کیا امیر ترین بسکٹ کمپنی کی بنیاد ایک جرم پر رکھی گئی ؟ کیا نمبرون بسکٹ کا فارمولا چوری شدہ تھا ؟


کیا امیر ترین بسکٹ کمپنی کی بنیاد ایک جرم پر رکھی گئی ؟
کیا نمبرون بسکٹ کا فارمولا چوری شدہ تھا ؟
کہا جاتا ہے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم چھپا ہوتا ہے تو کیا بسکٹ انڈسٹری کے دولت مند ترین شخص نے بھی کوئی جرم چھپائے رکھا ؟

اگر اس ملک کے نمبر ون بسکٹ کو لانچنگ کے بعد کامیابی نہ ملتی تو وہ کمپنی اور اس کا سربراہ اور فیملی نہ صرف کنگال ہو جاتی بلکہ فیکٹری نیلام ہو جاتی اور دفتر پر تالے پڑ جاتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک قسم کا جوا تھا جو کامیاب رہا اور قسمت کی دیوی نے اس خاندان کو سڑک پر آنے سے بچا لیا پھر یہ خاندان ملکی اور غیر ملکی حکمرانوں کی گیسٹ لسٹ میں شامل ہو گیا ۔
سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کمانے والا یہ نمبر ون بسکٹ کونسے بسکٹ کو پیچھے چھوڑ کر نمبرون بنا تھا ؟اس سے پہلے سب سے زیادہ مقبولیت اور پسندیدگی کا اعزاز کس کس کے پاس تھا یہ دوڑ کب اور کیسے شروع ہوئی اور اس کے پلیئرز نے کب کہا کیا
فاؤل پلے کھیلا
?
کیا ماضی کے بیکرز اور بسکٹ کمپنیوں کو ایسے مواقع اور وسائل دستیاب تھے جو نمبر ون بسکٹ کو دستیاب آئے ؟یا اس کمپنی کی جارحانہ مارکیٹنگ نے کوئی جادو کر دکھایا جو ماضی میں کوئی اور نہ دکھا سکا ؟
—————————————————————
————————————————————–
==============================================================

ٹورانٹو میں کافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سمیع نیویارک سے آئے اپنے دوستوں کو بتانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ڈیڈ کہتے ہیں یہ بات جس کسی نے بھی کہی ، لگتا ہے ٹھیک ہی کہی تھی کہ ۔۔۔۔۔ ہر بڑی دولت کے پیچھے کوئی جرم چھپا ہوتا ہے اور اسی طرح لوگ گارڈفادر بن جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔


سمیع کے دوستوں میں ارشد نے حیران ہوتے ہوئے پوچھ لیا ۔۔۔۔۔۔۔تمہارے ڈیڈ کس کی طرف اشارہ کر رہے تھے ؟

سمیع بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف کتابیں اور مضامین پڑھنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں آج کل بھی کچھ پڑھ رہے ہیں اور ان کا اشارہ بسکٹ انڈسٹری کے کسی ٹائیکون کی جانب تھا ۔۔۔۔۔۔تھرڈ ورلڈ کے ایک ملک میں سب سے امیر ترین بسکٹ فیکٹری اونر کی بات کر رہے تھے کے کیسے وہ ایک معمولی ملازمت سے بسکٹ انڈسٹری کا امیر ترین شخص بننے میں کامیاب ہوا ۔اس پر غیر ملکی کمپنی کی لوکل فرنچائز پر قبضہ جمانے اور پھر بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے پوری بسکٹ فیکٹری کو اپنے کنٹرول میں کر لینے کے الزام کی بات کر رہے تھے کہ وہ شخص اپنی جوانی میں آبائی شہر چھوڑ کر اپنے ملک کے ایک بڑے تجارتی شہر کا رخ کرتا ہے اور پھر وہاں اپنی ذہانت اور چالاکی سے ملازمت کرتے کرتے ایک دن خود سیٹھ بن جاتا ہے ۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس اصلی سیٹھ کو وہ بدھو بنا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آتا ہے اس سیٹھ کے کچھ رشتہ دار کافی سالوں بعد اس کا بھانڈا پھوڑنے کی دھمکی دیتے ہیں تو اس کے دور شباب کے کارنامے اور کرتوت سامنے آنے کا اسے بہت ڈر لگنے لگتا ہے کیونکہ وہ خود بڑھاپے میں پہنچ چکا ہوتا ہے اور اس کی جوان اولاد اس کے بزنس اور بے پناہ دولت کے معاملات کو سنبھال چکی ہوتی ہے اسے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اس کے راز افشا نہ ہو جائیں اور اسے اپنی اولاد اور معاشرے کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے چنانچہ وہ کسی بھی طرح اصلی سیٹھ کے رشتے داروں کو اپنا منہ بند رکھنے پر آمادہ کرنے کے راستے تلاش کرنے لگتا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس تمام پر سے میں اس کی پہچان اپنے ملک کے سب سے امیر ترین بسکٹ ساز ادارے کے سربراہ کے طور پر بن چکی ہوتی ہے اور وہ سماجی بھلائی کے بےشمار کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی وجہ سے معاشرے میں ایک نیک نام اور معتبر انسان کا روپ دھار چکا ہوتا ہے جس کے احسانات لوگوں پر پہاڑ بن چکے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں اپنے دوستوں کو بتانے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ڈیڈ کہہ رہے تھے کہ کوئی بھی انسان کبھی بھی غلطی کر سکتا ہے ۔کیونکہ انسان فرشتہ نہیں ہے بلکہ خطا کا پتلا ہے اور اس کی نیکی اور برائی کا حساب رکھنے کے لئے فرشتے مامور ہیں ۔،۔۔۔۔۔


