چار سو ارب روپے کے قربانی۔ 86 فیصد آبادی میں استطاعت نہیں ۔

سچ تو یہ ہے ۔

————

بشیر سدوزئی

رواں سال عید قربان پر جانوروں کی خریدو فروخت میں گزشتہ کے مقابلے میں اضافے سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کرونا وائرس کی بندشوں اور تیز رفتار مہنگائی کے باوجود معشیت کی ترقی اور عوام کی قوت خرید میں اصافہ ہوا ہے ۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ قوت خرید میں اضافہ تعمیرات، ٹیکسٹائل، گارمنٹس اور سمنٹ سمیت دوسرے شعبہ میں سہولت فراہم کرنے سے شرح نمو بڑھنے سے ہوا ۔ اپوزیشن کا بیانیہ ہے کہ معشیت کی ترقی اور شرح نمو کے اعداد و شمار جعلی، گھورگھ دھندا اور یوتھیوں کا پروپیگنڈہ ہے جو مہنگائی کی چکی میں پسی عوام کی آنسوؤں پونچھنے کے بجائے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر ہے ۔ لیکن میڈیا رپورٹ ہے کہ اس سال پاکستانیوں نے چار سو ارب روپے مالیت کے ایک کروڑ سے زائد جانوروں کی قربانی کر کے سنت ابراہیمی کو انجام دیا، جو گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ ہے۔ایک قومی اخبار میں صفحہ اول پر سرخی اور دیگر میڈیا ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ بکروں کی قربانی کی گئی جو 48 لاکھ سے زائد تھے۔ جب کہ 35 لاکھ سے زائد گائے بیل قربان کئے گئے۔ 12 لاکھ سے زیادہ بھیڑ اور دنبہ جب کہ 5 لاکھ سے زائد اونٹوں کی خرید و فروخت ریکارڈ کی گئی۔مجموعی طور پر ساڑھے تین کروڑ افراد نے ایک قربانی کی سنت ادا کی۔ جو کل آبادی کا 16 فیصد ہے۔ جب کہ ملک کی 22 کروڑ کی آبادی میں ساڑھے 18 کروڑ شہری قربانی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔سب سے زیادہ جانور کراچی ہی میں فروخت ہوئے جو تقریبا 18 سے 19 لاکھ کے درمیان ہیں۔ 2020 میں 15 لاکھ کے مقابلے میں 3 لاکھ زیادہ ہے۔۔ زیادہ تر افراد اس ایونٹ کے لیے سال بھر رقم جمع کرتے ہیں لہذا یہ جز وقتی تجارتی منڈی سال بھر کے کاروبار کی عکاسی کرتی ہے ۔لوگ آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کر کے جانور کی خریداری کے لیے رقم جمع کرتے ہیں ۔کم آمدنی والے افراد اتنی رقم جمع نہیں کر سکتے کہ وہ قربانی کے لیے جانور خرید سکیں۔ مجموعی طور پر خریداری میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جیسے گز شتہ سال دیکھنے میں آیا۔ تاہم اس سال کرونا کے سخت لاک ڈاون کے باوجود معشیت میں ترقی حکومت کی سر توڑ کوشش کا نتیجہ ہے۔ خصوصا سمارٹ لاک ڈاون کا فلسفہ دنیا میں یکتا تھاجس سے ملکی معشیت کو سہارا ملا ۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ معاشی صورت حال آئیڈیل اور سب اچھے کی رپورٹ ہے۔ کرونا وائرس کے تھپیڑوں سے ابھی بھی قوم سھنبلی نہیں اور نہ معلوم کتنا وقت اور لگے گا۔ سب سے زیادہ متاثر روز مرہ آمدنی والے افراد ہوئے جو آبادی کی کثیر تعداد ہے جب کہ مہنگائی کا جن بھی انہی پر گرا جو حکومت کے قابو میں نہیں آ رہا ۔حالاں کہ وزیر اعظم مسلسل تسبع کا ورد کر رہے ہیں لیکن جن پر بظاہر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ۔ شوکت ترین کا جادو اگر ناکام ہو گیا تو کسی پیر کامل یا عالم باعمل کی خدمات درکا ہوں گی جو مہنگائی کے اس جن کو بوتل میں بند کرے ۔ لاڑکانہ میں جمعت علماء اسلام اور پی ٹی آئی اتحاد سے لگتا ہے کہ حکومت مولانا فضل الرحمن سے مستعار مولوی لینے میں کامیابی ہو گئی۔ راشد محمود سومرو کا جنتر منتر کامیاب ہوتا ہے کہ” ایک زرداری سب پر بھاری” کا نعرہ۔۔ عید کے بعد جب عمران خان سندھ کا دورہ کریں گے تو لگ پتہ جائے گا۔ کشمیریات کے طالب علم کے طور پر ہم نے پہلے ہی پیشن گوئی کر دی تھی کہ مریم بی بی کشمیر میں جتننے بڑے مجمے لگا دے بات ان ہی کی مانی جائے گی جن کے قابو میں معاش ہے ۔ بالآخر شکایت یہی ہوئی کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں معاش و زر کی طاقت جمہور پر غالب رہی۔ دراصل آزاد کشمیر میں وہی کامیاب ہوئے جو کہتے ہیں کہ اس وقت کرونا وائرس کے باعث تیسری دنیا میں پاکستان بہتر پوزیشن میں کھڑا ہے۔ جو اس کو تسلیم نہیں کرتے جمہور نے ان کو تسلیم نہیں کیا ۔رواں سال عید قربان پر جو معاشی سرگرمیاں دیکھی گئی وہ عارضی تھی ۔ان میں مذید تیزی لانے کے لیے انرجی میں کچھ سہولت ہو تو ایک کروڑ کھالیں پروسز ہونے کے بعد لیدر انڈسٹری کو چار چاند لگ سکتے ہیں جو ملک کی بڑی صنعت اور لاکھوں کا روزگار وابستہ ہے ۔ مویشی منڈیوں میں جانے والے خریدار چلاک ہو گئے یا بیوپاریوں کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ عید سے چند دن پہلے تک منڈیوں میں انسان کم اور جانور زیادہ نظر آتے تھے ۔ گزشتہ سال کے تجربہ کی روشنی میں بیوپاریوں نے قیمتیں کم کر دی ۔ عید سے تین دن قبل ایسا رش ٹوٹا کہ چھوٹی بڑی مویشی منڈیاں خالی ہو گئیں اور لوگوں کو جانوروں کی تلاش میں گھومنا پڑا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں حسب سابق اس سال بھی سہراب گوٹھ کے قریب 900 ایکڑ رقبہ پر مبینہ ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی لگائی گئی جس کو 48 بلاک میں تقسیم کیا گیا۔ عید قربان سے 41 دن قبل لگائی جانے والی اس منڈی میں گلابی، ٹابری اور سندھی نسل کے خوبصورت نخریلے بکروں کی دھوم مچی رہی یہاں خریداروں سے زیادہ دیکھنے والے شوقین بچوں اور خواتین سمیت من چلے نوجوانوں کا رش لگا رہا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرونا ویکسینیشین کی گئی جس کا کریڈٹ اسد عمر نے لیا کہ ایک دن میں چھ لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی گئی ۔حالاں کہ وہ ویکسینیشین ،سینٹر پر نہیں مویشی منڈیوں کے داخلے کے دروازے پر ہوئی۔ بورے والا سے برہمن نسل کے بیل، ساہیوال سے آنے والے دیسی چولستانی مویشیوں نے بھی رنق لگائی۔ جن کے گرد لوگوں نے گھیرا ڈالے رکھا ۔ اس عارضی کاروبار کے لیے بھی مستقل انتظام کرنا پڑتا ہے ۔ دور دراز علاقوں سے آنے والے ٹرالرز میں جانوروں کے ساتھ ان کا چارہ اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئےٹینک بھی ساتھ لاتے ہیں۔ انتظامیہ بجلی کے ساتھ جانوروں کے لیے فی جانور ایک سے 16 لیٹر پانی مفت فراہم کرتی ہے۔ کراچی کے شہری صرف اسی ایک منڈی پر گزارا نہیں کرتے بلکہ شہر کے ہر چورایے پر مویشی کھڑے رہتے ہیں ۔ نیشنل ہائی وے اور آر سی ڈی ہائی وے کے علاوہ ملیر میں بھی زمانہ قدیم سے بڑی مویشی منڈی لگتی ہے ۔ جب کہ آن لائن خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے لیکن بڑے پیمانے پر نہیں ۔ لگتا ہے کرونا جیسے موذی مرض کے خطرات سے بچنے کے لیے آئندہ آن لائن بکرا خرید و فروخت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔سچل تھانے کی حدود میں بے قابو بھینسے پر 12 نوجوانوں کی فائرنگ کا واقعہ اپنی نوعیت کا منفرد تھا کہ 12 نوجوان قربانی کی غرض سے آئے سب مسلح تھے۔۔ بھنسہ جوں ہی بگڑا جدید گنیں نکل آئیں ۔ اس دعوے کا کیا بنا کہ کراچی اسلح سے پاک ہو گیا۔