جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا !

شرجیل انعام میمن
وزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ ، حکومت سندھ

آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کا 95 واں یوم پیدائش ہے ۔ 5 جنوری 1928 ء کو سرشاہ نواز خان بھٹو کے گھر میں سونے کا چمچہ لے کر جنم لینے والے شہید بھٹو نے 4 اپریل 1979 ء کو پاکستان کے غریب عوام کے لیے اپنی سب سے بڑی متاع زندگی قربان کر دی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نہ صرف اس خطے بلکہ عالمی انسانی تاریخ کاایک افسانوی اور لافانی کردار بن گئے ہیں ۔ شاہی خاندان میں آنکھ کھولنے والے شہید بھٹو کا سیاسی فلسفہ یہ تھا کہ ” ننگے پیر لوگوں کے نقش قدم پر چلو ، پھر آپ کبھی نہیں ڈگمگاؤ گے ۔ ”


ایک انتہائی امیر خاندان کے فرد کو غریبوں کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانے کی کیوں سوجھی ؟ اس کا سبب شہید بھٹو خود بیان کرتے ہیں ۔ موت کی کال کوٹھڑی سے شہید بھٹو نے اپنی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایک خط لکھا تھا ، جو ” میری سب سے پیاری بیٹی ” کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا ہے ۔ وہ اس خط میں اپنی بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی اور تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ۔ میں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوں تاکہ ان دونوں کا انضمام ہو سکے ۔ پیاری بیٹی ! میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں ۔ یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے ۔ صرف عوام پر یقین کرو ۔ ان کی نجات اور مساوات کے لیے کام کرو ۔ اللہ تعالی کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔ ”


