اب ہم ٹیم پاکستان پر بات کریں گے۔ طارق اقبال سے

“کھیلوں کی خبریں” اب ہم ٹیم پاکستان پر بات کریں گے۔ طارق اقبال سے
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شاندار فتوحات ٹیم نے بحرانوں سے دبنے کے بجائے پرفارم کرنے اور اپنے آپ کو منوانے کا فیصلہ کیا۔ طویل عرصے بعد پاکستانی قوم نے اپنی کرکٹ ٹیم کی شاندار فتوحات دیکھی ہیں۔ ہم جیسے کرکٹ شائقین تو خوش ہیںہی، مگر وہ بچے جو سارا دن پب جی، فری فائر میں الجھے رہتے ہیں، اب وہ بھی رضوان، بابر، آصف علی، شعیب ملک کے چھکوں کے منتظر رہتے ہیں۔ پہلی بار پاکستان میچ ہارے بغیر سیمی فائنل میں پہنچا ہے۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہر ایک کو یہی خطرہ تھا کہ انڈیا کے ساتھ میچ تو خطرناک ہو گا ہی ، نیوزی لینڈ بلکہ افغانستان سے جیتنا بھی کہیں محال نہ ہوجائے۔ تب شائد ہی کسی نے تجزیہ کیا ہوگا کہ پاکستان تمام میچز آرام سے جیت کر ٹاپ ٹیم کی حیثیت سے سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا۔ یہ کرشمہ مگر ہوچکا.
پاکستان کی موجودہ ٹیم میں اتنی پختگی، ٹھیرائو اور بردباری کیسے آ گئی جبکہ کرکٹ سے متعلقہ تمام عوامی حلقوں میں بے پناہ ہیجان پایا جاتا ہے۔ سوال یہ کہ ماضی کی ناکامیوں کے دوران اچانک ہماری ٹیم ایک فاتح ٹیم میں کیسے تبدیل ہوگئی ؟پ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ ٹیم اور مینجمنٹ بڑے تحمل، دانش مندی اور انکسار کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ ان خیرہ کن کامیابیوں نے ان میں ہیجان پیدا نہیں کیا اور وہ سکون سے قدم بہ قدم آگے کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی دو تین وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو ٹیم کا کپتان لوئر مڈل کلاس اخلاقیات لے کر چلنے والا ہے۔ انڈیا سے میچ جیتنے کے بعدا س کی ٹیم سے خطاب کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں اس نے فاتحانہ گرائونڈ کا چکر لگانے کے بجائے کھلاڑیوں کو اللہ کا شکر ادا کرنے اور درود پاک پڑھنے کی تلقین کی۔ کچھ کریڈٹ کوچنگ ٹیم کو بھی دینا چاہیے۔ ثقلین مشتاق ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں۔ ثقلین عالمی شہرت یافتہ سپنر ہیں،’’ دوسرا‘‘ جیسی حیران کن ورائٹی کے خالق۔ انہیں کوچنگ کا بھی خاصا تجربہ ہے، انگلینڈ کے علاوہ ویسٹ انڈیز اور بعض دوسری ٹیموں کی کوچنگ وہ کر چکے ہیں۔ ثقلین کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بھی میڈیا سے دور رہتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ مذہبی ہونے کے ساتھ ثقلین میں سنجیدگی اور تصادم سے گریز کا رجحان غالب ہے۔ ثقلین کی کوچنگ اور ٹھنڈے دل ودماغ کے اثرات ٹیم پر بھی نظر ا ٓرہے ہیں۔ ایک فیکٹر غیر ملکی کوچز کا بھی ہے۔ نامور آسٹریلین بلے باز میتھیو ہیڈن ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں، ہیڈن نے اپنے کیریر میں بہت محنت کر کے ترقی کی اورنام بنایا۔ وہ بھی کام سے کام رکھنے والے کوچ ہیں۔ جنوبی افریقہ کے فلینڈر ٹیم کے بائولنگ کوچ ہیں، ایک جینٹل مین ، جو لڑنے جھگڑنے کے بجائے ہمیشہ اپنی بائولنگ پر فوکس کرتا رہا۔ ان سب کی مجموعی کوشش کا نتیجہ ٹیم میں یکسوئی، اتحاد اور میچورٹی کی صورت میںنظر آ رہا ہے۔ مصباح کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے بابر اعظم اور محمد رضوان کے اوپننگ کمبی نیشن کو آزمایا اور انہیں اعتماد دیا۔ اسی وجہ سے ٹی ٹوئنٹی کی یہ کامیاب ترین اوپننگ جوڑی اس ورلڈ کپ میں غیر معمولی پرفارم کر رہی ہے۔
مجھے تو لگتا ہے کہ ان بحرانوں سے ٹیم نے دبنے کے بجائے پرفارم کرنے اور اپنے آپ کو منوانے کا فیصلہ کیا۔ کنڈیشن ان کے حق میں تھیں، امارات کی پچوں کا انہیں تجربہ رہا، سپنرز نے اچھی بائولنگ کرائی، ٹیم کے کمزور لنک حارث رئوف نے سب کو حیران کر دیا، اوپنرز نے بہت عمدہ کارکردگی دکھائی، آصف علی نے کمال کر دکھایا، حفیظ بھی فارم میں آ گئے اور ملک نے بھی خود کو منوایا۔ یوں مجموعی طور پر ٹیم کمبی نیشن ایسا بن گیا کہ فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ اللہ نے چاہا تو یہی ٹیم جمعرات (11 نومبر) سیمی فائنل اور فائنل جیت کر قوم کو خوشی سے نہال کر دے گی۔