کراچی ( رپورٹر) قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی ممبر انیس ہارون نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کو ہراساں کرنے کے واقعات ، تعلیم کی کمی ، ملازمت نہ ملنا اور خواجہ سرائوں کا کوئی ڈیٹا میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دشواری کا سامنا ہے سیلاب سے متاثرہ خواجہ سرائوں کو کوئی امداد نہیں دیتا

کراچی ( رپورٹر) قومی کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی ممبر انیس ہارون نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کو ہراساں کرنے کے واقعات ، تعلیم کی کمی ، ملازمت نہ ملنا اور خواجہ سرائوں کا کوئی ڈیٹا میسر نہ ہونے کی وجہ سے ان کو دشواری کا سامنا ہے سیلاب سے متاثرہ خواجہ سرائوں کو کوئی امداد نہیں دیتا لاکھوں سیلاب متاثرین اب بھی مدد کی تلاش میں ہیں سیلاب کے باعث صوبہ سندھ جتنا متاثر ہوا اتنا کوئی صوبہ نہیں ہوا کئی جگہوں پر تاحال نکاسی آب کا عمل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر)، پیس اینڈ جسٹس نیٹ ورک (پی جے این) اور یو ایس ایڈ کے زیر اہتمام مشترکہ طور پر ’’ٹرانس جینڈر انکلوسیو فلڈ ریسپانس کے لیے ایکشن پلان کی ترقی‘‘ کے موضوع پر کثیر اسٹیک ہولڈرز صوبائی مشاورت کے دوران کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ٹرانس جینڈرز کیلئے پالیسیاں بنتی ہیں مگر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ سیلاب کے باعث جتنے ٹرانس جینڈر متاثر ہوئے ان کا کوئی ڈیٹا موجود ہی نہیں۔ پالیسیاں بنتی ہیں مگر عمل درآمد نہیں کیا جاتا
ورکشاپ میں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے سیلاب زدگان کی تکالیف کو کم کرنے میں مدد اور بحالی کی کوششوں کے لیے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے فعال کردار کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ پینل میں سیلاب سے بچاؤ کیلئے ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ارکان کی مکمل حمایت اور حکومت مدد کی اپیل کی گئی۔
مقررین نے کہا کہ اس تقریب کا انعقاد مختلف مسائل اور چیلنجز کو اجاگر کرنے کے علاوہ سیلاب کے بعد کے دور میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور ریلیف پروگراموں میں ٹرانس پرسنز کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے قابل عمل سفارشات دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا خواجہ سرائوں کا ڈیٹا اکٹھا اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے تحفظ کا طریقہ کار طے کرنے کے علاوہ ضلعی کمیٹیوں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے
پہلی ٹرانس جینڈر کی وکیل نیشا نے خواجہ سرائوں کے صحت، پناہ گاہ، خوراک کی حفاظت اور امتیازی سلوک سے تحفظ کے طور پر زور دیا۔
سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی پروٹیکشن میکانزم قائم کیا جائے اور ضلعی کمیٹیوں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔
سیکرٹری محکمہ سماجی بہبود شیری مصطفیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 25 کے تحت قانون کے سامنے سب برابر ہیں اس کے باوجود خواجہ سرائوں کو تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے صحت ، نفسیات کے مسئلوں کے حل کے لیے محدود وسائل ہوتے ہیں
اس موقع پر مجیدہ بطول نے کہا کہ 33 اضلاع کے مختلف علاقوں میں خواجہ سراء سیلاب کی بحالی کے لیے مدد کریں گے۔ خواجہ سرائوں کی بہت بڑی تعداد شناختی کارڈ سے محروم ہیں صرف 10 ہزار رجسٹرڈ ہیں ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم اور ملازمت سے محروم رہ گئے ہیں
خواجہ سرائوں کی رہنما بندیا رانا نے کہا کہ سندھ حکومت اور سوشل ویلفیئر کا ہمارے ساتھ ہمیشہ تعاون رہا ہے خواجہ سرائوں کے نئے ڈیٹا پر کام کر رہے ہیں اور ان پر ہونے والے تشدد اور صحت کے مسائل پر بھی کام جاری ہے۔ معاشرے کے تمام طبقوں کو امدادی سرگرمیوں میں تیزی لاتے ہوئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے
صوبائی سندھ کوآرڈینیٹر یوں این کپل نے کہا کہ سیلاب میں ہم نے خیرپور ، سکھر میں بھی کام کیے ہیں سیلاب سے متاثرہ خواجہ سرا کے ساتھ معاشرے کے کمزور طبقوں کے نمائندوں کی بھی مدد کرتے ہیں جن میں معذور افراد، اقلیتی یا ایچ ائی وی کے مریض شامل ہیں
ورکشاپ میں سول سوسائٹی کے ارکان، ٹرانس پرسنز، سرکاری افسران، انسانی حقوق کے کارکنوں اور محکمہ سماجی بہبود اور محتسب آفس کے اہلکاروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ بعد ازاں سوال جواب بھی ہوئے
==================