو اُن کا حق دلوائے۔
=========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC