غر یب عو ا م مر رہے ہیں حکمر ا نو ں کی عیاشیاں ختم نہیں ہو رہیں ملک د یو ا لیہ ہونے کے قریب ہے بد ترین معا شی حا لا ت میں 85 ر کنی کا بینہ کی کیا ضر و ر ت ہے پو ری قو م عد لیہ کی طر ف د یکھ ر ہی ہے ا شرا فیہ کا کڑا ا حتسا ب ہو نا چا ہیے

مسرور احمد مسرور
================

پاکستان اپنی 75 سالہ تاریخ میں اس وقت بدترین حالات سے گزر رہا ہے اور یہاں بسنے والے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ مہنگائی کے طوفان میں گھرے ہوئے زندگی اور موت کی کشمکش سے نبرد آزما ہیں لوگوں کے لیے دو وقت تو دور کی بات ہے ایک وقت اپنا پیٹ بھر لیں تو یہ بڑی بات ہے زندگی کی مشکلات سے تنگ آ کر خودکشی کے رجحان میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اس تمام صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ ملک کو درپیش اس خوف ناک تباہی کا اصل مجرم کون ہے، جس نے اس ملک کو اور اس کی عوام کو بدترین حالات سے دوچار کیا؟ غریب لوگ یہی سننے کے لیے رہ گئے ہیں کہ یہ چور ہے، وہ ڈاکو ہے، کوئی مجرم ہے، کوئی ملزم ہے، کوئی ضمانت پر ہے، کسی پر غداری کا مقدمہ ہے تو کسی پر دہشت گردی کا۔ پوری قوم کو عدالتوں کے اندر اور عدالتوں کے باہر ہونے والے معاملات سے آگاہ رکھنے کے لیے ٹی وی چینلز مستعدی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے نظر آتے ہیں، لیکن غریب کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا، ان کے دکھ درد کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔
ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں جو اسمبلی کو جعلی مانتی تھیں ملک میں الیکشن کرواؤ اور مہنگائی مارچ کرتی نظر آتی تھیں سب کچھ بھول کر اقتدار کے جھولے میں بیٹھے مزے لیتی نظر آتی ہیں، کسی سیاسی جماعت کو اس بات کی رتی بھر بھی پرواہ نہیں کہ عوام کس کرب سے گزر رہی ہے، انھیں صرف اور صڑف اپنے بیرون ممالک دوروں کا خیال ہے۔ مہنگائی کو انھوں نے اپنے ایجنڈے سے کاٹ دیا ہے ملک کی معیشت کو بدترین موڑ تک پہنچا کر غریب عوام پر کبھی منی بجٹ کا بم، کبھی رات کے اندھیرے میں پٹرول کی قیمت میں تاریخی اضافے کا دھماکہ تو کبھی جنرل سیلز ٹیکس بڑھا کر غریب اور متوسط طبقے کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہیں اور لوگوں کو سادہ زندگی گزارنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن اپنی پرتعیش زندگی کو سادہ بنانے کی بابت بات نہیں کرتے، پوری قوم کو اس بات کا دکھ ہے اور وہ شکوہ کرتی ہے کہ اس قدر خراب معاشی حالات میں 85 رکنی کابینہ کی آخر کیا ضرورت ہے جس کے لیے خزانے سے اربوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، کابینہ میں شامل زیادہ تر تعداد ایسے وزرا کی ہے جن کے پاس کوئی کام نہیں ہے سوائے تنخواہیں وصول کرنے اور مراعات حاصل کرنے کے۔
کسی نے یہ بات ازراہ مذاق ہی کہی کہ خزانہ خالی ہے اور وزیر خزانہ اس کے لیے رکھا گیا ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ خزانہ خالی ہے۔ کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے کہ ملک کے معاشی حالات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں، آئی ایم ایف کے سامنے لیٹ جانا اور غریب عوام پر مہنگائی کا سپر بم گرانے کے علاوہ کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آئی ایم ایف کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ حکومتی سطح پر ہونے والی عیاشیوں کو ختم کرنے کی تلقین کی جائے۔ بجلی، گیس کی قیمتوں پر اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے ارباب اقتدار کی فضول خرچیوں پر روک لگانے کی بات نہیں کی جاتی۔ ملک کو معیشت کی دلدل سے نکالنے کے لیے مثبت اور موثر اقدامات کی شدید ضرورت ہے لیکن اس جانب سنجیدگی سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔
ملک کی سیاست کو بھی ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور اسے عدالتوں کا محتاج بنا دیا ہے جہاں سیاسی مقدمات کے انبار لگے نظر آتے ہیں اور عدلیہ کو سیاسی مقدمات میں الجھا دیا گیا ہے۔ میڈیا پہلے کی طرح فعال نہیں رہا اور اشاروں پر ناچ رہا ہے، پورے ملک کا سیاسی نظام، معاشی نظام مکمل طور پر مفلوج نظر آتا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کا آگے بڑھنا ایک خواب دکھائی دیتا ہے۔
اس وقت پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر مرکوز ہیں، وہی اس ملک کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح قرار دیتے ہوئے اس ملک کو اس بحرانی کیفیت سے باہر نکالیں اور اس ملک کو بچا لیں، جہاں کروڑوں لوگ بھوک اور افلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ ایک مٹھی بھر اشرافیہ کا طبقہ اس ملک پر راج کر رہا ہے اور پرتعیش زندگی گزار رہا ہے جس کا کڑا احتساب کیا جانا بہت ضروری ہے۔ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے، بقول ایک جسٹس صاحب کے گھڑی کی سوئی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔
خدارا! اس ملک پر رحم کیا جائے، اس ملک کی عوام کو جینے کا حق دیا جائے اور معاشرے میں انصاف کا بول بالا عام کیا جائے۔
======================

=======