دھوتی والے سرداروں کا جنم

عزیز سنگھور
==========

ایک زمانے میں بلوچ سماج میں سردار اور نواب بلوچیت کی علامت مانے جاتے تھے۔ وہ بلوچ قوم کی اجتماعیت پر آنچ آنے نہیں دیتے تھے۔ بلوچ ننگ و ناموس پر اپنی جان قربان کرتے تھے۔ وہ بلوچ قوم کے محافظ ہوتے تھے۔ اپنے دشمن کو للکارتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ بلوچ قوم کے ہیرو ہوتے تھے۔ جن میں میر چاکر خان رند، نصیر خان نوری، ملک دینارگچکی، نواب نوروز خان، نواب خیربخش مری، نواب اکبرخان بگٹی، سردار عطااللہ مینگل اور دیگر شامل تھے۔ جب وہ زندہ تھے۔ بلوچوں نے بلوچستان، دشتیار (ایران)، ہلمند (افغانستان) سمیت ڈیرہ جات(پنجاب) تک اپنی ریاستیں قائم کر رکھی تھیں۔ قیام پاکستان، ایران اور افغانستان کے حکمرانوں بعد تمام آزاد بلوچ ریاستوں سے اپنے اپنے ممالک میں جبری الحاق کیاگیا۔ اس الحاق میں برطانوی حکمرانوں کی مدد حاصل تھی۔ اس جبری الحاق کے خلاف ایک طویل جنگ چلی۔ جس میں ہزاروں بلوچوں نے شہادتیں نوش کی۔ الحاق کے خلاف جدوجہد کبھی تھم جاتی تھی تو کبھی عروج پر آتی تھی۔ جو تاحال چل رہی ہے۔
موجودہ دور میں پاکستانی حکمرانوں نے تمام بلوچ سرداروں کو شلوار کی جگہ دھوتی پہنادی۔ اور ان سرداروں نے اقتدار کے حصول کے لئے بلوچی گھیر والی شلوار کی جگہ دھوتی پہننا شروع کردیا۔ اور اپنے ننگ و ناموس کا سودا کیا۔ اپنی روایتوں کا خاتمہ کیاگیا۔ بلوچی کلچر کی جگہ پنجابی کلچر اپنایاگیا۔ جس کی تازہ مثال حال ہی میں بارکھان میں ہونے والے دلخراش واقعہ ہے۔
بلوچستان کے علاقے بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے ایک خاتون سمیت دو مردوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ مذکورہ افراد صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے قید میں تھے۔ قتل ہونے والی خاتون کے میاں خان محمد مری کے مطابق لاشیں انکی اہلیہ گراں ناز، بڑے بیٹے محمد نواز اور دوسرے بیٹے عبدالقادر کی ہیں جو 2019 سے صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں قید تھے۔ خان محمد مری کے مطابق میرے گھر کے مزید 5 افراد اب بھی سردارعبدالرحمان کھیتران کے جیل میں قید ہیں۔ گذشتہ دنوں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک وائرل وڈیو میں ایک عورت کو قرآن شریف ہاتھ میں اٹھائے فریاد کرکے سناگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اان کے بچےسردار عبدالرحمان کے ایک نجی جیل میں قید ہیں۔ مرنے والے خاندان کا تعلق بلوچستان کے علاقے کوہلو سے ہے۔ لواحقین نے تدفین کے بجائے لاشوں کو کوئٹہ کے ریڈ زون میں منتقل کیا ۔ جہاں انہوں نے نعشوں کے ہمراہ دھرنا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کوگرفتار کیا جائےاور انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔
مجھے نہیں لگتا ہے کہ بلوچستان حکومت انہیں کبھی بھی انصاف دے گی۔ کیونکہ اس وقت بلوچستان کابینہ سردارو اور نوابوں پرمشتمل ہیں۔ کیونکہ یہ ایک طبقاتی مسئلہ ہے۔ دھوتی والے سردار اور نواب کبھی بھی کسی نچلے طبقے کے فرد کو انصاف نہیں دیگا۔ آج صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران سمیت تمام وزرا نے دھوتی پہنی ہوئی ہے۔ ان کی بلوچی غیرت مرگئی ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میرے پیارے دوست بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترمینگل نے بھی دھوتی پہنی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی بلوچی گھیر والی شلوار کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ اس سے قبل میرے دوسرے پیارے دوست نیشنل پارٹی کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی دھوتی پہنی ہوئی تھی۔ اور ابھی بھی نئی دھوتی پہننے کی منتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ آنے والے انتخابات میں انہیں دوبارہ وزیراعلیٰ بلوچستان بنالیں گے۔
بلوچستان میں معاشرتی اور سماجی ترقی کی سست رفتاری کی سب سے بڑی وجہ نیم قبائلی نظام ہے۔ بلوچستان میں ایک پالیسی کے تحت فرسودہ قبائلی نظام کو زندہ رکھاگیا۔ بلوچستان میں آج بھی سرکاری سرداروں اور نوابوں کو منتخب کروایا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی سرکار سرداریت کے نیم مردہ ڈھانچے کوآکسیجن فراہم کررہی ہے جس کی وجہ سے قبائلی نظام نے علاقے میں اپنے پنجے گاڑ دیے ہیں۔ بلوچستان میں فرسودہ قبائلی سوچ کو غریب عوام پر مسلط کردیاگیا ہے۔ انہیں قبائل میں تقسیم کردیاگیا ہے۔
جس سے بلوچ مرکزیت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بلوچ کی اجتماعی سیاسی قوت کو مضبوط و مستحکم کرنے نہیں دیا جارہا۔ ایک قبیلہ کو دوسرے قبیلے سے دست وگریبان کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے حکومت کے خلاف جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں ابھریں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ معاشرے میں سیاسی شعور کا خاتمہ کیاگیا۔ علاقے میں سیاسی جماعتوں کو پھلنے اور پھولنے نہیں دیاگیا جس کی وجہ سے فرسودہ قبائلیت کے خلاف قومی سطح کی مزاحمتی تحریک نہ ابھر سکی۔ تحریک ابھرنے کے لئے سیاسی شعور ضروری ہے جبکہ سیاسی شعور تعلیم اور تربیت سے ملتی ہے۔ اسلام آباد نے چند سرداروں کے ساتھ ملکر عوام کو تعلیم سے دور رکھا۔ عوام کو قبائل کے نام پر تقسیم کیاگیا۔ایک قبیلے کو دوسرے قبائل سے لڑوایاگیا۔ آج ضلعی انتظامیہ، پولیس اور دیگر اداروں کے سربراہ سرداروں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ کیونکہ ان کی مرضی سے یہاں ان کی تعیناتی ہوتی ہے۔
لیکن ان سارے اختلافات کے باوجود پنجابی وزیراعظم شہباز شریف کی حلف برداری کی تقریب میں بلوچ قبائلی عمائدین اور پنجابی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد اور وفاداری کا عنصر سامنے آیا۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا بھی موڑ آیا کہ ایک پنجابی وزیراعظم شہباز شریف سے ایک بلوچ یعنی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے پاکستان سے وفاداری کا حلف لے لیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور قبائلی عمائدین کا طبقہ ایک ہے۔ ان کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ اقتدار پر قبضہ جمانا۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کا استحصال کرنا ہے۔ سماجی نابرابری کو برقرار رکھنا ہے۔
بلوچستان میں قومی جبر کے ساتھ ساتھ طبقاتی جبر زوروں پر جاری ہے۔ قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد سے الگ نہیں کرنا چاہئے دونوں ایک دوسرے کے اٹوٹ انگ ہے۔
======================