اپنے ملک کی سب سے بڑی بسکٹ انڈسٹری چلانے والا انسان بھی فرشتہ نہیں ہے اگرچہ اس نے ایک بہت بڑی دنیا کے ساتھ نیکیاں کی ہیں نیک عمل کرتا چلا آیا ہے اور اللہ اس کی نیکیاں قبول فرمانے والا ہے لیکن نہیں پتا کہ اس کی جوانی میں کیا کچھ کیا اور بزنس کی دنیا میں دوسروں سے آگے نکلنے کے لیے انسان کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کہاں کہاں دانستہ اور نادانستہ اس سے کوئی خطا اور غلطی سرزد ہو سکتی ہے اور اس غلطی یا برائی کو چھپانے کے لئے نیکی اور نیک عمل کرلیں بعد اور لیتا ہے کہ اس کی غلطی کوتاہی اور جرم چھپا رہے منہ زور جوانی میں قدم بہک بھی جاتے ہیں اس لئے کئی طرح کے خطرات موجود رہتے ہیں اور ایسا کسی بھی انسان کے ساتھ ہو سکتا ہے خاص طور پر ایسے انسان کے ساتھ جس پر دولت کی دیوی مہربان ہو جائے اور اس کے پاس بےپناہ پیسہ جمع ہونے لگے جسے خرچ کرنے کے طریقے بھی کم پڑ جائیں اور وہ سوچنے لگے کہ اس دولت کو کہاں اور کس پر خرچ کرو ں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پہلے پہل وہ اپنی فیملی اور اپنی اولاد پر دولت خرچ کرکے خوشیاں سمیٹتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اولاد اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتی ہے اور اسے اپنے کیرئیر اور اپنے کام میں ریٹائرمنٹ کی دہلیز پار کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمیع بولا ڈیڈ بتا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ خود بادشاہ نہیں تھا لیکن اس کا خواب تھا کہ وہ اپنی اولاد کو شہزادے شہزادیوں کی طرح رکھے گا پھر قدرت نے اس کا یہ خواب بھی پورا کر دکھایا اس کی اولاد اسی عیش و آرام سے پلی بڑھی جس طرح کسی بادشاہ کی اولاد نازوں سے پلتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بظاہر
اس کی محنت سے کھڑی کی گئی ایمپائر اس کی دولت اور اس کے بزنس فیصلوں کا اختیار نئی نسل کو منتقل ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔اب نئی نسل سیاہ کرے یا سفید یہ اس کی قسمت ؟
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ حاکم وقت کی پرواہ بھی نہیں کرتا تھا بلکہ اس نے ایسے لوگوں کی حفاظت کا ذمہ لے لیا جنہیں حاکم وقت کے اہلکار شہر شہر گاؤں گاؤں تلاش کرتے پھر رہے تھے لیکن اس نے اپنی دولت اور طاقت کا بھرپور استعمال کیا اور حاکم وقت کے سیاسی مخالف دھڑے کے لوگوں کو گرفتاری سے بچنے میں زبردست مدد فراہم کی اور محفوظ پناہ گاہ میسر کرائیں اور بعد میں حالات اور حکومت بدلی تو اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھایا ۔۔۔،
ویسے وہ جادوگر تو نہیں تھا لیکن بسکٹ انڈسٹری میں کنگ بننے کے لیے اس نے ہر طرح کی کاروباری جادوگری کا مظاہرہ کیا اور نئے تجربات کرتے کرتے کامیابی کے گھوڑے پر ایسا سوار ہوا کہ پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خود تو سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوا تھا لیکن اس کی اولاد اور پھر اگلی نسلیں واقعی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی ۔اس کو کھیلوں اور میوزک کا بہت شوق تھا اس لیے وہ بزنس میں آگے بڑھنے کے لئے کھیلوں اور موسیقی دونوں کو استعمال بھی کرتا رہا اور اپنے بزنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ کھیلوں اور میوزک کی پرموشن بھی کرتا رہا اس کی کامیابی میں اور بھی عوامل تھے اور بھی جادوگریاں تھیں جنہیں بزنس ٹرک کہا جاتا ہے لیکن اس کی اونچی اڑان میں ایک پراسرار بانسری کا بڑا دخل تھا ۔
