چار ارب کٹوتی۔۔ کشمیر بحران۔۔۔خوف۔۔۔ جموں، لداخ نئی ریاستیں ۔۔

سچ تو یہ ہے،

————–

بشیر سدوزئی ،

مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت جیلوں میں اور بھارت نواز قیادت پر نوازشیں بند ہیں۔ آزاد کشمیر کی قیادت کی پانچویں گھی میں اور سر کڑاھی میں ہے۔ بعض لوگ مظفرآباد پانے کے بعد سراب ہونے کے جنون میں کروڑوں ڈبو رہے ہیں ۔جو لیڈر پانچ سال نظر نہیں آئے نشیب و فراز کے ایسے چکر لگا رہے ہیں جیسے کرنٹ لگا ہو۔ کوئی ایک پارٹی اور امیدوار یہ اعلان نہیں کر رہا کہ تقسیم کشمیر کے کسی عمل کا وہ حصہ نہیں بنے گا ۔ شنید یہ ہے کہ 25 جولائی کو وہ لوگ سب سے زیادہ ووٹ لیں گے جو کھلے عام کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر پاکستان کا صوبہ ہونا چاہئے۔المیہ یہ ہے کہ اس دنگل میں کوئی ایک پارٹی بھی ریاستی نہیں جس کو پار کے معصوموں کی فکر ہو۔ مسلم کانفرنس بھی پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد چاتی ہے یا سیٹ ایڈجسٹ منٹ ۔البتہ منظور قادر ایڈووکیٹ یہ جاننے کے باوجود کہ ہر حلقے میں دو ،چار سو ووٹوں سے زیادہ کچھ نہیں ملنا ،کے ایچ خورشید کی سوچ کے ساتھ لبریشن لیگ کے کارکنوں کو اسی دنگل میں اتار چکے ۔ منظور قادر کے منشور کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ کابینہ میں وزیر خارجہ اور دفاع کا اضافہ چاتے ہیں۔ حریت رہنماء سید صلاح الدین کا مطالبہ ہے کہ پاکستان، مجائدین کشمیر کو اسلحہ مہیا کرے جو پاکستان کی ذمہ داری اور مجاہدین کا حق ہے ۔ بے شک کشمیریوں کا یہ حق ہے کہ بھارتی فورسز ان سے جو سلوک کریں کشمیری بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں ۔ خود کش بمباری ہندوں کا خاص اعلاج ہے۔ لیکن کشمیری بارود لائیں کہاں سے۔ بین الاقوامی دباؤ کے باعث پاکستان یہ کام کر نہیں سکتا۔ لبریشن فرنٹ کے چئیرمین سردار صغیر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ 25 جولائی کے عمل سے 73 برس قبل تقسیم کی گئی ریاست کشمیر کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی جائے گی۔ لہذا اس شر انگیز عمل سے دور اور گناہ کبیرہ سے دامن بچایا جائے ۔ وفاقی حکومت کے اقدامات سے آزاد کشمیر کا انتخابی عمل غیر شفاف اور کشمیر، پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہونے سے خو پاکستان کو نقصان ہو گا لہذا وہ قوتیں جو مسئلہ کشمیر کو ساتھ لے کر چل رہی ہیں وفاق کو باور کرائیں کہ انتخابات کے لیے چھ ارب روپے کا انکار سمجھ میں آتا ہے کہ آزاد کشمیر انتخابات کا بوجھ اپنے سر پر اٹھائے۔ لیکن ریگولر بجٹ سے چار ارب روپے کاٹ کر وفاقی وزیر امور کشمیر کی صوابدید پہ چھوڑ دینا۔ ہیڈروپاور پروجیکٹ کی آمدنی میں کمی، آزاد کشمیر اسمبلی اور جموں و کشمیر کے عوام کی توہین ہے۔ جاتی امرہ سے تعلق کے باوجود ساری سیاسی پارٹیوں اور آزاد کشمیر کے عوام کو فاروق حیدر خان کے اس موقف کی حمایت کرنی چاہیے کہ وفاقی وزیر امور کشمیر کا کشمیری عوام کے بجٹ سے کوئی تعلق نہیں ۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ منظور نہ ہونے کے باعث ریاست میں کوئی بحران پیدا ہوتا ہے اور اس کے حل کے لئے وفاق کوئی غیر آئنی اقدام کرتا ہے تو اس کا جو نقصان ہو گا اس کا اندازہ قبل از وقت کر لیا جائے تو بہتر ہے ۔۔ یہ مسلم لیک یا پی ٹی آئی کا مسئلہ نہیں پاکستان اور کشمیریوں کے تعلق کا مسئلہ ہے ۔ مظفرآباد اسلام آباد تعلقات کو کراچی اسلام آباد کی طرح نہیں اس میں بہت فرق ہے اور ذمہ دار افراد کو اس فرق کا احساس بھی کرنا چاہیے ۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خان کسی سازش کا شکار نہیں ہوں گے۔پاکستان اور کشمیریوں کے تعلقات میں دراڑیں ڈالنے والوں سے ہوشیار رہیں گے ۔ پاکستان کا ترجمان کہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے آنے والی خبریں کچھ زیادہ ہی مایوس کن ہیں آزاد کشمیر کے انتخابات اور وسائل پر الجھنے کے بجائے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے ۔کشمیری کی جغرافیائی حیثیت جو مودی نے 5 اگست 2019ء کو تبدیل کی تھی ، وہ اس سے مطمئن نہیں۔ مذید ٹکڑے کرنے والا ہے ۔ ۔ نئی چالیں سوچی جا رہی ہیں، نئی حکمت عملی پر کام ہو ریا ہے کئی منصوبوں پر غور ہو رہا ہے ۔ 8 جون کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو ایمرجنسی دلی طلب کیا گیا۔ جہاں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور ہوم سیکریٹری اے کے بھلہ سے اس کی کئی گھنٹے ملاقات ہوئی ۔ وفاقی نمائندوں سے ملاقات کے فوری بعد مسٹر سہنا نے ڈی جی پولیس کے ہمراہ مقبوضہ علاقے کی سیاسی جماعتوں جو آج کل نئی دلی کی چہتی ہیں اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری ، پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون سے ملاقات کی جب کہ اسی دوران مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوج روانہ کر دی گئی۔ یہ سطور لکھنے تک 40 ہزار سے زیادہ فورسز کے تازہ دستے کشمیر پہنچ چکے تھے ۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ شیوا سینا کے غنڈے ہیں جن کو کشمیریوں کے قتل عام، خواتین کا ریپ اور دہشت گردی کی خاص تربیت دی گئی ہے ۔ جموں اور جنوبی کشمیر کو ملانے والی مغل شاہراہ کو بغیر کسی وجہ کے بند کردیا گیا۔ لکھن پور سے ہزاروں کی تعداد میں غیر کشمیریوں کوجموں و کشمیر لایا گیا ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کی رپورٹ ہے کہ ، رام ہال، کرالپورہ، کیرن، ٹیکی پورہ، کرناہ، راجواڑ، ماوراور کپواڑہ کے علاقوں میں بھارتی فوج کی بارڈر سیکورٹی فورس اورانڈین تبت بارڈر پولیس کے نئے کیمپ قائم کئے جارہے ہیں۔جب کہ مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں 18 ہزار بنکر تعمیر کرنے پر کام شروع ہے جن میں سے 8 ہزار مکمل بھی ہو چکے۔ کپواڑہ میں مختلف مقامات پر ملٹری کانوائے میں بڑی گاڑیوں کے علاوہ ٹینک اور توپیں راجواڑ کی طرف جاتے ہوئے دیکھی گئی ہیں۔مقامی صحافیوں کے حوالے سے بین الاقوامی میڈیا ہاوسز خبر دے رہے ہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں گزشتہ دو روز سے 5/اگست 2019سے چند دن قبل والی کیفیت ہے۔ لوگوں میں فوجی نقل و حرکت سے زبردست بے چینی پائی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے مختلف افواہوں، قیاس آرائیوں اور اندیشوں کا بازار گرم ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی منتق بیان کر رہا ہے ۔ یہ افواہ زیادہ گرم ہے کہ جموں خطے کو پھر سے ریاست کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔ جب کہ وادی کشمیر بھارت کے زیر انتظام برقرار رہے گی۔ دوسری افواہ ہے کہ وادی کے جنوبی حصے کو جموں میں ضم کر کے ایک نئی ریاست جموں قائم کی جائے گی اور شمالی حصے کو لداخ کے ساتھ شامل کر کے ریاست لداخ قائم کئے جانے پر سوچا جا رہا ہے ۔کشمیر جو چار ہزار سال قبل مسیح سے بھی پہلے موجود تھا، سولائز معاشرہ ،مضبوط کلچہر اور وسیع زبان رکھتا ہے دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اس کا نام دنیا سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ایک افواہ یہ بھی ہے کہ مودی حکومت کشمیری پنڈتوں کیلئے بھارت کے زیر انتظام ایک علیحدہ علاقے کا اعلان کرنے والی ہے تاکہ وہاں کشمیری پنڈتوں کو بسایا جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس نے “سائوتھ ایشین وائر” کی تازہ رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں ایک اور منصوبہ بندی پر کام ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مودی حکومت مقبوضہ علاقے کی سیاست سے مسلمانوں کا کردار ہمیشہ کےلئے ختم اورانتظامی معاملات میں ان کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے مسلم اکثریتی علاقوں میں اہم انتظامی تبدیلیاں کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ جو جموں و کشمیر اسمبلی میں ہندو اکثریتی خطے کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے ۔اس سلسلے میں طریق کار وضع کیا جا رہا ہے اور روں سال کے آخر میں باضابطہ اعلان متوقع ہے۔ ان افواہوں کے جواب میں بھارت نے پھسپھسا بیان جاری کیا کہ فوج کی نقل و حمل معمول کی سرگرمی اور فوجی مشقیں ہیں ۔ جب کہ پاکستان نے اس پر اکتفا کیا کہ “بھارت متنازعہ علاقے کی جغرافیائی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتا “بھارت کے اس اعلان کے باوجود خدشات کو اس وقت تقویت ملتی ہے جب بھاجپا اورجموں کی ہندو تنظیموں کی طرف سے جموں کوالگ ریاست بنانے کا مطالبہ سامنے آنے لگتا ہے ۔ ہندوں کی یہ دہشت گرد اور فاشسٹ تنظیمیں بے سبب اس طرح کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ بی جے پی حکومت کے کہنے پر کیا جاتا ہے ۔ ان حالات میں حکومت پاکستان کو آزاد کشمیر کی سیاست فتح کرنے کے لیے آزاد کشمیر کے بجٹ سے چار ارب روپے کاٹ کر وفاقی وزیر امور کشمیر کو دینا اور آزاد کشمیر کی ذاتی آمدنی پر ہاتھ صاف کرنا یا آزاد کشمیر کی جاتی حکومت کے ساتھ کوئی تنازعہ کھڑا کرنا کہاں کی عقل مندی ہے ۔ ایسے اقدامات سے آر پار کشمیریوں کو مایوس کرنے کے سواہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔اور نہ آپ کو کوئی سیاسی فائدہ ۔