خالق ایٹم بم پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور لیاری

اور میں آج سوچتا ہوں کہ آج کے لیاری والے پیداگیر سیاستدانوں کے ہتھے کیسے چڑھ گۓ، اور بعض نوجوانوں کے ذھن میں ہیرو ازم بس گیا ہے، یہ نوجوان تاریخ سے ناآشنا بات کرتے ہیں کہ بھٹو شہید و اور ڈاکٹر قدیر مرحوم کی قربانیوں کا ادراک کرسکیں
======================================================

خالق ایٹم بم پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور لیاری ——– انتخاب ۔۔ اشفاق جعفری ——– کتاب ۔۔ عبدالرحیم موسوی اور ایک مختصر ملاقات افتتاح روجھا انسٹیٹیوٹ ۔۔۔۔ ڈاکٹر مرحوم لکھتے ہیں کہ گھر والے تو 1947 میں ہی پاکستان کراچی ؒگۓ تھے میں 1952 میں تعلیم مکمل کرکے کراچی پہنچا ، بہن ناظم آباد میں تھی ، وہاں جانا نامناسب سمجھا کہ شادی شدہ بہن کے گھر جانا اچھا نہیں ، بھاٸی کا پتہ چلا وہ شیرشاہ میں دوست کے ساتھ رہتا ہے 7/C بس جاتی ہے ، میراں ناکہ پل سے پہلے کوٸی پمپ تھا وہاں ڈراٸیور نے اچانک بریک مار کر بس روک دی مسافروں سے معذرت کی کہ بلی کا بچہ روڈ کے درمیان آگیا ہے اسے فٹ پاتھ پر رکھوں ابھی آیا بلی کے بچے کو بہت پیار سے اٹھایا اور فٹ پاتھ پر رکھا واپس آکر پھر مسافروں سے تکلیف کی معافی مانگی میں مولا مدد ہوٹل شیرشاہ اتر گیا لیکن ایک ڈراٸیور کی بلی کے بچے سے ہمدردی نے پوری لیاری کے لوگوں کی طبیعت سے آشنا کردیا کہ یہی لوگ اصل پاکستانی ہیں، میرے کام کی قدر نہ ہوٸی میں پاکستان سے چلا گیا 1971 کی جنگ کی بھارت سے جنگ کے بعد عظیم عالمی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو مجھے واپس پاکستان لایا اور ایٹمی پلانٹ بنا کر مجھے کہا کہ تمہاری پاکستان کو ضرورت ہے اپنا کام کرو جو ضرورت ہو بتاٶ بھارت کے مقابل ایٹم بم بناٶ تاکہ اس پاکستان دشمن پر ہیبت قاٸم رہے ، میری بیوی نے مجھے بھرپور وقت اور حوصلہ دیا اور ہمارا مشن بے حد کامیاب رہا بھٹو صاحب کو دنیا سے بہت دھمکیاں ملتی رہیں لیکن میرے ساتھ وہ بڑھتا رہا ، بھٹو کو شہید کیا گیا تو میں شدید رنجیدہ ہوا ، لیکن ہم جیسے لوگوں کو درد دل دبانا پڑتا ہے ، نوٹ : یہ تحریر عبدالرحیم موسوی کی کتاب میں شایع ڈاکٹر مرحوم کے کالم اور میری شمس کیریو اور شجاع شاہ صحافی سے روجھا انسٹیٹیوٹ میں محتصر ملاقات کی گفتگو کا مجموعہ ہے ، ہم تینوں صحافی 1996 میں کراچی پریس کلب کے احاطے میں بیٹھے تھے اسلام آباد کی صحافی حاتون آٸی اور ہمیں تینوں کو منتخب کیا ، حالانکہ وہاں ہم سے بڑے صحافی بھی تھے ، کہاں جانا ہے نہیں پوچھا ہاٸی ایس میں سوار ہوۓ یونیورسٹی روڈ روجھا پہنچے تو قدآور دنیا کا عظیم شخص ڈاکٹر عبداقدیر خان سامنے کھڑا ہاتھ ملانے بڑھے تو برگیڈیٸر رینک کے گارڈ نے روکا تلاشی کے خاص ہمارے ہاتھ اور ہتھیلی کو خوب ٹٹولا پھر ہاتھ ملانے کی اجازت ملی ، افتتاح کے ایک بینچ پر بیٹھے میں باتونی ڈاکٹر صاحب سے گھل مل گیا ، تو سمجھ آیا وطن سے محبت کرنا کسی عبادت سے کم نہیں ، بعد ازاں مشرف دور سے ڈاکٹر صاحب کی وفات تک معاملات قومی سلامتی کے راز ہیں ، ان پر تبصرہ نہیں کرونگا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اف تک نہ کی نظر بندی ختم کرانے عدلیہ نہیں گۓ ، تو میں کیسے کروں وطن سے وفا کیلۓ بہت کچھ سہنا پڑتا ہے ، سلام پیش کرتا ہوں شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم اور انکی شب و روز کام کرنے والی ٹیم کو کہ بھارت اب پاکستان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچتا ہے ، اور پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہے نتیجہ اخذ : ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1952 میں لیاری سے گذرا تو ایک ڈراٸیور کے عمل پر لیاری والوں کو وطن دوست انسان دوست کا سرٹیفیکیٹ دیا ، لیکن آج لیاری کہہ کر یہاں کی 18 لاکھ کی آبادی کو مشکوک کیا جاتا میں ایسے تمام لوگوں کو کہتا ہوں کہ میں تم پر لعنت بھیجتا ہوں جو لیاری کا نام لیکر اسکی عوام کی تذلیل کرتے ہیں ، وقت ملتا رہا تو لیاری کے قومی ہیروز کو اجاگر کرتا رہوں گا