تحریک عدم اعتماد یا لوٹا کریسی کے فروغ کا منصوبہ؟


سچ تو یہ ہے،
============

بشیر سدوزئی،
======================
وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کی کتنی گنجائش ہے اس اجمال کو ظاہر ہونے میں ابھی تھوڑا وقت ہے تاہم تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اپوزیشن کے بھیچ بداعتمادی ظاہر کرتی ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس پر ہوم ورک نہیں کیا۔ شاہ غلام قادر کہتے ہیں کہ ہمیں تو کچھ خبر ہی نہیں اور راجہ فاروق حیدر کا تبصرہ اس سے بھی زیادہ جاندار ہے ” سات ممبر پورے کرنا پیپلز پارٹی کی ذمہ داری ہے اپوزیشن میں وہی اکثریتی گروپ ہے لیکن بے فیض کی مشقت کا کیا فائدہ، وزارت کی جھنڈی چھوڑ کر کوئی اپوزیشن میں کیوں آئے گا جب اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ یہاں آ کر اس کو کچھ نہیں ملنا الٹا ڈی سیٹ ہونا ہے” ۔۔ یہ سوال سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے چھوڑتے ہیں کہ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو کراچی آکر یہ شوشہ چھوڑنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ آزاد کشمیر کی حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث عدم اعتماد کی تحریک پیشکی جا رہی ہے جب نے پوری اپوزیشن ایک جگہ جمع بھی ہو جائے تو سات ممبران کی پھر بھی ضرورت ہو گی اور لوٹے خریدے بغیر یہ تعداد پوری نہیں ہو سکتی، سیاست میں لوٹا کریسی کا فروغ اچھی علامت ہے؟۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ روحانی طاقت سے مالا مال ایک زرداری سب پر بھاری کو شاید سلسلہ دربار عالیہ مری شریف نے بتایا ہو کہ حالات موافق ہیں ۔۔ عرس کی تیاریاں ہو جائے، لیکن دوسری جانب بھی کامل پیر و فقیر مسلسل چلا کاٹ رہے ہیں جن کے اثرات سے بہ قول عمران خان پہنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسڑ ایکس اور مسٹر وائے کا اثر بھی زائل رہا تو آزاد کشمیر میں زرداری صاحب کے مرشد کیسے اثر دیکھائیں گے۔ تاہم زرداری صاحب ان دنوں خرابی صحت کے باعث اسپتال میں ہیں ورنہ کچھ جادوگری تو کرتے۔ اللہ تعالی ان کو صحت کاملہ عطا فرمائے مولانا فضل الرحمن اور شریفوں کو ابھی ان کی ضرورت ہے وہی بند باندے ہوئے ہیں ورنہ عمرانی سونامی سے ان کا بھی وہی حال ہو چکا ہوتا جو آج سندھ کی عوام کا ہے۔ آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کب پیش ہوتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہوں گے اس کے انتظار سے پہلے ہی وزیراعظم سردار تنویر الیاس خان نے چوہدری لطیف اکبر کے خلاف قابل اعتراض بیان دے کر سیاسی درجہ حرارت میں گرمی پیدا کر دی۔ ایسے لگتا ہے کہ حکمرانوں کو کسی جگہ کچھ کمی لگ رہی ہے ورنہ تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے ساتھ ہی جوابی وار میں جذباتی ہو کر اپنی ناپختگی اور ناتجربہ کاری دنیا کے سامنے ظاہر کرنا مناسب عمل نہیں تھا۔ مبینہ طور پر کراچی کے کسی بڑے گھر کے بند کمرے میں آزاد کشمیر کے عوام کے مقدر کا یہ فیصلہ ہوا کہ سردار یعقوب خان آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں متوقع قائد ایوان کے امیدوار ہوں گے۔ سردار صاحب کو اس ایوان میں قائد ہونے کا موقع ملتا ہے یا نہیں لیکن کارکنوں کو تو پیغام دینے میں کامیاب رہے ہیں کہ صدر یا کسی بڑے عہدے پر نہ ہونے کے باوجود بلاول ہاوس کی آشیرباد انہی کو حاصل ہے۔ اس مرتبہ نہیں تو اگلی مرتبہ لیکن وزیراعظم وہی ہیں لہذا کارکن ادھر ادھر جھانک تانک کرنے سے باز رہیں۔ اسمبلی میں پیپلزپارٹی نے تحریک تو جمع کرا دی ہے معلوم نہیں یہ تحریک عدم اعتماد کی ہے یا اظہار اعتماد کی جو بھی ہو آیندہ ہفتہ دس دن میں لگ پتہ جائے گا کہ کون کتنا پانی میں ہے فی الحال چوہدری لطیف اکبر نشتر کی نوک پر کیا آئے کہ سیاست میں بھونچال آ گیا پیپلزپارٹی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے کہ وزیراعظم تنویر الیاس خان معافی مانگنے چوہدری صاحب کے گھر جائیں ورنہ ہم عمران خان کو مظفرآباد میں جلسہ نہیں کرنے دیں گے۔۔ اسی شور و غل میں اعتماد اور عدم اعتماد پیچھیں، گالم گلوچ، بدتمیزی اور بدتہذیبی نمایاں ہو رہی ہے جو کبھی بھی آزاد کشمیر کی سیاسی روایات نہیں رہی۔ آزاد کشمیر کا معاشرہ اپنی پرانی سیاسی روایات سے ہٹ رہا ہے بلکہ دور بہت دور جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ایک ویڈیوں میں کسی ہوٹل پر ایک صاحب نے دوسرے پر اچانک حملہ کیا، موجود تماشائیوں نے اس وقت تک چھوڑانے کی بھی کوشش نہیں کی جب تک حملہ آور نے مد مقابل کی طبعیت سے گوشمالی نہ کر لی ۔ پٹنے والے کا قصور یہ تھا کہ اس نے حملہ آور کے لیڈر کے بارے میں شاستہ الفاظ استعمال نہیں کئے۔ اب وہ کیا الفاظ تھے ،جو بھی تھے غلط تھے جس سے سامنے والا مشتعل ہو گیا لیکن جس نے حملہ کیا اس نے اور بھی زیادہ غلط کیا۔ آزاد کشمیر کی سیاسی روایات یہ تھی کہ سردار عبدالقیوم خان نے آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان کی سیاست کا جنازہ نکالا لیکن مجال ہے سردار صاحب کی شان میں کبھی منہ سے کوئی غیر شاستہ لفظ ادا کیا ہو جب بھی زبان کھولی کہا سردار ابراہیم خان تحریک آزادی کشمیر کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور ہم پستول لئے ان کی حفاظت ۔۔ کے ایچ خورشید اور سردار عبدالقیوم خان نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی ضد تھے لیکن کسی بھی جماعت کے کارکن کو یہ ہمت نہ ہوتی کے مخالف لیڈر کی شان میں زبان سے کوئی گستاخانہ الفاظ نکال سکے۔۔ دہرکوٹ دونوں جماعتوں کا مضبوط مرکز تھا لیکن لبریشن لیگ کے کارکنوں کے منہ سے سردار صاحب اور مسلم کانفرنسیوں کے منہ سے خورشید صاحب ہی سنا اور جب کوئی لیڈر سامنے آتا تو مخالف جماعت کے کارکن اس وقت تک خاموش رہتے جب تک لیڈر گزر نہ جاتا، ہوٹلوں، چائے خانوں اور سماجی تقریبات میں سب شامل ہوتے سیاسی بحث ہوتے ساتھ کھاتے پیتے اور گلے مل کر رخصت ہوتے، ۔ یہ اب کیا طوفان بدتمیزی ہو رہی ہے سیاسی کارکن دست وگریبان ، ایوانوں، سڑکوں اور چوراہوں میں، غیر شاستہ اور غیر پارلیمانی گفتگو ایسی کہ شریف زادیاں کیا اوباش لڑکے بھی شرما جائیں کہ جو الفاظ ابھی تک نہیں سنے تھے وہ سیاسی کارکنوں اور سیاست دانوں کے منہ سے مخالفین کے بارے میں سننے کو مل رہے ہیں۔ یہ حادثاتی سیاست کاروں کی سیاسی روایات سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے یا مشروب شبانہ کے کثرت استعمال کا افسانہ، جو بھی ہے درست نہیں پیپلزپارٹی میں بہت ساری خربیاں گنی جا سکتی ہیں لیکن جیالا پن پر مشروب مغرب کا اثر کبھی رات کو بھی ظاہر نہیں ہوا، لاہور کے شریفوں نے پاکستان کی سیاست میں بدتمیزی کو پہلی مرتبہ متعارف کرایا تو نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے نفیس سیاسی مدبر بھی سیاست سے کنارہ کش ہونے کے لیے سوچنے لگے۔ شریفوں کے سامنے بے نظیر بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت تھی اور اس کا گناہ بس یہ ہی تھا کہ وہ مقبول عام مگر عورت تھی مولانا فضل الرحمن ان دنوں شریفوں کے ساتھ مل کر آئی جے آئی بنا رہے تھے انہوں نے عورت کی حکمرانی ناجائز کا فتوی جاری کیا باقی کام شریفوں نے اتارا ۔ انہوں نے ساری توجہ بے نظیر کی کردار کشی پر مرکوز کر دی۔ اس کام کے لیے انہوں نے ڈوموں اور بھانڈوں کی خدمات حاصل کی جنہوں نے خوب ڈھنڈھورا پیٹا، لیکن اللہ کا بھی قانون ہوتا ہے۔ ان کو عمران خان ایسا ٹکرا کے مغرب، مشرق منہ چھپاتے پھر رہے ہیں دنیا کے کسی خطے میں ہوں کلی کوچے میں نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ البتہ ن لیگ قائم ہونے کے باوجود یہ کلچر آزاد کشمیر میں نہیں آیا۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ریاست میں بوتلیں ہی تبدیل ہوتی رہی مال تو پرانا تھا اس لیے سیاست ہو یا عام معاشرہ شرم و حیا، عزت و حترام کے رشتے قائم رہے اور یہ رشتے قائم رہنے چاہیں، بے شک ہم قبائلی علاقوں میں رہتے ہیں لیکن ہماری مشترکہ روایات برادری ازم سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہیں اور پیاری بھی ان روایات کو رہنے دیجئے نئی نسل کو بھی ان سے واقفیت ہو۔ یہ روایات کم از کم ایک دو نسل اور زندہ رہے۔ حکومت آزاد کشمیر کو بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے نتائج کی روشنی میں فوری طور پر ایک اعلی سطحی انکوائری کمیشن قائم کرنا چاہئے جو اس بات کا تعین کرے کہ حالیہ نتائج میں بدترین کارکردگی کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔ یہاں ہم پونچھ کے مختلف علاقوں کے 15 تعلیمی اداروں کے نتائج درج کر رہے ہیں سوشل میڈیا پر خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ ان تبصروں کو دیکھ کر انداز ہو رہا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام تباہ ہو چکا اور یہ ایک دو سال کے نتائج نہیں بلکہ گزشتہ دس سال سے تعلیم کا معیار گراوٹ کا شکار ہے۔ اگر بچے کی پرائمری تعلیم معیاری اور میڈل کلاسز میں تھوڑی بہت بھی توجہ دی گئی ہوتی تو میٹرک میں یہ حال نہ ہوتا۔ گونمنٹ ہائی سکول نتھہ گلہ بچوں کی تعداد 11 تھی جن میں سے 10 فیل ہو گئے۔گورنمنٹ ہائی سکول اکھوڑبن 8 میں سے 8 فیل۔ امیر حسین شہید گورنمنٹ انٹر خالج دیوی گلی میں 9 میں سے 7 فیل۔ گورنمنٹ ہائی سکول جنڈالی میں 13 میں سے 7 فیل۔ گورنمنٹ ہائی سکول پوٹھی چھپریاں میں 8 سے 7 فیل ہو گئے۔گورنمنٹ ہائی سکول نڑول میں 12 میں سے 11 فیل ہوئے۔ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول کھائیگلہ جو حلقہ تین کا مرکز ہے میں 18 میں سے 18 فیل ہو گئے۔گورنمنٹ پائیلٹ ہائی سکول ہجیرہ میں طالب علموں کی تعداد 57 تھی جن میں سے 52 فیل ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول گنڈی سیراڑی میں 17 میں سے 15 فیل ہوئے۔ گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول علی سوجل میں 6 میں سے 5 فیل ہو گئے۔گورنمنٹ ہائی سکول دوتھان میں 4 میں سے 4 فیل ہو گئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول اکرام آباد میں9 میں سے8 فیل ہو گئے
گونمنٹ گرلز ہائی سکول تھوراڈ میں 20 میں سے 11 فیل ہو چکے۔ گونمنٹ بوائز ہائی سکول تھوراڈ میں 15 میں سے 12 فیل ہو چکے ۔ گورنمنٹ ہائی اسکول پکھر میں طلباء کی تعداد 13 تھی جن میں سے 12 فیل ہو چکے۔ اگر سرکاری اسکولوں میں یہ نتائج آتے ہیں تو پھر محکمہ تعلیم کو بند کر دینا چاہیے تاکہ قومی خزانے کے اربوں روپے عوام کے دیگر مسائل حل ہونے پر خرچ ہوں ۔
==================================