بجلی اور گیس کی قمیتوں میں سو سے لے کر دو سو تک اضافہ کیا جا چکا ہے ۔ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں تقریبا دو گنا اضافہ نے محنت کشوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

مہنگائی ، بے روزگاری ، آئی ایم ایف کی غلامی اور استحصالی نظام سے نجات محنت کش طبقے کی مذاحمتی تحریک ہی سے ممکن ہے۔
(مزدور ریڈ فلیگ مارچ سے مزدور رہنماؤں کا خطاب )

کراچی (پ ۔ر )پینڈورا پیپز جیسے انکشافات حکمران طبقات کی لوٹ مار کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ حکمران ٹولہ ملکی وسائل کی بے دریغ لوٹ مار سے حاصل کی گئی دولت بیرون ملک منتقل کر رہا ہے جب کہ کڑوروں محنت کش تمام تر محنت اور مشقت کے باوجود زندگی کے بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں ۔ حکمران نے اپنے گروہی مفادات کے لیے ملک کو آئی ایم ایف اور سامراجی اداروں کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس معاشی غلامی کے نتیجے میں ملک کی معیشت اور اس پر قائم کا گیا مصنوعی سیاسی نطام دیمک زدہ ہو چکا ہے۔ جبر کے اس نظام کے خلاف مزدور طبقہ فیصلہ جنگ کا تہیہ کر چکا ہے۔
ان خیالات کا اظہار مزدور رہنما نے ورکرز ریڈ فلیگ مارچ میں کیا ۔ اس مارچ کا اہتمام نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان نے مشترکہ طور پر کیا تھا جس میں مزدرووں کی بڑی تعداد نے سرخ پرچموں کے ساتھ شرکت کی۔ ورکرز مارچ کا آغاز ریگل چوک سے ہوا اور اس کا اختتام کراچی پریس کلب پر جلسے سے ہوا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مزدور رہنماؤں نے کہا کہ حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش معاشی، سیاسی اور خارجہ پالیسیوں کے نتیجے میں ملک آتش فشاں کے دھانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ ملک کے اندر اور سرحدوں پر خطرناک لاوا پھٹا چاہتا ہے۔ حکمران طبقات عوام کے خلاف بین الاقوامی سرمایہ کے مفادات کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ ملک کا مالیاتی نظام مکمل طور پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ملازمین کی گرفت میں آ چکا ہے جس کا بھیانک نتائج یہ ہیں کہ مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کا عفریت پورے معاشرے پر مسلط ہے۔ اشیاء خود نوش خصوصا آٹا، چینی، تیل ، گھی، چاول اور دالوں کی قیمتوں میں سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ انسانی زندگی کے لئے ضروری ادویات کے نرخوں میں تین سو سے چار سو فیصد جب کہ بجلی اور گیس کی قمیتوں میں سو سے لے کر دو سو تک اضافہ کیا جا چکا ہے ۔ پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں تقریبا دو گنا اضافہ نے محنت کشوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی نمائندے نہایت ہی ڈھٹائی سے یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستن کے عوام صرف پیٹرولیم مصنوعات پر ہی چھ سو دس ارب روپے سے زائد کا سالانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر زرائع سے حکومت چار ہزار ارب روپے سے زیادہ ٹیکس جمع کر چکی ہے۔ جس میں سے اشیاء ضررویات پر عائد جی ایس ٹی جو کہ کل حکومتی آمدن کا اکتیس فیصد ہے عوام کی جیبوں سے نکلوا چکی ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں آج صورت حال یہ ہے کہ ایک کڑور ساٹھ لاکھ سے زیادہ کام کے قابل افراد بے زورگار ہیں۔ ملک میں غربت کی لکیر سے نچے زندگی گزرنے والے افراد کی تعداد میں دو کڑور سے زائد افراد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ خیراتی لنگر خانوں میں پیٹ کا دوزخ بجھانے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں بھکاریوں اور بے گھر افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام دشمن بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے زیر اثر پبلک سیکٹروں کے اہم اداروں کو منصوبہ بند طریقے سے مفلوج بنا کر ان کی نجکاری کر رہی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں ورکرز کے بے روزگار ہونے کے امکانات ہیں ۔