شہید بھٹو بچپن سے ہی بہت ذہین تھے ۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی دانش گاہوں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب وہ وطن واپس لوٹے تو وہ اپنے آپ کو دنیا کے سیاسی حلقوں میں ایک بڑے سیاسی دانشور کے طو رپر منوا چکے تھے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جب ان کے بارے میں سنا تو انہیں اپنی کابینہ میں شامل کر لیا اور انہیں وزیر صنعت بنا دیا ۔ وہ 30 سال کی عمر میں کابینہ کے سب سے کم عمر وزیر تھے ۔ وفاقی کابینہ کے رکن کے طور پر شہید بھٹو نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا اظہار کیا اور صرف 4 سال کے عرصے میں یعنی 34 سال کی عمر میں انہیں پاکستان کا وزیر خارجہ بنا دیا گیا ۔ بعض سطحی سوچ رکھنے والے حلقے آج بھی اس گھٹیا منطق کا سہارا لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہید بھٹو نے سیاست کا آغاز ایک فوجی آمر کی کابینہ میں شمولیت کرکے کیا ، اس لئے وہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہیں ۔ یہ حلقے تاریخ سے واقف نہیں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کوئی جمہوری حکومت نہیں تھی اور آمرانہ حکومت پاکستان کو ایک دلدل میں دھکیل رہی تھی ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد نہیں تھی اور اس کا بنیادی مقصد خطے میں صرف امریکی مفادات کو پورا کرنا تھا ۔ ایوبی کابینہ کے وزیر کی حیثیت سے بھی شہید بھٹو نے اپنے وژن پر کام کیا اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو یکطرفہ پن سے نکال کر آزادانہ خارجہ پالیسی کی بنیادیں رکھیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ چین اور روس سے تعلقات قائم کئے اور ان کے ساتھ مختلف معاہدے بھی کئے ۔ یہ خارجہ پالیسی میں ایک بڑا شفٹ تھا ۔ شہید بھٹو نے ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات استوار کئے اور ” ریجنل کو آپریشن فار ڈویلپمنٹ ” ( آر سی ڈی ) کے نام سے ان کے ساتھ مل کر ایک تنظیم قائم کی ۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اور بڑا کارنامہ تھا ۔ شہید بھٹو نے ” غیر وابستہ تحریک ” کو بھی منظم کیا اور علاقائی بلاکس بنانے کے لیے بھی کام کیا ۔ جب ایوب خان اور ان کے عالمی آقاوں کو محسوس ہوا کہ شہید بھٹو پاکستان کو کسی اور طرف لے جا رہے ہیں تو ایوب خان نے شہید بھٹو کو اپنی کابینہ سے برطرف کر دیا ۔ اس وقت شہید بھٹو ایشیاء ، افریقا اور لاطینی امریکا کی تیسری دنیا کے اقوام کے لیڈر بن چکے تھے ۔ ان اقوام کو یہ محسوس ہو گیا کہ بھٹو ایک سامراج مخالف ، عوام دوست اور قوموں کی خود مختاری کے لیے کام کرنے والے لیڈر ہیں ۔ برطانیہ کے عظیم سیاسی دانشور برٹرینڈ رسل نے ایوبی کابینہ سے شہید بھٹو کی برطرفی پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر کئی عالمی رہنماوں کو احتجاجی مراسلے لکھے ، جن میں کہا گیا کہ بھٹو ایک عظیم قوم پرست سیاسی رہنما ہیں ۔ وہ تیسری دنیا کی اقوام کی آواز ہیں ۔ ان کی برطرفی ایک سامراجی منصوبہ بندی ہے لیکن ایسے لیڈروں کا اب راستہ نہیں روکا جا سکتا ۔
پاکستان کے عوام نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ انہیں اور ملک کو حقیقی آزادی اور خود مختاری دلانے والے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو ہیں ۔ بھٹو نے جب عوام سے رجوع کیا تو عوام نے بھرپور انداز میں ان کا ساتھ دیا ۔ شہید بھٹو نے اب اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جمہوریت کا راستہ اختیار کیا اور پاکستان میں بہت بڑی جمہوری تحریک کی قیادت کی ۔ اسی دوران انہوں نے 30 نومبر 1967 ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ، جو دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی ۔
جب پاکستان آمرانہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تباہی سے دوچار ہوا اور سانحہ سقوط ڈھاکا رونما ہوا تو پاکستان کو ایک بار پھر شہید بھٹو کی ضرورت پڑی ۔ شہید بھٹو اپنی بیٹی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام اپنے خط میں مزید لکھتے ہیں کہ ” میں اس وقت اقوام متحدہ میں تھا اور ایک ناممکن صورت حال کو بچانے کے لیے ازحد کوشش کر رہا تھا ، جب جنرل یحییٰ خان نے ہونے والی تباہی کا جائزہ لیا اور انہیں شکست ہو جانے کا مکمل یقین ہو گیا اور یہ امکان پیدا ہو گیا کہ کچھ بھی واپس نہیں ہو سکتا ۔ جو کچھ تھوڑا بہت بچا ہے ، وہ بھی خطرے میں ہے تو انہوں نے ایک خصوصی طیارہ بھیج کر مجھے پاکستان واپس بلایا ۔ 20 دسمبر 1971 ء کو انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ بری طرح ناکام ہو گئے ہیں اور یہ کہ میں شکست خوردہ پاکستان کا چارج سنبھال لوں ۔ وہ اس لئے کہ میں ہی باقی ملک کو بچانے کی اہلیت رکھتا ہوں ۔ ان مساعد حالات میں میں نے سوا 12 بجے دوپہر کو صدر پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔ ” وہ آگے لکھتے ہیں کہ ” میں نے تمام محاذوں پر بڑی سرگرمی کے ساتھ پیش رفت کی ۔ میں نے متفقہ آئین کی منظوری کے لیے کام شروع کر دیا تاکہ آئین صوبائی خود مختاری کے پریشان کن سوال پر جمہوری اتفاق رائے سے منظور ہو جائے ۔ میں نے اقتصادیات کو مجتمع کیا ۔ میں نے اہم سماجی اور اقتصادی اصلاحات کیں ۔ میں نے بنگلہ دیش کے مسئلے کو حل کیا ۔ میں نے بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا ، جس میں کوئی خفیہ شق نہیں تھی اور سندھ اور پنجاب کا 5 ہزار مربع میل سے زائد علاقہ پاکستان کے لیے واپس لیا ۔ میں نے 90 جنگی قیدی عزت کے ساتھ لئے اور ایسا بغیر جنگی مقدمات کے ہوا ۔ میں نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کی ۔ میں نے امریکا کی جانب سے اسلحہ کی سپلائی پر جو پابندی عائد تھی ، اسے ختم کرایا ۔ میں نے مسلح افواج کو جدید بنایا ۔ میں نے ملک کو دوبارہ راستے پر ڈال دیا ۔ ملک کی بحالی حیرت انگیز تھی ۔ مجھے سب سے بڑاطمینان اس بات سے حاصل ہوا کہ میں نے جمہوری طریقوں سے ملک کو آئین دیا ۔ ”
آج بھی پاکستان کو شہید بھٹو کی ضرورت ہے ۔ پاکستان تمام بحرانوں سے اس وقت نکل سکتا ہے ، جب شہید بھٹو کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ پالیسی پر عمل کیا جائے ۔ یہ خارجہ پالیسی امریکا ، روس ، چین سمیت دنیا کی تما م طاقتوں کے ساتھ تصادم سے گریز کرنا اور ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا ہے ۔ یہ خارجہ پالیسی تمام پڑوسیوں کے ساتھ مشترکہ اقدامات کرنے پر مبنی ہے ۔ یہ خارجہ پالیسی دنیا بھر میں جمہوریت اور خود مختاری کے لیے چلنے والی تحریکوں کی حمایت کرنا ہے ۔ ان کی داخلی پالیسی عوام کی بھلائی ، خوش حالی اور انہیں انصاف فراہم کرنے کے لیے کام کرنا ہے ۔ شہید بھٹو کے اسی وژن پر کام کرتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں نے اپنی جانیں قربان کیں ۔ آج بھی پیپلز پارٹی کی قیادت اور کارکن اسی وژن پر کام کر رہے ہیں اور آج یہ عزم کرتے ہیں کہ وہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا
وہ شام سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے
اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
===========================