رانی پور کی حویلی میں کام کرنے والی ایک اور ملازمہ لڑکی کا بیان سامنے آگیا

رانی پور کی حویلی میں کام کرنے والی ایک ملازمہ لڑکی اجالا کا ویڈیو بیان سامنے آیا ہے، جس میں اس نے پیر اسد شاہ کی بیوی پر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

اجالا کا کہنا ہے کہ ‎اسد شاہ کی بیوی حنا شاہ اس پر تشدد کرتی تھی۔ سزا کے طور پر گرم پانی پینے کیلئے دیتی تھی۔ وہ کچھ عرصہ قبل حویلی سے نکل بھاگی تھی۔

ایک بیٹی کی ہلاکت کے بعد 2 کو بچانے کیلئے طبعی موت کا جھوٹا بیان دیا، والدہ

‎اپنے ویڈیو بیان میں ملازمہ نے کہا کہ 4 ہزار کے عوض حویلی کا سارا کام کرتی تھی، اسد شاہ کی اہلیہ بلا وجہ سخت تشدد کا نشانہ بناتی تھیں، ساری رات جگایا جاتا تھا۔

ملازمہ اجالا نے مزید بتایا کہ خودکشی کا فیصلہ کر چکی تھی، کچھ عرصہ قبل حویلی سے بھاگ آئی۔

یاد رہے کہ 14 اگست کو رانی پور کے مقامی پیر کی حویلی میں 10 سال کی بچی مبینہ تشدد سےجاں بحق ہوگئی تھی اور پولیس نے بغیر میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کے لاش ورثا کےحوالے کر کےتدفین کروا دی تھی، جیو نیوز کی اس خبر پر ڈی آئی جی سکھر نے نوٹس لے کر ملزم کو گرفتار کر کے مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی تھی۔

رانی پور: با اثر پیر کی حویلی میں جاں بحق بچی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر دفن کردیا گیا

واضح رہے کہ رانی پور کی حویلی میں ملازمہ 10 سالہ بچی کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کے بعد مرکزی ملزم اسد شاہ کو گرفتار کرلیا گیا، بچی کی موت سے قبل اس کی تڑپنے کی ویڈیو سامنے آئی تھی۔

بچی کی ماں نے ابتدائی بیان دیا تھا کہ بچی کی موت طبعی ہے۔ پولیس نے اسی بیان پر اکتفا کر کے نہ بچی کا میڈیکل کروایا، نہ پوسٹمارٹم کروایا۔ الٹا بچی کو تدفین کیلئے والدین کے حوالے کردیا۔

بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات کی ویڈیوز سامنے آئیں تو پولیس کے اعلیٰ حکام نے نوٹس لیا اور اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) رانی پور کو لاپرواہی پر معطل کردیا۔

https://jang.com.pk/news/1258920?_ga=2.207261907.1715275992.1691897025-1626058160.1644523881
====================================

