جب جام کمال نے گھٹنے ٹیک دیئے,,,,,,,,کیا ہوا جناب علیانی?

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گھٹنے ٹیک دیئے اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے ایک دن پہلے ہی وزرات اعلیٰ کےمنصب سے استعفیٰ دے دیا‘اتوار کی شب وزیراعلیٰ جام کمال خان گورنر ہائوس کوئٹہ گئے جہاں انہوں نے گور نر بلوچستان سید ظہور آغا کو اپنا استعفیٰ پیش کیا جسے گورنر بلوچستان نے منظور کرلیا‘ وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کے بعد صوبائی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی ۔

اتوار کی شب چیف سیکرٹری بلوچستان مطہر نیازرانا نے گورنر بلوچستان کے احکامات پر وزیراعلیٰ کے مستعفی ہونے اوراستعفیٰ قبول ہونے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ذرائع کے مطابق اگلے مرحلے میں نئے قائد ایوان کے انتخاب کا شیڈول جاری کیا جائیگا ۔

ادھر جام کمال کمال خان کا کہناتھا کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران اتار چڑھاؤاور سازشوں کے باوجود ہمارے تمام ممبر ثابت قدم رہے‘اقتدارکے بھوکے اپنا شوق پوراکرلیں‘ انہوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ عمران خان اپنے اردگرد لوگو ں پر نظر ڈالیں‘عمران خان کو چاہیے کہ اپنے وفاقی سطح کے پارٹی ممبران سے کہیں کہ بلوچستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہ کریں تاکہ پی ٹی آئی بلوچستان صوبائی سطح پر اپنا کردار ادا کر سکے۔

تفصیلات کے مطابق استعفیٰ پیش کرنے کے بعد سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران اتار چڑھاؤاور سازشوں کے باوجود ہمارے تمام ممبر ثابت قدم رہے‘بہت سوچ بچار کے بعداستعفیٰ اس لئے دیا تاکہ پی ڈی ایم مزید دراڑ نہ ڈال سکے ۔

اپنے بیان میں جام کمال خان نے کہا کہ ایک ماہ تک چیلنجزاور سازشوں کا سامنا کرنے کے باوجود میرے گروپ کے تمام ارکان ثابت قدم ہے اور کوئی بھی نہیں ٹوٹا۔انہوں نے کہا کہ بہت سوچ بچارکے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ پی ڈی ایم کو ہمارے درمیان مزید دراڑیں نہیں ڈالنے دی جائیں گی اورمیں نے اپنا استعفیٰ اتفاق رائے کے ساتھ دیا۔

انہوں نے کہا کہ بی اے پی ،اے این پی ،پی ٹی آئی ،ایچ ڈی پی ،جے ڈبلیو پی کے ایسے معیاری لوگوں کا حصہ بننا میرے لئے باعث فخر ہے یہ تمام لوگ وعدوں اور پیش کشوں کے باوجود بھی میرے ساتھ کھڑے رہے۔

قبل ازیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جام کمال نے کہاتھاکہ دو ماہ میں بہت سی چیزیں کھل کر سامنے آ گئی ہیں، چہرے اور سیاست کے نام نہاد اصول سامنے آئے ہیں، لالچ اور اقتدار کی حرص، سازشیوں اور بہت سے ہیروز کو بھی دیکھا۔

وزیراعلیٰ نے اپنی پوسٹ میں نامور مفکر، فلسفی اور شاعر ابن العربی کا قول بھی شیئر کیا کہ ’’ہو سکتا ہے دنیا میں منافقت جیت جائے مگر آخرت سچوں کی کامیابی کا دن ہے‘‘۔ ان کا کہناتھاکہ صوبے کوپہنچنے والے نقصانات کے ذمہ دار بی اے پی ناراض گروپ، پی ڈی ایم اور چند مافیا ہوں گے ۔

واضح رہے کہ جام کمال کے خلاف 20 اکتوبر کو تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی جس پر 25 اکتوبرکو(آج ) رائے شماری ہونی تھی لیکن رائے شماری سے قبل ہی وزیراعلی جام کمال نے استعفیٰ دے دیا
=========================================

سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے صوبے میں صرف مرحوم جام محمد یوسف کو بحثیت وزیراعلیٰ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوسکا ہے۔

بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملنے کے بعد ممتاز بلوچ قوم پرست بزرگ رہنما سردار عطا اللّٰہ مینگل کو صوبے کا پہلا وزیراعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ، وہ 2 مئی 1972 کو وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور 13فروری 1973 کو ان کی حکومت ختم کردی گئی ، وہ اس عہدئے پر 9ماہ 11دن فائز رہے۔

صوبے کے دوسرئے وزیراعلیٰ جام میرغلام قادر کو 27مئی 1973 کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا اور اس عہدئے پر 2دسمبر 1976تک رہے 5مئی 1977کو سردار محمد خان باروزئی وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ان کا دور 4جولائی 1977 کو اس وقت تک رہا جب ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔

ملک میں 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں جام غلام قادر 6 مئی 1985 کو وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور 29 مئی 1988 تک اس عہدئے پر رہے ، میر ظفر اللّٰہ خان جمالی 2دسمبر 1988سے 24دسمبر 1988تک وزیر اعلیٰ رہے تاہم وہ اپنی اکثریت ثابت نہ کرسکے جس کے بعد نواب محمد اکبر خان بگٹی 5 فروری 1989 سے 7 اگست 1990 کو اس تک وزیراعلیٰ رہے جب ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں صدر اسحٰق خان نے تحلیل کردیں ، میر تاج محمد جمالی 17نومبر 1990 سے 22مئی 1993 تک وزیراعلیٰ رہنے کے بعد عہدئے سے مستعٰفی ہوگئے۔

جس کے بعد نواب ذوالفقار مگسی 30 مئی 1933 سے 19 جولائی 1993 اس عہدئے پر اس وقت تک رہے جب ایک بار پھر اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں ، جس کے بعد دوسری مرتبہ نواب ذوالفقار مگسی 20اکتوبر 1993سے 8نومبر 1996تک وزیراعلیٰ رہے۔

سردار اختر مینگل 22فروری1997 سے 13 فروری 1998 تک وزیراعلیٰ رہنے کے بعد مستعفی ہوئے ، میر جان محمد جمالی 13اگست 1998 سے 12اکتوبر 1999تک وزیراعلیٰ رہے جس کے بعد ملک میں اسمبلیاں توڑ دی گئیں ۔

تین سال کے وقفے کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں مرحوم جام محمد یوسف 10 دسمبر 2002 کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد 19 نومبر 2007 فائض رہے۔

نواب محمد اسلم رئیسانی 9 اپریل 2008 سے 13 جنوری 2013 ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ 9 جون 2013 سے 23 دسمبر 2015 تک وزیراعلیٰ کے عہدئے پر رہنے کے بعد مستعفی ہوئے ، جس کے بعد 24 دسمبر 2015 کو نواب ثنا اللّٰہ خان زہری صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے اور 9 جنوری 2018 تک دو سال 16 دن تک وزیراعلیٰ رہے۔

جس کے بعد میر عبدالقدوس بزنجو 13 جنوری 2018 کو وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے اور 7 جون 2018 تک اس عہدئے پر فائز رہے ، صوبے میں سات شخصیات کو نگران وزیر اعلیٰ رہنے کا بھی اعزاز حاصل رہا ہے ، صوبے کے پہلے نگران وزیراعلیٰ جسٹس (ر) خدا بخش مری تھے جو دسمبر 1988 سے 4 فروری 1989 تک فرائض انجام دیتے رہے۔

میر ہمایوں مری 7 اگست 1990 سے نومبر 1990 ، میر نصیر مینگل 19 جولائی 1993 سے 20 اکتوبر 1993 ، میر ظفر اللّٰہ جمالی 9 نومبر 1996 سے 22فروری 1997 ، سردار محمد صالح بھوتانی نومبر 2007 سے 8 اپریل 2008اور نواب غوث بخش باروزئی مارچ 2013 سے جون 2013 اور علاوالدین مری31 مئی 2018 کو نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے اور 18 اگست 2018 تک اس عہدئے پر فائز رہے۔
https://jang.com.pk/news/1002447?_ga=2.20958072.1585370244.1635173977-95093072.1635173976
==================================
جام کمال خان عالیانی 18 اگست 2018 کو وزیراعلیٰ بلوچستان منتخب ہوئے تھے ، وہ بلوچستان کے16ویں منتخب جبکہ مجموعی طور پر 23ویں وزیراعلیٰ تھے ، وہ تین سال دو ماہ اور چھ دن وزیراعلیٰ بلوچستان رہے ،جام کمال خان بلوچستان کے تیسرے وزیراعلیٰ تھے جن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی ، بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں سردار اختر مینگل ، نواب ثنااللہ خان زہری اور جام کمال خان تحریک عدم اعتماد پیش اور ووٹنگ سے قبل ہی اپنے منصب سے مستعٰفی ہوگئے۔

==================================

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ 25سال تک پارٹیاں تبدیل کرنے والے بتائیں کہ انہیں اصولوں کی بھوک تھی یا اقتدار کی ہوس تھی۔ اختر مینگل نے وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئےکہا کہ سبحان اللہ اقتدار اور لالچ کا طعنہ دینے والے نے 25سال میں جو پارٹیاں بدلی ہیں وہ کن مقاصد کے حصول کے لئے تھیں پی پی پی ‘مسلم لیگ (ن ) سے مشرف سے مسلم لیگ(ق )سے باپ یہ صدیوں کی بھوک اصولوں کی بھوک تھی یا اقتدار کی ہوس ؟ سردار اختر مینگل نے اپنے ٹوئٹ میں بی این پی کے تحریک عدم اعتماد کی مخالفت کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی اپوزیشن کے ساتھ ہے اور ان کے فیصلے کی مکمل حمایت کرینگے دوسری جانب بی این پی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر خبر گردش کر رہی ہے کہ پیپلزپارٹی کے رہنما نواب ثنا اللہ خان زہری کی وزیر اعلی جام کمال کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں شامل ہونے کی صورت میں بی این پی اور سردار اختر جان مینگل اس تحریک سے الگ ہونگے یہ خبر غلط بے بنیاد اور من گھڑت ہے