بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ، مگر ؟

امیر محمد خان
بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ، مگر ؟

اس بات پر کوئی دو رائے نہیں کہ سمندری پار بسنے والے پاکستانی ہمیشہ جب بھی ملک کو ضرورت پڑی وہ کسی جماعت کے لئے نہیں بلکہ ملک کی خدمت میں ہراول دستے کی طرح سب سے آگے ہوتے ہیں، بیرون ملک پاکستانی صرف اور صرف پاکستانی ہیں وہ تو مہربانی ہو ہماری سیاسی جماعتوں کی کہ وہ انہیں صرف ضرورت پڑنے پر پکارتے ہیں، یہ کام زیادہ تر ملک کی موجود حکومت کرتی ہے ،گزشتہ ہفتے تک یہ ہوتا رہا ہے کہ انہیں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا نام دیا گیا ، مگر تحریک انصاف نے اپنے منشور کا کم از کم ایک وعدہ پورا کیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا ، سابقہ ہر حکومت اسکا وعدہ کرتی رہی ہے مگر حکومت میں آنے کے بعد دیگر معاملات انکے سامنے آجاتے ہیں وہ وعدہ بھول جاتی ہیں، یہ بات اپنی جگہ سو فیصد درست ہے کہ اگر بیرون ملک پاکستانی اپنی رقومات ملک نہ بھیجیں تو ہماری معیشت اس قابل بھی نہیں کہ وہ بجٹ بناسکے، تمام تر محب وطنی کے بعد ملک میں ہونے والی افراتفری، مہنگائی کا شکار انکے اہل خانہ اسی مصیبت کا شکار رہتے ہیں بیرون ممالک پاکستانیوں کے مکانوں، زمینوں پر قبضے ہو جاتے ہیں انکا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا ، بیرون ملک پاکستانیوں کی آہ و بکاء سفارت خانوں اور قونصل خانوں تک ہوتی ہے جب شکایات کو پاکستان بھیج دیتے ہیں اور پاکستان میں انتظامیہ بیرون ملک پاکستانیوں کی محنت سے کمائی میں سے اپنا حصہ مانگ لیتی ہے ہر شہر کی انتظامیہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ”د ؤر“ یہ پیسہ کمانے والی مشین سمجھتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو خاص طور پر وزیر اعظم کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے وعدہ پورا کیا گو کہ اسمبلی کے ”مچھلی بازار “میں جسطرح 33 قوانین منظور ہوئے وہ سمندرپار پاکستانیوں کی توہین ہے ہوناتو یہ چاہئے یہ بل سو فیصد ووٹوں سے منظور ہوتا ہے اور تمام جماعتیں اس پر مثبت اظہار کرتی ہیں مگر اسمبلی میں تو کام کی کوئی بات نہ کرنے کی ممبران نے قسم کھائی ہوئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے بالآخر 90 لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں، یا دنیا کے 115 مختلف ممالک میں مقیم ملک کی آبادی کے چار فیصد سے زائد افراد کو مستقبل کے انتخابات میں ووٹ کی اجازت دے دی ہے۔ پاکستانی تارکین وطن، جو دنیا کی سب سے بڑی تارکین وطن آبادی میں سے ایک ہے، نے 2020-21 کے دوران ریکارڈ 29.4 بلین ڈالر وطن بھجوائے، اس نے ملک کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق، مالی سال 21 کے دوران ترسیلات زر کی آمد بنیادی طور پر سعودی عرب ($7.7 بلین)، متحدہ عرب امارات ($6.1 بلین)، برطانیہ ($4.1 بلین) اور امریکہ ($2.7 بلین) سے حاصل کی گئی۔