مزدور نمائندوں نے کہا کہ اس حکومت کی عوام کش پالیسیوں کے نتیجے میں روپے کی قدر میں تقربیا سترہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ محنت کشوں کی حقیقی اجرتیں آدھی سے بھی کم رہے گئی ہیں۔ پاکستان میں افراط زر کی شرح گیارہ فیصد سے بھی زیادہ ہے جو کہ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت دوگنی جب کہ فی کس آمدنی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت نصف سے بھی کم ہے۔ ملکی و غیر ملکی قرضوں کے حجم میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ۔ غیر ملکی قرضہ جات جو 2018 میں 93 ارب ڈالرز تھے وہ بڑھ کر 122 ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں جب کہ اندونی قرضہ جو 2018 میں 25 ٹریلین روپے تھا بڑھ کر 40 ٹریلین کی سطح تک جا پہنچا ہے۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ اس بدترین معاشی بحران میں حکومت کے اعلان کردہ کم از کم اجرت پچیس ہزار سرکاری اعلان کے خلاف بے حس سرمایہ دار اور ان کی تنظیموں نے کورٹ کے زریعے عمل درآمد روکنے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ یہ وہی قانون شکن بے حس سرمایہ دار ہیں جو نہ تو ٹیکس ادا کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی ورکرز کو کم از کم اجرت کی ادائیگی کو مزدرووں کا بنیادی حق نہیں مانا۔ یہ سرمایہ دار 99 فی صد ورکرز کو یونین سازی کے آئینی حق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے اداروں میں غیر قانونی ٹھیکیداری نظام کو مسلط کیا ہوا ہے ۔ آج فیکٹریاں ، کارخانے اور کارگاہیں بندی خانوں کا منظر پیش کر رہے ہیں جہاں ورکرز کو غیر انسانی اور غیر محفوظ ماحول پر کام کرنے کو مجبور کیا جاتا ہے۔
مزدرووں کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہ سرمایہ دار سیکورٹِی اداروں کے سابقہ افسران کو بھاری تنخواہیوں پر ملازم رکھتے ہیں۔صنعتی زونز میں مکمل طور پر مارشل لاء جیسا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ، لیبر کورٹس اور این آئی آر سی جیسے ادارے سرمایہ داروں کے فرنٹ مین اور مزدور حقوق کے خلاف مورچہ زن ہیں ۔ کارگاہوں میں انسانی حقوق ، لیبر قوانین اور آئین کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق کی پامالی عام معمول ہے۔ یہ ان حالات میں ہو رہا ہے جب پاکستان نے 2014 سے جی ایس پی پلس کے تحت حاصل شدہ معاشی مراعات کے عوض مزدرووں کے حقوق کی پاسداری کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن جس طرح جی ایس پی پلس میں دیئے گئے مزدور حقوق کی خلاف وزی ہورہی ہے اس کے نتیجے میں پورپین ممالک میں برآمدات کئے جانے والے ملبوسات و مصنوعات پر دوبارہ بھاری ڈیوٹی عائد کی جا سکتی ہے جس کے ملکی صنعت خصوصا ٹیکسٹائل اور گارمنٹ پر بدترین اثرات مرتب ہو نگے۔
مزدور رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے جاری معاشی اور سیاسی بحران میں عوام کی مختلف پرتیں سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ ملک میں مندلاتے بھیانک معاشی ، سیاسی و معاشرتی بحران کی نشان دہی کرنے والے سیاسی، سماجی کارکنوں ، صحافیوں اور نشر و اشاعت کے اداروں پر غیر آئینی قدغن لگائی جا ررہی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی جانب سے حقائق چھپانے، معلومات تک رسائی اور تحریر و تقریر کی آ،ادی جیسے مسلمہ بنیادی آئینی اور بین الاقوامی انسانی حق کو سلب کرنے کے لیے میڈیا ڈیولپمنٹ اٹھارٹی مسلط کرنے کی سازش تیار ہو چکی ہے۔ جس کے خلاف ملک بھر کے صحافی اور میڈیا ورکرز سراپا احتجاج ہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ اس بحرانی کیفیت سے نجات کا واحد راستہ محنت کشوں کی ملک گیر تحریک اور تنظیم ہی کی صورت میں ممکن ہے جس کے لئے کوششوں کا آغاز کیا جا چکا ہے۔
