اسماء شیخ نے منسٹری آف فنانس کے لیٹر کے بغیر ہی اپنے ایماء پر تین نام صدر کے عارضی چارج کے لیے بھیج دیئے۔

نیشنل بینک کا اگلا صدر کون ہوگا اس حوالے سے بحث بھی جاری ہے اور لوگوں نے دوڑ دھوپ بھی شروع کر دی ہے بااثر اور طاقتور لابیا حرکت میں آ چکی ہیں عدالت کے حکم پر نیشنل بینک کے صدر کو جس طرح ہٹایا گیا ہے اس پر وفاقی حکومت حیران ہے اور اس کے مزید پریشان ہیں وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ان کا سر چکرا گیا ہے دوسری طرف نئے صدر کے انتخاب کے لیے صلاح مشورے جاری ہیں جب کہ طاقتور لا بیاں اپنا من پسند صدر لانے کے لیے سرگرم ہو چکی ہیں ۔ عارف عثمانی کے خلاف عدالتی فیصلہ آنے کے بعد ان کے منظور نظر افراد پریشان ہیں انہیں اب آنے والے دنوں میں اپنی شامت نظر آرہی ہے ۔
اسماء شیخ نے منسٹری آف فنانس کے لیٹر کے بغیر ہی اپنے ایماء پر تین نام صدر کے عارضی چارج کے لیے بھیج دیئے۔

ترتیب کے مطابق
جمال باقر
رحمت حسنی
عبدالواحد سیٹھی

اپنی روایتی جعلسازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ فیصل ٹوپرا کا نام ڈالا اور نہ میڈم سلطانہ ناہید کا۔ کیونکہ دونوں ریگولر ہیں۔ فیصل ٹوپرا ماہر بنکار ہیں اور متعدد سینئر پوسٹوں پر کام کر چکے ہیں جبکہ سلطانہ ناہید نے پرائم منسٹر ہاؤسنگ فنانس میں نیشنل بینک کو نمبر ایک پر پہنچایا۔ اس پر بینک نے سٹاف سروس رولز 1973 کے مطابق ان کو مدت ملازمت میں توسیع دی۔ جو کہ ریگولر سروس کی ہی توسیع کہلاتی ہے۔

مگر اچھے اور صاف شفاف لوگ کہاں راس آتے ہیں انکو۔

جمال باقر جن کی بینک میں تقرری غلط تھی۔ انہوں نے جس گروپ کے اشتہار کے لیے بینک میں انٹرویو دیا وہ گروپ انکی تقرری سے پہلے ختم ہو چکا تھا۔ بجائے اسکے کہ نیا اشتہار اور نئ آسامی دع جاتی اقربا پروری کرتے ہوئے انکو قواعد کے خلاف رکھ لیا گیا۔

جب کام شروع کیا تو انکا گروپ 5 ارب پرافٹ میں تھا۔2018 میں انکی ناہلی سے ڈیڈھ ارب کا نقصان، 2019 میں 5 ارب کا نقصان اور عثمانی کے ساتھ مل کر 2020 میں 20 ارب کا نقصان اور مزید 22 ارب کے خراب قرضے۔
اومنی گروپ کی انکوائری کے مرکزی ملزم، ایس ای سی پی کی بلیک لسٹ ہیسکول کمپنی پر 22 ارب روپے نچھاور کرنے والے اور حال میں امریکہ فرار ہونے والے جمال باقر کا نام لسٹ میں سر فہرست ۔


رحمت حسنی جنکو 2012 میں آوٹ آف ٹرن اور تب کی کانٹریکٹ ایمپلائ ری نیگوسیشن پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ای وی پی پرموٹ کر دیا گیا۔
حسنی صاحب نے پھر ای وی پی کے طور پر گروپ چیف کارپوریٹ اینڈ انوسٹمنٹ گروپ کے لئے اپلائ کیا۔ انکو پریذیڈنٹ اور 4 گروپ چیفس کی کمیٹی نے انٹرویو میں فیل کر دیا۔ بینک نے اسی پوسٹ کے لئے بیرونی امیدوار اشتہار کے ذریعے مانگے۔ حسنی صاحب نے اپلائ کر دیا یعنی خود کو نیشنل بینک سے باہر کا ظاہر کر کے اپلائ کیا۔ بورڈ میں انکی سفارش فرخ قیوم کی شکل میں موجود تھی جنکے کاروبار میں انہوں نے بینک سے مدد کی تھی۔ چنانچہ اس میٹنگ میں کارپوریٹ اور انوسٹمنٹ گروپ کو ختم کیا گیا بغیر کسی پروپوزل کے۔ نیا گروپ انکے لئے بنایا گیا انکو بیرونی امیدوار کے طور پر جانچا گیا اور انکو بیرونی امیدوار کے طور پر اندرونی پروموشن آوٹ آف ٹرن دے دی گئی۔ اسی بورڈ میٹنگ میں بورڈ نے باقی نیشنل بینک ملازمین ریگولر اور کانٹریکچول کے لیے پروموشن پالیسی بھی منظور کی مگر غیر قانونی طور پر حسنی صاحب پر اسکا اطلاق نہ کیا۔
حسنی صاحب کے لئے بنایا گیا انوسٹمنٹ گروپ 2 سال بعد ختم کر دیا گیا اور انکو پرافٹ میں من پسند کمرشل، ایگریکلچرل، ایس ایم ای اور ہاؤسنگ پر مشتمل گروپ بنا دیا۔ حسنی صاحب روایتی ناقص کارکردگی سے اس گروپ کو بھی تقریبا 2 ارب خسارے میں لے آئے۔ ہاؤسنگ ان سے لے لی گئیاور سلطانہ ناہید کو دے دی گئی جنہوں نے ایک سال کا ٹارگٹ 4 ماہ میں کر دیا۔ انہی رحمت حسنی صاحب کا نام فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

تیسرے نمبر پر موجود واحد سیٹھی بھی 2013 میں آدھے پیرے کی بورڈ قرارداد کے ذریعے آوٹ آف ٹرن ای وی پی پرموٹ ہوئے۔ 2011 سے 2016 تک SVP اور EVP کے طور پر انکا عہدہ تھا۔ ” سیکرٹری ٹو سیکرٹری بورڈ آڈٹ کمیٹی۔” یعنی موصوف آڈٹ کمیٹی کے سیکرٹری کے پی اے کا کام کرتے تھے۔ 6 مارچ 2016 کو گروپ چیف آڈٹ کی آسامی کے لیے اشتہار آیا جس میں 20 سالہ تجربہ مانگا گیا۔ سیٹھی صاحب کا نہیں تھا۔ چنانچہ انہوں نے لاہور سے تعلق رکھنے والے نواز شریف کیس کے ملزم بورڈ ممبر نعیم صاحب کو پکڑا اور نعیم صاحب نے چٹھی بتاریخ 8 مئی 2016 کے ذریعے لکھ کر یہ تجربہ20 سال سے 3 سال کروا دیا۔ اس چٹھی کی کاپی سیٹھی صاحب کو سلام کے ساتھ کی۔ 22 مئی کو نیا اشتہار گیا اور سیٹھی صاحب نے اپلائ کیا اور انکو آوٹ آف ٹرن 10 اکتوبر 2016 والے اسی اجلاس میں پروموشن دے دی گئی جس اجلاس میں بغیر سفارش والے باقی ملازمین کی پروموشن پالیسی پاس کی گئی تھی۔

یہ ہیں تین نام اور انکے بڑے کام

————————

Good-Bye——