یہ بھی کہاجارہاہے کہ وزیر سمندر پاکستانی جنکا گزشتہ ساڑھے تین سال سمندر پار پاکستانیوں نے صرف نام ہی سنا ہے اور انکی وزارت صرف اور صرف بیرون ملک تعینات ویلفئیر قونصلر ز سے چل رہی ہے جنکے پاس کوئی ایسے ذرائیع نہیں کہ وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی کوئی مادی مدد کرسکیں، وقت پڑنے وہ اس ملک میں موجود خیراتی اداروں یا صاحب حیثیت پاکستانیوں کی جیبوں کی طرف دیکھتے ہیں جبکہ بیرون ملک پاکستانیوں سے سفارت خانوں اور قونصل خانوں میں پاسپورٹ،اور قونصلر خدمات میں ایک حصہ ویلفئیر فنڈ لیا جاتا ہے جو انہیں 90لاکھ پاکستانیوں کی رقم ہے مگر اسکے کیا اخراجات ہوتے ہیں اسکا علم شائد کسی کو مکمل نہ ہو۔ پاکستان کی آبادی کا صرف چار فیصد حصہ بیرون ملک آباد ہے ان چار فیصد میں سے 80 فیصد چھ ممالک میں آباد ہے یا برسرروزگار ہے جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے اسکے بعد دوبئی، برطانیہ، امریکہ، عمان، کینڈا آتے ہیں، بیرون ملک اب نئی مشینوں سے ہونے والے انتخابات کیسے ہونگے اس پر سب ہی خاموش ہیں انتخابات میں ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ نہیں ، مشینیں جنہیں حزب اختلاف شیطانی مشین کا نام دے رہی ہے وہ کب آئینگی؟؟ الیکشن کمیشن اس سے انکاری ہے ، بیرون ملک پاکستانی بھی خوشی کا اظہار کرنے کے بعد اس سوچ میں ضرور پڑجاتے ہیں کہ وہ ووٹ کی بیرون ملک پاکستانی کو نہیں دینگے، وہ انہیں لوگوں کو دینگے جو گزشتہ ستر سالوں سے میوزیکل چئیر کھیل رہے ہیں اور ملک کے مصائب بڑھتے جارہے ہیں۔ بیرون ملک میں رہائش پذیر پاکستانی کی بڑی تعداد جو لاکھوں میں ہوتی ہے وہ ملک میں ہونے والے انتخابات میں اپنی من پسند جماعت اور امیدوار کو ووٹ ڈالنے جاتے ہیں،بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں میں ایک بڑی تعدار ان لوگوں کی بھی ہے وہ جو اپنے علاقوں میں پاکستان میں فلاحی کام کررہے ہیں وہ ان فلاحی کاموں کے بدلے انتخابات میں اپنی برادری ، و علاقے پر اثر انداز ہوتے ہیں اگر بیرون ملک ووٹ ڈالنا شروع ہوئے پھر بھی انتخابی مہم میں جائینگے اثر انداز ہونے کے لئے ، بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ جن 20 ڈسٹرکٹ و علاقوں میں اثر انداز ہونگے شناختی کارڈ وں کی تفصیلات کے مطابق ان میں لاہور، راولپنڈی، گجرات، سیالکوٹ، فیصل آباد، گجرانوالہ، ملتان، پشاور، سرگودھا، منڈی بھاؤدین، صوابی، اٹک شامل ہیں صرف لاہور سے شناختی کارڈ رکھنے والے بیرون ملک پاکستانی 709,821 ،پنڈی سے 546,507، سیالکوٹ سے 472,795 جبکہ کراچی کے مختلف اضلاع سے 737,593اگر اس تعداد کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں نے ووٹ ڈالے تو اسکا اندازہ لگانا آسان ہے کہ کونسی جماعتیں اس سے استفادہ حاصل کرینگی، یہ سب تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بیرون ملک میں رہنے والوں کو ووٹ دینے کا حق دینا ایک مستحسن اقدام ہے مگر اسکی مثال ایسی ہے ”آدھا تیتر، آدھا بٹیر ‘’ جب تک جیسی تیسی بھی اسمبلی ہے اس میں بیرون ملک کا نمائندہ جسے بیرون ملک سے ہی لوگوں کو منتخب کیا ہو، اسکے لئے ایک آرڈیننس اور صحیح کچھ نشستوں کا اسمبلی میں اضافہ ہو چار صوبوں کی مناسبت سے چار نشستیں تو بنتی ہیں، جب خواتین کی خصوصی نشستیں، غیر مسلموں کی خصوصی نشستیں ہوسکتی ہیں تو بیرون ملک رہنے والی اہم ترین پاکستانیوں کی نشستیں کیوں نہیں؟؟؟اسمبلی میں ماروثی، خاندانی سیاست دانوں کی موجودگی ان بے چاروں کی بہت ناتواں ہوگی مگر ہوگی تو کیونکی انکی پشت پر 90 لاکھ پاکستانی جو ملک کی معیشت کا سہارہ ہیں انکی آواز ہوگی۔