سچ تو یہ ہے —- بھارت ہائبرڈ جنگ کا آخری معرکہ افغانستان میں لڑ رہا ہے

امریکہ کی مدد اور آشیرباد سے بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو ہائبرڈ جنگ میں پاکستان کے خلاف جی بھر کر استعال کیا۔ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں را کے ایجنٹوں کے ذریعے خوب تخریب کاری اور خون خرابہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔ اس جنگ میں پاکستان کے معاشی وسائل کے علاوہ پائے کے اہلکار حتی کہ جنرل سطح کے افسران شہید ہوئے لیکن افواج پاکستان نے اس تخریب کاری کا پامردی اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ بلآخر شکست و ریخت بھارت کا مقدر ٹھہرا ۔ وہ افغانستان سے دم دبا کر چوروں کی طرح رات کے اندھیرے میں بھاگ رہا ہے۔ اس کے پشت بان امریکہ کو 20 سالہ جنگ میں 10 کھرب ڈالر کے اخراجات اور لگ بھگ ڈھائی لاکھ انسانوں کو قتل کرانے کے بعد یہاں سے نکلنے میں جلدی ہے ۔ جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ افغانستان کے عوام کو وہاں کے معملات کا خود ذمہ دار ہونا چاہئے ۔ امریکہ آنے والی نسل کو افغان جنگ میں بھجنے نہیں چاتا۔ امریکہ اگست تک فوجیوں کا مکمل انخلا چاتا ہے تاہم حتمی تاریخ 11 ستمبر مقرر کی گئی ہے۔ بھکرام ائر پورٹ کو خالی کرنا اہم اقدام ہے۔ جو خطہ میں امریکہ کا سب سے محفوظ مقام تھا اس کے بعد افغانستان میں بھارت کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں رہا۔این پی نیوز کے مطابق طالبان نے افغانستان کی شمالی ، مغربی، جنوبی بارڈر کراسنگز اور 85 فیصد اضلاع پر قبضے کر لیا ۔طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی ایران، ترکمانستان اور پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں پر اب ان کا کنٹرول ہے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہم نے اسلام قلعہ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے جو ایرانی سرحد کے قریب اہم شہر ہے۔ پاکستان کے ساتھ ملنے والی چمن اور قندھار کے راستے پر بھی طالبان نے قبضہ کر لیا ہے ۔ بھارت پر اس کے گہرے اثرات پڑے ہیں ۔نوّے کی دہائی میں طالبان کا ہیڈ کوارٹر قندھار میں تھا اور طالبان اب ایک مرتبہ پھر قندھار کا کنٹرول سنبھالنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اب تک 7 اضلاع پر قبضہ کر چکے۔قندہار پاک افغان سرحدی شہر ہے بھارت نے اس شہر کو پاکستان کے لیے تخریبی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا تھا۔اس چھوٹے سے شہر کے سفارت خانے میں درجنوں لوگ تعینات تھے جو سفارت کاری کے روپ میں را کے کارندے تھے۔ بھارت نے اس چھوٹے سے ملک میں جہاں جنگ زدہ ماحول اور تجارت کا بھی کوئی امکان نہیں کئی سفارت خانے کھولے ہوئے تھے جن میں کابل، مزار شریف، جلال آباد، ہرات، قندھار، اور دیگر شہر شامل ہیں ۔لیکن اس وقت کابل میں سفارت خانہ اور مزارِ شریف میں اس کا قونصل خانہ کے سوائے سب بند ہو چکے۔ حالات بتاتے ہیں کہ اگر طالبان اسی طرح پیش قدمی کرتے رہے تو انڈیا کے لیے کابل میں سفارت خانے کو محفوظ رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی سانجھی حکومت کابل تک محدود رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں بھارت جس نے امریکن اور اتحادی فوج کے اشتراک سے بظاہر افغانستان کی تعمیر نو کے لیے چار ارب ڈالر سے زائد خرچ کئے حقیقتا پاکستان کے خلاف سرحد قریب بیٹھ کر بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں ہائبرڈ جنگ شروع کر رکھی تھی جو اب بند کرنا پڑھ رہی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق طالبان نے زیر قبضہ علاقوں پر نظام حکومت قائم کر کے راہداری ٹیکسز اور کسٹمز ڈیوٹی کی وصولی شروع کر دی ہے جس سے ان کو ماہانہ ڈیڑھ ارب ڈالر آمدنی شروع ہو گئی ہے ان کی حکومت کے استحکام کی یہ شروعات ہیں ۔ اس صورت حال میں بھارت قندھار، کابل ، مزار شریف سے اپنے سفارت کاروں کو نکال رہا ہے تاہم این پی نیوز کے مطابق آخری کوشش کے طور پر بھارت نے گزشتہ ہفتہ روس اور ایران کے تواسط سے طالبان کے ساتھ مفاہمت کا پیغام بھیجا، لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا ۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی جب کہ بھارت افغانستان میں سابقہ پوزیشن کی بحالی چاہتا ہے تاکہ پاکستان میں عدم استحکام کے لیے ماضی کی شرانگیزی کو جاری رکھ سکے۔ ۔ مذموم مقاصد میں ناکامی کے بعد بھارت نے طالبان کے دباؤ کو کم کرنے اور افغان فورسز کو مضبوط کرنے کی غرض سے کابل حکومت اور مختلف دہشت گرد تنظیموں کو اسلحے کی سپلائی شروع کر دی ہے۔ اشرف غنی کے شراکت دار عبداللہ عبداللہ نے چند روز پہلے نئی دہلی کا خفیہ دورہ کیا ۔اس دورے کے دوران طہ پایا کہ بھارتی حکومت افغان فوج اور افغانستان میں موجود را نیٹ ورک سے وابستہ دہشت گرد تنظیموں کو بڑے پیمانے پر اسلحہ سپلائی کرے تاکہ طالبان کی پیش قدمی کو روکا جا سکے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلحہ سپلائی کا آپریشن شروع کر دیا گیا ہے تاہم اس کو رات کے اندھیرے میں انتہائی رازداری کے ساتھ مکمل کیا گیا ۔ اس کے باوجود افغانستان میں پھیلائے طویل سفارتی نٹ ورک کو مختصر کرنے کے لیے فضائیہ کے سی ون 17 دو کارگو طیاروں کی قندھار اور کابل ایئر پورٹس آمد ہوئی جو اسلحہ سے بھرے ہوئے تھے ۔ قندھار سے 50 سفارت کاروں کو دہلی لے جایا گیا لیکن پاکستان کے خلاف استعمال ہونے والے را نیٹ ورک سے وابستہ داعش ، ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے اہم سربراہان اور کمانڈروں کو بھی ہنگامی طور پر بھارت منتقل کر دیا گیا ہے۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں کے خوف کے پیش نظر ان جہازوں نے پاکستانی فضائی حدود کو استعمال نہیں کیا کہ پاکستان ان کو اتار کر دہشت گرد کمانڈروں کو دنیا کے سامنے پیش نہ کر دے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ افغانستان میں بدامنی برقرار رہے تاکہ وہ امریکی آشیرباد پر خطہ میں عدم استحکام کے لیے شرانگیزیوں کو جاری رکھ سکے ۔اسی وجہ سے آخری کوشش کے طور پر وہ افغانستان میں اسلام کے نام پر قائم دہشت گرد کمانڈروں اور تنظیموں کو مسلحہ کر رہا ہے ۔مستقبل کی صورتحال اس کی سازشوں خاص طور پر پاکستان کے خلاف اس کے مذموم منصوبوں کے لئے اسے تباہ کن لگ رہی ہے اور وہ اس سے محفوظ رہنے چاتا ہے ۔شاید اس کو اندازہ ہو گیا ہے کہ اس کے پشت بان امریکہ اور اس کے اتحادی اسے خطہ میں تنہا چھوڑ کر سات سمندر پار پہنچ چکے اور وہاں سے صرف تھپکی دیں گے کہ چین اور پاکستان سے لڑ کر سولی پر چڑھ جا رام بھلی کرے گا ۔کشمیر میڈیا سروس کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق بھارت نے بہت کوششیں کی کہ افغانستان میں جنگ جاری رہے ۔افغانستان سے امریکا کے جبری انخلاء نے افغانستان میں پاکستان کے کردار کو کم کرنے کے بھارتی خوابوں کو چکنا چورکردیا۔ بادل ناخواستہ اسے قندھار اور دیگر مقامات پرقونصل خانے بندے کرنے پڑے جو پاکستان کے خلاف سازشوں کے اڈے تھے۔۔ معتبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قندھار سے بھاگنے والے زیادہ تر بھارتی حکام (را) کے ساتھ منسلک تھے ۔انہی را کے ایجنٹوں کے ذریعے بھارت گزشتہ کئی سالوں سے افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں کے لئے استعمال کررہا تھا۔ اس مقصد کے لیے انٹیلی جنس کی بنیاد پر ایک نیٹ ورک قائم کررکھا تھا۔ پاکستان نے متحدد بار بین الاقوامی برادری کو ثبوت پیش کئے کہ بھارت افغانستان میں مشکلات پیدا کرنے اور وہاں خانہ جنگی جاری رکھنے کے لئے کئی مخصوص گروپوں کو ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ چوں کہ اسے بین الاقوامی مافیا کی حمایت حاصل تھی اس لیے مسلہ کشمیر کی طرح امریکہ اور اس کے اتحادی اس طرف توجہ نہیں دیتے تھے ۔ لیکن طالبان کو طاقت حاصل کرنے پر بھارت کا یہ انٹیلی جنس نیٹ ورک اب ٹوٹ چکا ہے۔ اور بھارت بھاگتے چور کی لنگوٹی کے مصداق امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لئے طالبان دشمن قوتوں کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کررہاہے۔ پر امن افغانستان اس کو مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف مذموم منصوبوں کو پورا کرنے کی کبھی اجازت نہیں دے گا۔جس کا اظہار طالبان پہلے ہی کر چکے۔ بھارت کو یہ بھی خطرہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے مضبوط ہونے کے اثرات کشمیری حریت پسندوں پر بھی ہوں گے اور مزاحمتی تحریک میں مذید تشدد آ سکتا ہے۔افغانستان سے فارغ ہونے کے بعد ممکن ہے جہادی قوتوں کی توجہ کشمیر کی طرف ہو جائے جہاں بھارتی فورسز نے مسلمان خواتین کی آبروریزی ،بچوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔ بھارت کو سب سے بڑا خوف یہی ہے کہ کشمیر کے حریت پسندوں نے جان پکڑ لی تو ٹکڑے ہونے میں اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ جب کہ خطے میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جس کے ساتھ بھارت کے مثالی تعلقات ہوں۔ لہذا اب بھارت ہائبرڈ جنگ کا آخری محرکہ افغانستان میں لڑ رہا ہے ۔