رانی پور کے سندھی صحافیوں اور نوجوانوں کی جرئت کوسلام؟

کراچی (تحریر* آغا خالد)
عروس البلاد میں بیٹھ کر ہم تصور بھی نہیں کرسکتے کہ رانی پور یا اندرون سندھ کے سیدوں، پیروں اور وڈیروں کی قوت ظالم و اظلم کس شدت کی ہے علاقہ کی انتظامیہ اور پولیس ان کے سامنے بے بس ہوتی ہے اور ایس ایچ او کو تو وہ ذاتی نوکر سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دیتے ایسے میں ایک چھوٹے سے شہر میں ایک غریب خاندان کی کمسن بے بس بیٹی کا مقدمہ اس جرئت سے لڑنا اپنی مثال آپ ہے رانی پور سکھر سے 60 کلو میٹر کے فاصلہ پر کراچی کو ملکی دارالحکومت اسلام آباد سے ملانے والے نیشنل ہائی وے پر واقع ہے جبکہ ماضی میں سندھ کی راج دھانی رہنے والے خیرپور سے صرف 40 کلومیٹر پہلے ہے یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جس کی وجہ شہرت اس کے مشہور پیر اور ان کی درگاہ ہے سندھ کی اولین روحانی درگاہوں میں سے رانی پور کی گدی ہے اور یہاں کے اولین گدی نشیں اب مدفون شخصیت (دستگیر شاہ جیلانی عرف سورج سائیں) کے جد امجد بغداد کے پیران پیر پیر عبد القادر جیلانی بتائے جاتے ہیں اس طرح ان کاشجرہ نصب حضرت علی کرم اللہ سے جاملتا ہے اور انہیں کی کمائی برصغیر کے دیگر گدی نشینوں کی طرح وہ کھارہے ہیں
“دستگیر درگاہ” کی اہمیت کااندازہ یہاں سے لگایا جاسکتاہے کہ پاکستان کی سب سے طاقت ور گدی پیر پاگارہ اول بھی ان کے خلیفہ تھے 10 سالہ ملازمہ بچی کو وحشیانہ تشدد سے ہلاک کرنے کے ملزم موجودہ پیر کے بھتیجے اور دوسرے بھائی کی بیٹی کے شوہر ہیں ان کے گھر کی سیاسی طاقت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتاہے کہ قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی کی دو نشستیں ان کے خاندان کی جدی پشتی ملکیت ہیں ملزم اسد علی شاہ ولد خیر علی شاہ موجودہ ایم این اے پیر سید فضل علی شاہ کابھتیجا ہے صوبائی کابینہ میں وزیر اوقاف پیر سید پیار علی شاہ کا بھی بھتیجا ہے سابقہ وفاقی وزیر پیر سید عبد القادر شاہ جیلانی کاپوتہ ہے، شاہ ایران، سکندرمرزا، ایوب خان، جرنل کرنلز کی فوج ظفر موج ان کی مہمان بننے میں فخر محسوس کرتی رہی ہیں دستگیرشاہ کے دادا پیر غلام محی الدین (عرف میراں سائیں) جنرل ضیاء کے دور میں ان کی مجلس شوری کے ممبر رہے ہیں،
ممتاز بھٹو کی نگران کابینہ میں بھی اسد شاہ کے بھتیجے ابوسائیں وزیر تھے یہ ان کی موروثی وجاہت اور طاقت کی محض ایک جھلک ہے ان کے معتقدین کی بڑی تعداد بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں ہے رانی پور میں درگاہ کے عرس جیسے روحانی جشن میں صوبے کا سب سے بڑا میلہ لگتا ہے جس میں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں اس میلہ میں دنیا بھر کی خرافات کے ساتھ سرعام جوا، سٹہ، ریچھ اور کتوں کی لڑائی، کبڈی، ملاکھڑا، رنگ رانگ، ہیجڑوں اور رنڈیوں کے مجرے غرض ہر وہ قانون شکنی جن کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا برپا کی جاتی ہے طاقت کے ایسے مراکز میں صحافت لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے مگر سندھیوں کی نئی نسل جو تعلیم یا کم از کم سیاسی شعور سے لبریز ذہن کی مالک ہے اس جنگل کے قانون یا چند خاندانوں کی صوبے پراجارہ داری کے خلاف آمادہ بغاوت ہے یہ اس صوبے کے سہانے مستقبل کا خواب دیکھنے والوں کے لئے نعمت جدیدہ سے کم نہیں جبکہ سوشل میڈیا کے بے لگام گھوڑے نے نئی سندھی نسل کے اس جذبہ کو مزید مہمیز لگائی ہے اور گزشتہ چند برسوں میں سندھ کے دور دراز پس ماندہ معاشرہ میں پیش آمدہ قوت محرکہ کے چند دلخراش واقعات پر شدید ردعمل نے نئی راہوں کاتعین کردیاہے دروازے کھلے ہیں کھڑکیاں واہوئی ہیں روشن دانوں سے تازہ ہوا کے جھونکوں سے رسموں کے اسیر روایات میں جکڑے مایوس معاشرہ میں امید کی کرن پھوٹ پڑی ہے
بہارو پھول برسائو کہ میرے، خوابوں کو تعبیر ملی ہے…
=============================================