ورکرز کی ریلی کے اختتام پر کئی ایک قرار دادوں کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ
۱۔ کم از کم 25000 روپے اجرت کو یقینی بنایا جائے۔
۲۔ آٹھ گھنٹے کام ، ہفتہ وار بما اجرت چھٹی ، اوور ٹائم ڈبل اجرت کے ساتھ یقینی بنایا جائے۔
۳۔ ٹھیکیداری جیسے جدید غلامی کے مجرمانہ گیر قانونی نظام کو خاتمہ کو فی الفور ختم کی جائے جائے۔
۴۔ سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے ہر محنت کش کو رجسٹرڈ کیا جائے۔
۵۔ کار گاہوں میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور ہراسگی کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔
۶۔ کارگاہوں کو قتل گاہیں بننے سے روکنے اور کام کے ماحول کو محفوظ بنایا جائے۔
۷۔ آٹا , گھی ، دال ، چینی ، چاول ، دودھ ، بجلی ، گیس ، پیٹرول ، ادویات، تعلیم ، صحت ، ٹرانسپورٹ اور دیگر ضروریات زندگی سستی اور عوام کی پہنچ میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جائیں ۔
۸۔ پبلک اداروں بشمول پاکستان اسٹیل، واپڈا کی نج کاری کے منصوبے کو فل الفور ختم کیا جائَے۔
۹۔ سرکاری ، نجی اور خودمختار ادروں سے جبری برطرف محنت کشوں اور صحافیوں کی بحالی کیا جائے۔
۱۰۔ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی جیسے کالے قانون کے نفاذ کو روکا جائے۔
پاکستان اسٹیٹ لاٸف انشورنس کے ورکرز کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کا سروس اسٹرکچر سے متعلق مطالبات کو تسلیم کیا جائے اور ریٹائرڈ لیڈی ورکرز کو پینشن دی جائے۔
کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس میں یونین پر عائد پابندی ختم کی جائے ۔

مظاہرے سے خطاب کرنے والوں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے ناصر منصور، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی زہرا خان، عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے رہنما کامریڈ بابا جان ،نیشنل لیبر کونسل کے کرامت علی، ہومن رائٹ کمیشن آف پاکستان کے اسد اقبال بٹ، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رفیق بلوچ، ریاض عباسی ، ورکرز رائٹس موومنٹ کے گل رحمان،کراچی یونین آف جرنلسٹ کے فہیم صدیقی، پاکستان فشر فوک فورم کے کامریڈ سعید بلوچ ، یونائٹیڈ ایچ بی ورکرز یونین کی سائرہ فیروز، ہوم بیسڈ وومن بینگل ورکرز کی جمیلہ الطیف، انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساجد ظہیر، یچ آر سی پی کے قاضی خضر ، جے اینڈ پی کوٹس کے عاقب حسین، روف ٹیکسٹائل ورکرز یونین کے بابر خان، پاکستان ٹریڈ یونین دیفینس کمپین کے کامریڈ جنت حسین، سانحہ بلدیہ ایسوسی ایشن کی سعیدہ خاتون، لیاری عوامی محاذ کے خالق زدگان ، ترقی پسند دانشور ڈاکٹر اصغر درشتی،جنرل ٹیکسٹائل ورکر یونین کے اویس جتوئی ، ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن کے میر ذرالفقار، لیڈی ہیلتھ ورکرز یونین کی حلیمہ لغاری ، جے کے اے این پی کے کامریڈ سلطان، کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈ رشید، مزدرو کسان پارٹی کے کامریڈز ، ریلوے ورکرز یونین کے منظور رضی، شپ یارڈ یونین کے محبوب خان، ہوم بیسڈ وومن ورکرزفیڈریشن کی رہنما رابیعہ اور نادرہ ، ایسیٹی یونین کے ظاہر شاہ، پی سی ورکرز یونین کے نمائندے ، ترقی پسند دانشور واحد بلوچ ، توقیر عباس و دیگر شامل تھے۔