اس کے کاروباری حریفوں نے پہلے تو اسے تیز رفتار کامیابی حاصل کرنے سے روکنے کی بہت کوشش کی پھر بھی وہ نہ روکا تو پھر اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں لیکن وہ اپنی چالاکی اور ہوشیاری سے آگے بڑھتا رہا کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔وہ کامیابی کے زینے تیزی سے طے کر چلا گیا اور اپنے ملک کا بڑا بزنس ٹائیکون بن گیا ۔
ایک روز عدالت میں اس کے خلاف مقدمہ چلا اسے اور اس کے خاندان کے دیگر افراد کو عدالت میں لے جانے والا کوئی اور نہیں بلکہ اسی کمپنی کے کچھ ایسے شراکت دار تھے جنہیں دنیا شیئر ہولڈرز کے نام سے جانتی تھی انہیں شکایت کی کہ وہ ان کے ساتھ بھی دھوکا کر رہا ہے اور تمام شیراز پر خود کنٹرول پر غلبہ حاصل کرنے کا جال بچھا رہا ہے عدالت سے اس کے خلاف فیصلہ آتا ہے اس کے مخالفین کی بات مان لی جاتی ہے اور اس پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے ۔
سمیع کا دوست عدنان بھی بڑی دلچسپی سے یہ کہانی سن رہا تھا وہ بولا ۔،۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتیں جرمانے اور سزا کے بعد وہ بزنس ٹائیکون زیرو ہوگیا ؟
سمیع مسکرایا اور بولا ۔۔۔پکچر ابھی جاری ہے میرے دوست ۔۔۔وہ اپنی ترقی اور کامیابی کے سفر میں جس طرح ملک کے طاقتور میڈیا ہاؤسز اشتہاری دنیا کی بااثر شخصیات اور مارکیٹنگ ورلڈ کے تمام بڑے بڑے گرو اپنی مٹھی میں قید کر چکا تھا اسی طرح اس نے عدالتوں میں خود کو سچا ثابت کرنے کے لئے بڑے بڑے وکیلوں اور قانون دانوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا رکھا تھا چنانچہ ایک عدالتی فیصلے سے اس کا کچھ بگڑنا تھا نہ بگڑا۔
وہ سب سے بڑے اور طاقتور اور مہنگے وکیلوں کی خدمات حاصل کر کے اپیلیٹ فورم پر چلا گیا اور وہاں سے اسے ایسا ریلیف حاصل کرنے میں ان کا طاقتور اور مہنگے وکیلوں نے اسے کامیابی دلوادی کہ رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انصاف کے گھر سے بھی سرخرو ہوکر نئے رعب اور دبدبے کے ساتھ مخالفین پر لپکا اور وہ سب کچھ کر گزرا جس کا خدشہ تھا اس کے مخالفین نے ظاہر کیا تھا۔
اب وہ جنگل کے بادشاہ کی طرح مارکیٹ پر اکیلا راج کرنے لگا ۔اس کی حکمرانی کو چیلنج کرنے والا بظاہر دور دور تک کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔۔اس نے خوب حکمرانی کی اور بزنس مارکیٹ پر چھایا رہا یہاں تک کہ بڑھاپے نے اسے آلیا۔ لیکن قدرت کا ایک اصول ہے ۔ہر فرعون کے لیے ایک موسی آتا ہے۔
اور پھر کیا ہوا ؟
ارشد کے اس سوال پر میں نے لمبا سانس لیا اور بولا ۔۔۔۔۔
کیا ساری کہانی ایک ہی سیشن میں سننا چاہتے ہو کچھ اگلی نشست کے لیے بھی چھوڑ دو ۔۔۔(جاری ہے )۔

نوٹ ۔۔۔اس کہانی کے سب کردار اور واقعات فرضی ہیں کوئی بھی مماثلت محض اتفاق ہوگا ۔ادارہ
——————–