پاکستان کا نوجوان مسئلہ کشمیر کی پیچیدگیوں کو سمجھ رہا ہے؟

سچ تو یہ ہے ۔

============
بشیر سدوزئی ۔
============

ہمدرد یونیورسٹی میں یکجہتی کشمیر کے حوالے سے منعقد سیمینار سے گفتگو کے دوران ایک مندوب نے حوالہ دیا کہ 2004 میں، ہم چند ساتھی مری میں ایک جھونپڑا ہوٹل پر چاہیے پینے بیٹھے جہاں ہوٹل کی دیوار پر لکھا تھا کہ کشمیر کی آزادی اور عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے تک ادھار دینا بند ہے۔۔ اس وقت ہم اس عبادت کا یہ مطلب سمجھے کہ مالک ہوٹل کا خیال ہے کہ کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عمران خان کبھی وزیراعظم ہو سکتا ہے۔ نہ کوئی ادھار مانگے گا. لیکن آنے والے وقتوں میں حالات ایسے تبدیل ہوئے کہ عمران خان وزیراعظم منتخب ہو گئے ۔ مقرر نے کہا کہ عمران خان کے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مجھے یہ بھی یقین ہو گیا کہ اب کشمیر بھی ضرور آزاد ہو گا ۔۔ یہ سنتے ہی طلباء و طالبات سے کچھا کچھ بھرا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ طالب علموں کے سوالات سن کر مجھے بھی لگا کہ واقعی حالات تبدیل ہو چکے، پاکستان کا نوجوان حقیقت جان چکا ،اب کشمیر ضرور آزاد ہو گا بلکہ جلد آزاد ہو گا لیکن شرط یہ ہے کہ کشمیری بھی سمجھ جائیں۔ نوجوانوں نے ایسے ایسے سوالات کئے کہ سری نگر یونیورسٹی کے طالب علم بھی نہ جانتے ہوں گے ۔ یہ نسل جو اعلی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ مسئلہ کشمیر سمیت قومی ایشوز کے حوالے سے اتنا باخبر ہے جتنا ہمارا وزیر خارجہ بھی نہ ہو گا ۔ اگر وہ باخبر ہے بھی تو اس کا اظہار نہیں کرتا اور یہ نوجوان اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں اور سوال بھی، مستقبل میں جب یہ اس ملک کے پالیسی سازوں میں شامل ہوں گے تو ان کو یہ سبق ضرور یاد ہو گا ۔ اب وہ وقت گیا جب سیاست دان جھوٹ بول بول کر سادہ اور نا خواندہ عوام کو بھلا پھسلا لیتے تھے اور کئی دہائیوں تک مسئلہ کشمیر پر ہی انتخابات لڑتے رہے۔۔ عمران خان کے ساتھ نوجوانوں کا کھڑا ہونا اسی سوچ کا مظہر تھا یہ الگ بحث ہے کہ ان کو کامیابی ہوئی یا مایوسی ۔ اب عوام اور خاص طور پر نوجوان اتنے باخبر ہیں کہ ہمدرد یونیورسٹی کے طالب علموں کے اکثر سوالات کے جوابات کے لیے پینل میں بیٹھے ممبران نے مائیک میرے حوالے کر دیا ۔ایک طالبہ کا سوال تھا کہ، کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ جو ہم لگاتے ہیں وہ کیوں درست ہے اور بھارتی شہری اگر یہی نعرہ اپنے حوالے سے لگائے تو کیوں غلط ہے۔ یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو 35 اے ختم کیا تو ہم نے احتجاج کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں ۔ گلگت بلتستان میں 35 اے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ۔ طالبہ کا سوال تھا کہ کشمیر خود مختار ہونے میں آپ کا کیا نقصان ہے۔ مجھے تو یہ ڈر لگا رہا کہ نوجوان یہ نہ پوچھ لیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رک کب اور کس مقام پر کہا تھا۔۔ اس طرح کے کئی چبتے سوالات کا میں نے تو سھنبالا دیا لیکن حقیقت تو یہی ہے جو وہ بچے سمجھ گئے اور قارئین بھی سمجھ رہے ہوں گے۔ البتہ اس سوال پر کہ ہم جو پاکستان والے کشمیریوں کے لیے واری واری ہو رہے ہیں یہ محبت یک طرفہ ہے کہ کشمیریوں کو بھی ہم سے کوئی لگن یا دلچسپی ہے۔ میں بھی جذباتی ہو گیا اور نوجوانوں سے کہا کہ دریا جہلم بلندی سے آ کر سری نگر کو دولخت کر کے کچھ دیر کے لیے ڈل جھیل بن جاتا ہے ۔ سری نگر کا نوجوان جب بھارتی فورسز کے سامنے ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے نعرہ لگاتا ہے ” ہم ہیں پاکستانی ، پاکستان ہمارا ہے” تو سامنے سے گولی آتی ہے۔ فوجی اس کشمیری کی میت ورثاء کو نہیں دیتا دریا جہلم کی اسی ڈل جھیل میں پھنگتا ہے، ہزاروں نوجوان غائب ہیں، وہ گم نام قبروں میں ہیں جن کو خرم پرویز کی ٹیم نے دریافت کیا تھا یا دریا جہلم کی موجوں کے ساتھ بہتی ہوئی منگلا تک آتی ہیں ۔ ان لاشوں سے رستا ہوا خون دریا جہلم کے پانی میں شامل ہو کر پہنجاب اور سندھ کو سیراب کرتا ہے۔ اس پانی سے اگتے اناج کے ذریعے کشمیریوں کا خون پاکستان بہن بھائیوں کے جسم میں شامل ہو رہا ہے۔ وہی خون پاکستانی عوام کو کشمیریوں کے لیے محبت کے جذبات ابھارتا ہے۔ اس لیے پاکستانیوں اور کشمیریوں کی دوطرفہ تعلقات اور محبت کی رسی کبھی ٹوٹ نہیں سکتی چاہیے کشمیر بھارت کے قبضہ میں رہے یا خود مختار ہو۔ ہال میں موجود ہر نوجوان نے کھڑے ہوکر تالیاں بجائیں جو دیر تک جاری رہی۔ کسی بڑی یونیورسٹی کے طالب علموں کے سامنے کھڑے ہونے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا ۔ نہ معلوم پاکستان کی اس بڑی یونیورسٹی کے طالب علم میرے اور پینل کے دیگر ممبران کے جوابات سے مطمئن ہوئے یا نہیں البتہ مجھے تو اطمینان ہوا کہ اب قوم سے چھپا کر حکمران کوئی فیصلے نہیں کر پائیں گے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ اسٹوڈنٹس یونین فوری بحال کریں اور فیصلوں سے قبل یونیورسٹیوں میں نوجوانوں کے ساتھ قومی امور پر مکالمہ جاری کریں تاکہ قوم کے معماروں سے کچھ سمجھیں اور کچھ ان کو سمجھائیں ۔ ان دنوں مسئلہ کشمیر پر سمجھنے اور سمجھانے کی جو فضاء بن رہی ہے ،لگتا ہے کہ پس منظر میں کوئی منظر کشی ہو رہی ہے ۔۔ ورنہ چوٹی کے سرمایہ دار کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ مودی ایک ماہ کے اندر پاکستان کا دورہ کر سکتا ہے۔ پاکستان کے نظام حکومت میں صدارت کی کرسی ساکت و صامت ہے لیکن صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری آزاد کشمیر کو حقیقی بیس کیمپ بنوانے کے لیے متحرک ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے لئے آزادکشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں اور قائدین اکٹھے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں آزادی کے بیس کیمپ کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی آل پارٹیز کشمیر کانفرنس بلائی گئی ۔ کانفرنس کے فیصلوں کی روشنی میں 24 فروری کو اسلام آباد میں بڑی کشمیر ریلی منعقد کی جائے گی۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ذہن میں حقیقی بیس کیمپ کا جو بھی تصور ہو ۔آزاد کشمیر حقیقی بیس کیمپ کشمیر ریلی سے نہیں، آزاد حکومت کو ڈوگرہ کی جانشین حکومت تسلیم کرنے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی شاخیں بند کرنے سے ہو گا یہ دونوں کام بیرسٹر صاحب کے دائرہ اختیار میں نہیں ۔ بیرسٹر صاحب نے جن جماعتوں کا اجلاس بلایا تھا ان میں سے صرف ایک جماعت مسلم کانفرنس بیس کیمپ کی جماعت تھی باقی ساری جماعتیں پاکستانی جماعتوں کی شاخیں تھی ۔۔ بلا ان کی کیا طاقت کہ اپنے مرکز سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ کر سکیں ۔ لہذا یہ کہنا کہ بیس کیمپ کی سیاسی جماعتوں کا اجلاس تھا درست نہیں ۔ جب وہ اجلاس ہی بااختیار کشمیریوں کا نہیں تھا تو ایسے اجلاس میں ہونے والے فیصلے کشمیریوں کے حق میں کیسے ہو سکتے ہیں ۔ آزاد کشمیر کے سیاست دان اگر یہ چاتے ہیں کہ کشمیر بھارت کے قبضہ سے آزاد ہو تو وہی معروف طریقہ اپنانا ہو گا جو دنیا کی آزادی ہسند قوموں نے اختیارکیا ۔۔ورنہ جلسے جلوس تو تسکین نفس کے لیے ہیں ۔