گرین کوریڈور


اعتصام الحق ثاقب
چین پاک اقتصادی راہ داری کے پہلے مرحلے کے تحت توانائی کے منصوبوں نے پاکستان میں بجلی کی بندش پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اب جب کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے تو اکنامک کوریڈور کو گرین کوریڈور بنانے کے اہم منصوبے بھی اس راہداری کے نمایاں منصوبے ہوں گے۔حال ہی میں پاکستان کے ترقی ومنصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے چین کا دورہ کیا اور اس دورے میں انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ حکومت سی پیک کے اگلے مرحلے کے دوران صاف اور قابل تجدید توانائی کی جانب توانائی مکس کو متنوع بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
پاکستان میں توانائی استعمال کرنے والے تمام ہی صارف توانائی کے عوض زیادہ ادائیگیوں کی وجہ سے پریشان ہیں اور مستقبل میں بھی اس شعبے میں کسی بہتری کا کویہ امکان نظر نہیں آتا تو ایسی صورت میں اگر حکومت توانائی کے شعبے میں اصلاحات کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ صارفین اور کاروباری اداروں کو سستے نرخوں پر بجلی فراہم کی جا سکے تو یہ پاکستان کے عام شہری کے لئے ایک بڑا ریلیف ہو گا ۔
حالیہ دورے میں مختلف ملاقاتوں میں توانائی کے شعبے میں دونوں ممالک نے توانائی کے انتظام کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے نئے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا ، جس کا مقصد چوری اور لائن لاسز کو کم کرنا ہے۔احسن اقبال نے آزاد پتن اور کوہالہ ہائیڈرو پاور منصوبوں پر جلد عمل درآمد کے لئے چین سے تعاون جاری رکھنے کی درخواست بھی کی اور سی پیک کی جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے کام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ، جو اعلی سطحی فیصلہ ساز ادارہ ہے ، دونوں فریقوں نے توانائی سے متعلق مشترکہ ورکنگ گروپ کے اگلے دور کو جلد از جلد منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔اعلی سطحی ملاقاتوں سے قبل وفاقی وزیر نے بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں مہارت رکھنے والی اعلیٰ چینی کمپنیوں سے پاکستانی سفارتخانے میں ملاقاتیں کیں ۔ ان میں پاور چائنا، ٹی بی ای اے کمپنی لمیٹڈ اور الیکٹرک پاور پلاننگ اینڈ انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ شامل ہیں۔
پاکستان نے گزشتہ چند برسوں میں 10 بلین سونامی ٹری سے لے کر اس عزم تک متعدد اقدامات اٹھائے ہیں کہ 2030 تک ملک کی 30 فیصد توانائی قابل تجدید توانائی ہوگی۔ سی پیک کو سرسبز بنانے کے حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ صرف پاکستان اور چین کی حکومتوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ اقدام عوام پر مرکوز ہونا چاہئے اور رائے عامہ پر مبنی ہونا چاہئے۔پاکستان کے لئے اس وقت خوش قسمتی یہ ہے کہ پاکستان بی آر آئی کا ایک اہم حصہ ہے جو گرین انفراسٹرکچر کی تعمیر، گرین ٹیکنالوجیز کی ترقی اور گرین فنانس کو فروغ دیتا ہے اور سی پیک اس کا ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے۔
دونوں ممالک کی کاوشوں سے سی پیک تیزی سے اعلیٰ معیار کی ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔توانائی کا شعبہ سی پیک کے فریم ورک کے تحت تعاون کے تیز ترین اور نتیجہ خیز شعبوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان ہائیڈرو پاور اور شمسی توانائی جیسے ماحول دوست توانائی کے منصوبے ہمیشہ تعاون کا محور رہے ہیں، حالیہ برسوں میں گرین انرجی میں تعاون مسلسل مضبوط ہوا ہے۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں گرین انرجی کے فروغ میں نمایاں پیش رفت کر رہا ہے۔ ملک قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے ہوا، شمسی توانائی اور پن بجلی میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ان کوششوں سے نہ صرف کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملی ہے بلکہ توانائی کے مرکب کو متنوع بنانے اور زیادہ پائیدار مستقبل کو یقینی بنانے میں بھی مدد ملی ہے۔ ایک قابل ذکر منصوبہ بہاولپور میں قائد اعظم سولر پارک ہے۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے شمسی توانائی گھروں میں سے ایک ہے، جو خطے میں وافر سورج کی روشنی سے صاف توانائی پیدا کرتا ہے. ایک اور منصوبہ سندھ میں گھارو ونڈ پاور پلانٹ ہے، جو قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کے لئے تیز ہواؤں کا استعمال کرتا ہے۔ یہ پاکستان میں ہونے والے ماحول دوست توانائی کے دلچسپ اقدامات کی چند مثالیں ہیں لیکن نئے دور کی ضرورتوں اور ملک کو درپیش توانائی کی قلت کو دیکھتے ہوئے قابل تجدید اور مربادل توانائی کےت بڑے منصوبوں کا آغاز جلد از جلد کرنا ہو گا تا کہ نئے دور میں دنیا بھر کے ساتھ چلنے اور معاشی مشکلات پر قابو پانے میں مدد مل سکے.🌞💨