سندھ حکومت کے لیے بدنامی کا باعث بننے والا یہ افسر کون ہے ؟خواتین ملازمین نے اس پر مالی اور اخلاقی کرپشن کے الزامات کیوں لگائے ؟

سندھ حکومت میں کام کرنے والے افسران پر مالی کرپشن کے الزامات ویسے تو کوئی نئی بات نہیں رہی ،نیب اور اینٹی کرپشن اور دیگر اداروں میں ایسے افسران کی لمبی فہرستیں موجود ہیں لیکن صوبائی حکومت میں کام کرنے والا ایک افسر انتہائی بد نام ہو چکا ہے

اور اس کی وجہ سے صوبائی حکومت یہ بد نام ہو رہی ہے کیونکہ خواتین ملازمین نے اس پر مالی اور اخلاقی کرپشن کے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے اسے عہدے سے فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کردیا ہے بصورت دیگر خواتین ملازمین نے صوبے بھر میں احتجاج کی تیاریاں شروع کردی ہیں ۔

یہ افسر کون ہے ؟اس کا پس منظر کیا ہے ؟اور اسے سندھ حکومت میں اتنا طاقتور مگر بد نام کیوں سمجھا جا رہا ہے ؟اس حوالے سے لوگوں کے ذہن میں بہت سے سوالات کر رہے ہیں ۔


تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں صوبائی حکومت کی چند خواتین ملازمین نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں موصوف کا ذکر آیا اور ان کے حوالے سے کھل کر باتیں کی گئیں اور الزامات کی بارش ہوئی اور صحافی بھی اس سرکاری افسر کی مالی اور اخلاقی کرپشن کی باتیں سن کر دنگ رہ گئے ۔
آل لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام یونین کی صدر بشری آرائیں نے دیگر ساتھی ملازمین اور عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کراچی پریس کلب میں الزام عائد کیا کہ ۔۔۔۔۔۔
ذوالفقار دھاریجو خواتین ہیلتھ ورکرز کو ہراساں کرتے تھے سپریم کورٹ کے حکم پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور انہیں دوبارہ تعینات نہ کرنے کا حکم دیا تھا لیکن سندھ حکومت نے کچھ عرصہ پہلے انہیں دوبارہ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام میں ایڈیشنل ڈائریکٹر تعینات کر دیا اور اب وہ دوبارہ خواتین ہیلتھ ورکرز کو ہراساں کر رہے ہیں ۔۔۔۔
بشری آرائیں نے بتایا کہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہیں خواتین کے دوسرے پروگرام کمیونٹی مڈ وائف پروگرام کا اضافی چارج بھی دے دیا گیا ہے ۔
انہوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ تعیناتی کا نوٹس لیں اور ایک بار پھر خواتین ہیلتھ ورکرز کی عزتوں کو محفوظ بنائیں ۔
آل لیڈی ہیلتھ ورکرز نے کہا کہ سندھ حکومت مالی اور اخلاقی کرپشن میں ملوث شخص کو فوری عہدے سے ہٹائے ورنہ صوبے بھر میں احتجاج کریں گے ۔
اس پریس کانفرنس کے بعد صوبائی حکومت اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کے دعوے کے حوالے سے مختلف نئے سوالات سر اٹھا چکے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ سندھ کی وزیر صحت خود ایک خاتون ہے اگر مذکورہ افسر واقعی مالی اور اخلاقی کرپشن میں ملوث ہیں تو خواتین ہیلتھ ورکرز اپنی شکایت لے کر خاتون صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کے پاس کیوں نہیں گئیں؟ کیا وزیر صورت حال سے بے خبر ہیں ؟یا انہوں نے خواتین ہیلتھ ورکرز کی شکایات کو قابل اعتبار نہیں سمجھا ؟کیا صوبائی وزیر صحت خود ذولفقار دھاریجو کی پشت پناہی کر رہی ہیں

