میمورنڈم۔۔اقوام متحدہ سے کشمیر پر ثالثی نہیں مداخلت کی اپیل۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی،
==========

75 سال سے التواء کا شکار مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بین الاقوامی برادری کے منفی رویہ خاص طور پر امریکا اور اقوام متحدہ کا قراردادوں سے ہٹ کر ثالثی کا موقف اپنانے پر جموں و کشمیر کے عوام خاص طور پر آزادی پسندوں کو شدید مایوسی کا سامنا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ جب کہ آزاد کشمیر میں آزادی پسند اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیر ڈائسپورہ اس بدلتی صورت حال پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں ۔29 ستمبر کو عمران خان کے دورہ مظفرآباد کے موقع پر شہر بھر میں بینرز لگائے گئے “تسلیم کشمیر “”ہم کوئی غلام تو نہیں” ۔۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے کسی مقبول لیڈر کے دورہ کشمیر کے موقع پر اس طرح کے بینرز لگے ہوں ۔ کشمیریوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ پاکستان سے آئے ہوئے مہمان کی خندا پیشانی سے استقبال کرتے رہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو لیکن اس مرتبہ یہ بینرز نصب کر کے خاموش احتجاج کا پیغام دیا گیا کہ تماری سفارت کاری اور پالیسیوں سے ہماری تحریک آزادی کو نقصان ہی پہنچا۔ یہ پیغام صرف عمران خان کے لیے نہیں بلکہ کہ پاکستان کی قیادت اور حکومت کے لیے تھا چائے وہ کسی کی بھی ہو۔۔کسی نے دعوی نہیں کیا کہ یہ بینرز کسی پارٹی یا گروپ نے لگائے تاہم کشمیری رہنماء کے ایچ خورشید کی جماعت جموں و کشمیر لبریشن لیگ تیز رفتاری سے بحالی کی طرف گامزن ہے۔ کے ایچ خورشید کے ایک ساتھی منظور قادر ایڈووکیٹ اس کے سربراہ ہیں نوجوان کثیر تعداد میں اس جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ کے ایچ خورشید قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست ہونے کی وجہ سے سمجھدار اور تربیت یافتہ لیڈر تھے اور ان میں یہ دو خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھی جو کسی کامیاب لیڈر میں ضروری ہیں کہ ویژن اور دیانت داری کے ساتھ جدوجہد ۔ کے ایچ خورشید نے 1962 میں ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ تحریک آزادی کشمیر کی سمت درست نہیں تسلیم کشمیر کا ویژن دیا تھا ،پوری عمر سمجھاتا رہا کہ پاکستان اور کشمیریوں کے فائدے میں ہے کہ کشمیر کو بھارت کے قبضہ سے آزاد کریا جائے۔ اب اقوام متحدہ نے ٹکا سا جواب دے دیا تو صاحب بصیرت سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ کشمیر کو اگر بھارت سے آزاد کرانا ہے تو حکمت عملی تبدیل کرنا پڑھے گی۔ یہ بینرز اسی کا نتیجہ ہیں ۔ ادھر امریکا میں مقیم کشمیری قیادت نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ مسلہ کشمیر پر ثالثی نہیں مداخلت کرے۔ میمورنڈم کی عبارت سے اندازہ ہوتا ہے کہ کشمیری ڈائسپورہ نے سیکریٹری جنرل کے حالیہ بیانات کہ بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ کی ثالثی کو تسلیم نہیں کرتا کا نوٹس لیا ہے اور اقوام متحدہ کو پرانی قراردادوں کا متن اور وعدے یاد دلائے ہیں کہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری دو ملکوں کے درمیان ثالثی نہیں بلکہ تین فریقوں کے درمیان مسلے کو حل کرنے کے لیے دنیا کا واحد ذمہ دار پلیٹ فارم کے طور پر مداخلت کرنا ہے۔ سیکریٹری جنرل کو پیش کئے جانے والے میمورنڈم پر صدر آزاد جموں و کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، ورلڈ کشمیر اویئرنیس فورم کے صدر ڈاکٹر غلام این میر۔عالمی فورم برائے امن و انصاف کے چیئرمین ڈاکٹر غلام نبی فائی۔ سینیٹر شاہین خالد بٹ، چیئرمین کشمیر مشن، یو ایس اے۔ سردار سوار خان، جموں کشمیر مسلم کانفرنس آفتاب شاہ چوہدری ظہور؛ پی ٹی آئی، سردار تاج خان، مسلم لیگ ن، محمد مشتاق، پی پی پی، سردار حلیم خان، جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سردار نیاز خان؛ جموں کشمیر پیپلز پارٹی، اور سردار امتیاز خان گڑالوی، جموں کشمیر جماعت اسلامی شامل ہیں۔نیویارک میں جہاں جنرل اسمبلی کا 77واں اجلاس جاری ہے کشمیر سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات نے سائیڈ لائن پر مختلف ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کر کے اس میمورنڈم کی کاپیاں تقسیم کی تاہم مبینہ طور پر وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سے کسی کشمیری وفد نے ملاقات نہیں کہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم پاکستان کی خواہش کے باوجود یہ ملاقات نہیں ہو سکی واضح رہے کہ ماضی میں پاکستانی قیادت یو این او میں جانے سے قبل آزاد کشمیر حکومت اور قیادت کو اعتماد میں لیتی رہی ہے لیکن اب یہ خانہ پوری کی روایت بھی ختم کر دی گئی۔ 27 ستمبر 2022 کو نیو یارک سے جاری علامیہ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ میں مقیم کشمیریوں کی قیادت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99 کو کشمیر میں نافذ کریں اور جموں و کشمیر کے عوام کی حقیقی قیادت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو مذاکرات کی میز پر لائیں۔ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا ضروری ہے۔ میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کے اس اصولی موقف کو سراہتے ہیں جو آپ نے 8 اگست 2019 کو بیان کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں کے تحت حل کیا جانا چاہیے۔ اس اصولی موقف پر جموں و کشمیر کے عوام آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہندوستان کو اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزاد رائے شماری کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پابند کیا جائے یہ اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے تاکہ کشمیریوں کی سرزمین میں جمہوریت اور سماجی انصاف کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اور وہ بھی دنیا کی دیگر عوام کی طرف پرسکون زندگی بسر کر سکیں ۔ میمورنڈم میں اقوام متحدہ کو یاد دلایا گیا کہ حالیہ برسوں میں اقوام متحدہ کی 77ویں جنرل اسمبلی کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ اقوام متحدہ نے یہ دعوی بھی کیا بلکہ کریڈٹ لینے کی کوشش بھی کی کہ مشرقی تیمور، نمیبیا، جنوبی سوڈان اور دیگر ممالک کو آزادی دلانے میں مدد کی گئی ہے دعوی میں مذید کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی کوششوں کی وجہ سے، لاکھوں لوگ جو حق خود ارادیت کے لیے تڑپ رہے تھے، اب خود کو آزاد پا کر خوش ہو رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے جب دنیا ان اقوام کی آزادی پر خوشیاں اور جشن منا رہی ہے، اور اقوام متحدہ کریڈٹ لے رہی ہے وہاں اسی دنیا میں بھولی ہوئی ایک چھوٹی سی سرزمین جموں و کشمیر اقوام متحدہ کو مداخلت کے لیے پکار رہی ہے۔ جس پر بھارت نے جبری قبضہ کر رکھا ہے۔ کشمیری قیادت نے اقوام عالم کو یاد دلایا کہ 75 سال سے زیادہ عرصے سے جموں و کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کے زیر سرپرستی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے حق خودارادیت کے لیے پرامن طریقے سے جدوجہد کر رہے ہیں جب کہ بھارت نے غیر قانونی طور پر منظم طریقے سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے قوانین اور قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے، شہریت اور ڈومیسائل قوانین تبدیل کئے گئے ہیں ۔ یہ قوانین کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں جو کہ سلامتی کونسل کی کشمیر پر منظور کی گئی 18 بنیادی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ کشمیری قیادت نے کہا کہ بھارت کا ان قراردادوں پر عمل درآمد سے انکار مسئلہ کے حل سے کھلا انکار ہے اور اس نے مذاکرات اور تنازعات کے پرامن حل کے بجائے اندھا دھند قتل و غارت اور دھمکی کا راستہ اختیار کیا ہے، جو دنیا کے امن و امان اور غربت کے خاتمے کے لیے غیر مقبول اقدام ہے۔ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے پاس انصاف کے اس اسقاط کو بدلنے اور تشدد کو ختم کرنے کی صلاحیت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ اقوام متحدہ کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا محض ریکارڈ رکھنا کافی نہیں بلکہ اس پرانے اور بنیادی مسئلہ کو حل کر حطہ سے جھگڑے کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بہت زیادہ انسانی ہلاکتیں ہو چکی ہیں جن کی تعداد 100,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ کشمیر کے سب سے زیادہ قابل احترام رہنما محمد یاسین ملک کو جیل کی کال کوٹھڑی میں زندگی اور موت کی صورتحال کا سامنا ہے۔ شبیر احمد شاہ مجموعی طور پر 36 سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ خرم پرویز، جو ٹائم میگزین کے مطابق 2022 کے 100 بااثر افراد میں سے ایک ہیں، ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کر کے جیل میں ڈال دیا گیا، مسرت عالم بٹ پر لگایا جانے والا پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) عدالت سے 35 بار منسوخ کیا گیا، لیکن وہ تاحال جیل میں ہیں، آسیہ اندرابی کو گرفتاری کے وقت تھپڑ مارے گئے اور تشدد کیا گیا۔ PSA کے ساتھ 20 بار جیل میں منتقل کیا گیا ہے اور ابھی تک تہاڑ جیل بھارت میں قید ہے۔ ایسے سینکڑوں سیاسی قیدی ہیں جو اقوام عالم کی توجہ اور مداخلت کے مستحق ہیں کہ انہیں بغیر کسی شرط کے اور بلا تاخیر رہا کیا جائے۔ ان کا کوئی جرم نہیں سوائے اس کے کہ اقوام متحدہ کے وعدے کو یاد دلاتے ہیں ۔
کالم نگار سے 03002116511 واٹس اپ پر رابطہ کیا جا سکتا ہے یا bashirsaddozai@gmail.com پر