نہ کریں!۔۔۔۔۔۔


تحریر: سہیل دانش
————————-
نہ جانے ہم پیچھے مڑ مر کر دیکھنے کے کیوں عاد ی ہیں۔
زوہیب حسن اور اشتیاق بیگ کیوں الجھ پڑے ہیں دونوں ایک دوسرے پر الفاظ سے آگے بڑھ کر الزامات کے تیر چلا رہے ہیں۔ تنازعہ کی وجہ اپنے وقت کی چمکتی دمکتی اسٹار نازیہ حسن ہیں۔ جو زوہیب کی ہمشیرہ اور اشتیاق بیگ کی اہلیہ تھیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچ رہے ہیں۔ کہ وہ نازیہ حسن تو تھیں۔ جن کے دم سے ان دونوں کے گھروں میں روشنی کا نگر آباد تھا۔ وہ اس ہنستے بستے ماحول میں بیماری کی تکلیف و کرب کی ٹیسیں اپنے وجود میں محسوس کر تے کرتے تھک گئیں تو انہوں نے آنکھیں موند لیں۔ اس کی محبتوں کا تو آپ دونوں پر قرض تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ نادیہ کی موت کے (21) اکیس سال بعد وہ کونسی بے چینی چبھن کرب اور احساس تھا کہ زوہیب کے ذہن میں سچ کا سورچ یکدم طلوع ہو گیا وہ کون سے اندیشے اور حقائق تھے۔ کہ اتنے لمبے عرصے تک جو اندھیری اور تاریکی میں اسے گھورتے رہے اور وہ چپ سادھے رہا پہلے یہ تو مان لیجئے کہ ہر انسان میں کچھ بشری کمزرویاں ضروری ہوتی ہیں یہ چند سطریں میں صرف اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آپ دونوں کے خاندانوں سے تعلق اور ارادت کا ایک رشتہ ہے۔ محترمہ منیزہ بصیر صاحبہ کا ایک وقت تھا۔ وہ انتہائی شائستہ ملنسار اور ایک باوقار خاتون ہیں ان کی شخصیت اور زندگی نفاست اور سلیقہ شعاری سے مزین رہی اب بیماری اور ضعف نے انہیں محدود کر دیا ہے۔ بصیر صاحب خود ایک منکسر المزاج اور دھیمے انسان تھے اور اشتیاق بیگ صاحب۔ ۔ ۔ آپ کے خاندان کا بھی ایک وقار ہے۔ اختیار بیگ صاحب اور آپ کا کتنا بڑا حلقہ احباب ہے آپ دونوں بھائیوں نے اپنی شبانہ روز محنت اور جدوجہد سے جو وقار اور عزت حاصل کی ہے۔ آپ کو جاننے والا ہر کوئی اس سے واقف ہے۔ ملنساری اور انسان دوستی آپ بھائیوں کی پہچان ہے۔
نازیہ حسن کے کیا کہنے ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ سجائے نازیہ کی آواز۔ ۔ ۔ ہر کسی کو اس کا دیوانہ بنادیا تھا۔ اس کے ایک گانے نے شہرت اور پسندیدگی کے تمام ریکارڈتوڑ دئیے تھے وہ سرحد کے دونوں طرف رہنے والوں کے دلوں کی پسندیدہ آواز بن گئی۔ آواز کے جادو نے دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے۔ کتنے سال بیتے جب نازیہ کی والدہ منیزہ بصیر صاحبہ نے جناب جاوید جبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا۔ یہ شاید 90کی دہائی کے ابتدائی سال تھے۔ جاوید جبار نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمارے معاشرے میں چند سماجی معاشرتی تبدیلیاں ہوئیں اس دور میں پاکستان میں فنون لطیفہ اور موسیقی میں بدلتے ہوئے رجحانات اور ان کی حدود کے حوالے سے منیزہ بصیر کا خیال تھا کہ ان کے بچوں میں قدرتی طور پر موسیقی کا رجحان تھا۔ رائٹنگ ،پینٹنگ اور موسیقی نازیہ کے رجحانات کی عکاسی تھیں ۔ منیزہ کے خیال میں ان کے بچے دو مختلف سماجوں میں پلے بڑھے تھے۔ ہم کبھی لندن میں رہے اور کبھی پاکستان میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نازیہ اور زوہیب کو پاکستان میں بڑی محبت اور پذیرائی ملی۔ ہم ماں باپ نے انہیں سپورٹ ضرور کیا لیکن موسیقی سے ان کا لگاؤ مثالی تھا۔ ہاں نازیہ حسن کا پہلا گانا آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آے انڈین فلم کے لئے تھا۔ منیزہ بتاتی ہیں کہ نازیہ حسن کی آواز میں اس گانے کی خواہش کا اظہار خود اس وقت بھارت کی صف اول کی اداکارہ زینت امان نے کیا تھا ۔ میں نے سوچا بھارت میں ہر سال سینکڑوں فلمیں بنتی ہیں،ہزاروں گانے تخلیق ہوتے ہیں۔ نازیہ کا یہ گانا بھی ان میں سے ایک ہوگالیکن حقیقت یہ تھی کہ اس گانے نے دھوم مچادی۔ منیزہ اور جاوید جبار اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اچھے تعلقات میں فلم اور موسیقی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ کیونکہ فن کی کوئی حدود و قیود نہیں ہوتیں اس کی اپنی ایک شناخت ہوتی ہے۔ اس لئے نازیہ کی آواز بھی دونوں ممالک میں محبت کے رشتے کا ایک پیغام ضرورتھی۔ اس کے مشہور زمانہ گیت تیری میری ایسی دوستی جیسے گانوں کی گونج رابطوں میں نرم گوشہ مہیا کرنے کا ایک ذریعہ ضرور بن سکتی ہے۔ جاوید جبار بتاتے ہیں کہ جب مجھے بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا تو انہوں نے پی ٹی وی پر جناب اسلم اظہر کی نگرانی میں میوزک 89کے عنوان سے ایک موسیقی کا پروگرام شروع کروایا جس میں نازیہ نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ میں نے اس وقت پاکستان کی اسمبلی میں کھڑے ہوکر موسیقی کے کمالات اور اس کی اثر انگیزی کا کھل کر اظہار کیا تھا۔ نازیہ حسن نے اقوم متحدہ کے زیر اہتمام کئی سماجی اسائمنٹس پر اپنا ایک مؤثر کردار ادا کیا۔ جاوید جبار نازیہ حسن کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ماضی کے اوراق الٹتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب 1987-88 میں تھر پارکر میں قحط پڑا تو وہ ایک تکلیف دہ صورتحال تھی وہاں کے ہزاروں لوگوں کو خوراک، ادویات اور پانی کی اشد ضرورت تھی اس وقت نازیہ نے ہمارے ساتھ مل کر ان علاقوں میں بڑا کام کیا مجھے یا دہے اس نے وہا ں لوگوں کو اپنے گانے سنائے۔ بچوں میں ہزاروں ایسے کھلونے بانٹے جو شاید انہوں نے اس سے قبل دیکھے بھی نہ تھے۔ ان بچوں کی آنکھوں میں چمکتی اس مسرت اور شادمانی کے جذبات کو ہمیشہ یاد کرتا ہوں تو مجھے نازیہ حسن کا انسان دوستی کا جذبہ یاد آجاتا ہے گلوکار عالمگیر نے نازیہ کے متعلق کہا تھا کہ اس نے پوپ موسیقی کو وہ جہت، اسلوب اور رنگ دیا جس نے اُسے حسین بنا دیا۔ نازیہ کے متعلق یہ چند باتیں لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ نازیہ ہی زوہیب اور اشتیاق بیگ کے درمیان تنازعے کا عنوان ہے جسے اس دنیا سے رخصت ہوئے 21برس ہو چکے ہیں جب اس حوالے سے اشتیاق بیگ سے گفتگو کریں تو لگتا ہے کہ سچ مچ نازیہ کا خیال ہی ان کے لئے یادوں کی زنجیر ہے اور یہی یادیں ان کی زندگی کی کتاب کا ٹائیٹل ہیں۔ آج جب اشتیاق بیگ کے پاس زندگی کی ہرنعمت ہے۔ وہ اور ان کے بھائی جناب اختیار بیگ ایک وسیع کاروبار کے مالک ہیں وہ کہتے ہیں کہ نازیہ کو پہلی بار کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص 1992میں ہوئی 1995میں جب میری شادی ہوئی تو مجھے معلوم تھا کہ وہ اس بیماری سے لڑ رہی ہیں لیکن ظاہر ہے محبت میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔ عشق کا غبار اردگرد کی حقیقتوں کو اپنے دامن میں چھپا لیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ نازیہ میری بہن آفرین بیگ کی دوست تھی اسی حوالے سے میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ نازیہ سے اپنے لگاؤ کا ثبوت کچھ اس طرح سے دیتے ہیں کہ خیابان مسلم ڈیفنس کراچی کے ایک وسیع اور عالیشان میتشن میں تنہارہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کی زندگی میں سب کچھ ہے لیکن ایک کمی ہے جس کا نام نازیہ حسن ہے۔ اور اس کمی کی یادوں کو شاید انہوں نے اپنی زندگی کا ہمسفر بنا لیا ہے۔ ان کی محبت کی نشانی اریز حسن کی صورت میں موجو د ہے۔ اشتیاق بیگ نے یہ بھی بتایا کہ ان کا نازیہ حسن سے دوبارہ نکاح ہوا ایک بار پاکستان میں اور ایک بار انگلستان میں۔ انگلینڈ میں نکاح کی وجہ ان کی خوش دامن کی خواہش تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ لندن میں جج کے سامنے اس اقرار سے یہ دونوں بر طانوی قانون کے تحت رجسٹرڈ ہو جائیں گے۔ اپنے بیٹے اریز کو اپنے پاس نہ رکھنے کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو کسی کشمکش میں نہ رکھنے کی وجہ سے اس کی کسٹڈی کے لئے سسرال والوں سے کوئی عدالتی لڑائی نہیں کی۔ انگلستان کی عدالت نے مجھے یہ آپشن دیا تھا کہ مستقل طور پر انگلینڈ میں رہوں۔ تو بیٹے کی کسٹڈی مجھے دی جا سکتی ہے۔ میرے لئے ممکن نہیں تھا۔ پھر زوہیب اور ان کے والد نے ایک ارب روپے میں اریز کو مجھے دینے کی شرط بھی رکھی تھی لیکن میں ہر قیمت پر اپنے بیٹے کو کسی بھی تنازعے سے دور رکھنا چاہتا تھا۔
اب دیکھتے ہیں کہ زوہیب کیاکہہ رہے ہیں۔ ان کا سارا موقف میڈیا پر آچکا ہے نازیہ کو زہر دینے سے لے کر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے الزامات تک وہ اشتیاق بیگ پر لگا چکے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ نازیہ نے مرنے سے پہلے اشتیاق بیگ سے طلاق لے لی تھی۔ اشتیاق بیگ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کے جواب میں زوہیب کو ہتک عزت کے حوالے سے ایک ارب روپے ہر جانے کا نوٹس بجھوا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شکوہ جواب شکوہ ہی نہیں الزامات در الزامات کے طومار سب نے ٹی وی اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سن لئے ہیں اور دیکھ لئے ہیں ۔ پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر زوہیب حسن پر سچ کا سورج 21سال بعد کیونکر طلوع ہوا۔ غلطیوں کمزوریوں کوتاہیوں اور لغزشوں سے ہم میں سے کوئی بھی مبرا نہیں ۔بعض اوقات ہم جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہہ نہیں پاتے۔ ہم بھٹک جاتے ہیں۔ راستہ بھول جاتے ہیں۔ ہم بعض اوقات بے لگام گھوڑے پر سوار ہو کر اندیشوں اور خدشات میں حقائق تلاش کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ شہرت کے ساتھ مخالفت کے محاذ کھل جاتے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے۔ دولت اور شہرت آپ دونوں کے گھروں کی باندیاں ہیں۔ آپ دونوں خاندانوں کو اللہ نے دنیاوی طور پر وہ سب کچھ دے رکھا ہے جس کے بعد کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن یہ تو سوچیں کہ جس عنوان”نازیہ“پر الجھ رہے ہیں اس کے جانے کے بعد آپکے گھروں میں سب کچھ ہونے کے باوجود سناٹا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو اس تکرار سے کیا حاصل ہوگا۔ میڈیا اور عدالتیں آپ کو کیا دلادیں گی۔ اخبارات، ٹی وی اور سوشل میڈیا کی چند چنگھاڑتی سُرخیاں اور چند چٹ پٹے عنوانات اور بس۔ جس کے لئے آپ دست و گریبان ہیں۔ نازیہ تو وہاں جا چکی ہے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا ۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ کوئی رشتہ کتنا پیارا کیوں نہ ہو۔ شاید محبت میں ہم بچے بن جاتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ہم زندگی میں ہر قدم اپنے آخری قدم پر کھڑتے ہوتے ہیں۔ در حقیقت ابلاغ کے لئے لفظوں کو بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔تلخیوں اور کڑواہٹ کے سودا گر بننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ در اصل اندر کی تلخی باہر کی تلخی سے مل کر سچ مچ زہر بن جاتی ہے۔ ماضی کو نہ کریدیں اس سے آپ کی شخصیت اور وقار پر حرف آتا ہے۔
مجھے یقین ہے آپ دونوں نازیہ سے محبت کرتے ہیں اس لئے خدارا ایسا نہ کریں ۔ نازیہ ایک شائننگ اسٹار تھی اسے متنازعہ نہ بنائیں۔
یہ نہ کریں۔