اور ان کو ایک بہتر قابل اور ناگزیر افسر سمجھتی ہیں جو ان کو بار بار یہ ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں یا محکمے کے معاملات صوبائی وزیر کے ہاتھ میں نہیں ہیں اور ذولفقار دھاریجو اتنے طاقتور افسر ہیں کہ اپنی تعیناتی اور ضعفی چارج کے احکامات براہ راست کہیں اور سے لے آتے ہیں ؟کیا انہیں وزیراعلی ہاؤس کی پشت پناہی حاصل ہے یا ان کے خاندانی طاقتور رابطے ان کی پوسٹنگ کرانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ؟
یہ سوالات بھی موجود ہیں کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ہراسگی کمیشن اور مختسب اعلی کے دفاتر موجود ہیں اگر ذوالفقار دھاریجو نے پہلے یا اب بھی کسی خاتون ہیلتھ ورکر کو ہراساں کیا ہے تو اس کے خلاف باضابطہ شکایت کیوں نہیں درج کرائی جارہی ؟اور ہراسگی قوانین کے تحت کاروائی چلانے پر اصرار کیوں نہیں کیا جا رہا ؟لوگ اس شک کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ قانونی چارہ جوئی نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ

الزامات میں زیادہ صداقت نہیں یا سرکاری افسر کو بلیک میل کیا جارہا ہے ؟


دوسری طرف سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن جسٹس ماجدہ رضوی نے چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ کو جو رپورٹ پیش کی ہے اس نے بھی بتایا گیا ہے کہ ہراسمنٹ اور دیگر حوالوں سے 728 شکایات سامنے آئی ہیں جن میں کراچی میں 195 حیدرآباد میں 43 بدین میں 39 دادو میں 47 منٹ کی میں بیس

جیکب آباد میں 14 شامل ہیں ان میں غیرت کے نام پر قتل اغوا گریلو تشدد ہراسمنٹ جبری شادیوں کی شکایت شامل ہیں ۔

لیکن لیڈی ہیلتھ ورکرز نے تاحال ذوالفقار دھاریجو کے خلاف نہ تو ہراسمنٹ کی کوئی درخواست دائر کی ہے اور اگر دائر کی ہے تو اسے میڈیا میں پیش نہیں کیا گیا اس کے علاوہ جسٹس شاہنواز طارق کی سربراہی میں صوبائی محتسب اعلی کا دفتر بھی قائم ہے اور اپنا کام کر رہا ہے جو ورک پلیس پر ہراسمنٹ کے کیسز دیکھتا ہے وہاں پر بھی ایسے معاملات میں رجوع کیا جا سکتا ہے ۔
اگر ذوالفقار دھاریجو مالی اور اخلاقی کرپشن میں ملوث ہے تو اسے کوئی رعایت نہیں ملنی چاہیے لیکن اس کے خلاف الزامات عائد اور اس کا میڈیا ٹرائل کرنے کی بجائے موجودہ ملکی قوانین کے مطابق اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرنا بہتر ہوتا ۔اگر الزامات سچے ہیں تو پھر قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا ۔
دوسری طرف ایسے معاملات میں سندھ کے چیف سیکریٹری کا کردار بھی زیر بحث ہے کہ وہ ایسے افسران کے خلاف سامنے آنے والی شکایات پر کیا ایکشن لیتے ہیں ۔مجموعی طور پر چیف سیکرٹری سندھ ممتاز شاہ کے دور کو ایک بہتر اور اطمینان بخش دور کہا جا سکتا ہے لیکن بعض افسران اور ملازمین کو یہ شکایات ہیں کے چیف سیکریٹری صوبے کے انتظامی سربراہ ہونے کی حیثیت سے اپنے ماتحت افسران اور ملازمین پر کڑا وقت آنے پر ان کا دفاع نہیں کرتے اور ان کے لئے اسٹینڈ نہیں لیتے ۔بعض افسران کو اچھی کارکردگی دکھانے کے باوجود اہم عہدوں سے ہٹا دیا جاتا ہے تو بعض افسران ایک سے زائد عہدوں کا اضافی چارج ہمارے ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ منظورنظر ہیں اور ان پر عنایات کی بارش ہو رہی ہے ایسی صورتحال میں بعض افسران میں مایوسی اور بددلی پھیلی ہوئی ہے جب کہ وہ افسران جن کی پانچوں انگلیاں ہیں میں اور سر کڑاہی میں ہے وہ ہر فورم پر سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہے ہیں ۔
————————
Jeeveypakistan.com——-whatsapp—–92-300-9253034