تضحیک وکالت

تحریر:- چوہدری قمراعجاز بھٹہ ایڈووکیٹ

بر صغیر پاک و ہند میں آج بھی لوگوں کی شناخت ان کے موجودہ پیشہ یا کام سے زیادہ ان کے آبائی پیشوں سے ہوتی ھے۔ نسلی تفاخر کے حامی اسے جائزگردانتے ھیں اور ان کی یہ کوشش ھوتی ھے کہ کسی کے موجودہ پیشہ کی صلاحیت کوبھی اس سے منسوب شدہ آبائی پیشہ کے تناظر میں پرکھیں۔ جبکہ احساس کمتری کے جذبات میں ملبوس افراد اسے چھپانے کی کوشش میں رہتے ھیں۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل ھندو مذہب میں تبدیلی پیشہ تقریباٗ ناممکن تھا اور منوں سمرتی قوانین کے تحت ایک جرم بھی۔ جسے روکنا حاکم وقت کی ذمہ داری تھی۔۔ یہی پیشہ لوگوں کی ذات کا عکاس ھوتا تھا۔ مسلمانوں کی آمد سے تبدیلی ذات اورپیشہ ممکن توھوا مگر اتنا آسان بھی نہ تھا۔ مقامی لوگ اگر مسلمان مذہب اختیار بھی کرلیتے تھے تب بھی ان کی شناخت مقامی والی ھی رہتی۔ جبکہ باہر سے آنے والے مسلمانوں کے بارے میں ایسی کوئی قدٖغن نہ تھی۔ وہ جو کہہ دیتے وھی ان کی ذات اور شناخت کہلاتی ۔ اور کوئی ان کے اس دعوی کو رد کرنے کا جواز نہ رکھتا تھا۔ اس تناظرمیں اگر کوئی مقامی گھرانہ مسلمان حکمرانی والے علاقے میں رھاؑش اختیار کر لیتا اور وھاں ان کو جاننے والا کوئی نہ ھوتا تو ان کے لۓ ذات اور پیشہ بدلنے میں آسانی ھوتی۔ وھاں کوئی بعد میں ان کو جاننے والا مل بھی جاتا تو وہ اس کی پرواہ کیے بغیر اپنے حال میں مگن رھتے اور کچھ عرصہ بعد لوگ بھی تذکرہ کرنا چھوڑ دیتے۔ تاھم وہ نئی ذات اورپیشہ اپنانے کے باوجود خود بھی غیر مطمعن رھتے۔ اس لیے خود کو مشکوک فہرست سے نکالنے کا آسان حل یہ ڈھونڈا گیا کہ اپنا تعلق بیرون ملک سے آنے والے کسی قبیلہ سے جوڑ لیتے۔۔ آج پاکستان کے بیشترلوگ، خواہ وہ اب کسی اور ملک میں رہ رہے ھوں، اپنا تعارف کراتے ھوۓ، اپنے آباوُ اجداد کا مسکن پاکستان سے باہرکا بتاتے ھوۓ فخر محسوس کرتے حیں۔
انگریزوں کی آمد نے ایک اور طرح سے ھندوستانی معاشرے پر اثر ڈالا۔ لڑاوُ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت انہوں نے ذات برادری کے سسٹم کو اور مظبوط بنایا اور ان کے رسم و رواج کو باقاعدہ قانون کا درجہ دے ڈالا۔ گو کہ دعوی کی حد تک وہ ذات برادری کے خلاف تھے مگر عملاٗ اس کی پرورش کرتے رھے۔ جو کہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لۓ ضروری تھا۔ انہوں نے ھی فوجی خدمات حاصل کے لۓ مارشل ریس کا تصورابھارا ، جس کے تحت یہ لوگ اپنے سے کم تر جانے والی ذات کے لوگوں سے خود کوالگ مان کر انگریزوں کی وفاداری میں کچھ بھی کرنے کو تیارھوتے۔ جب مغلیہ سلطنت کو زوال آیا اور انگریزوں نے استحکام پکڑا تو انھوں نے مقامی لوگوں کے لۓ عدالتی نظام اور قوانین تشکیل دیۓ۔ اور ساتھ ھی مقامی پڑھے لکھے افراد کو قانون کی تعلیم کے لۓ انگلینڈ بھجوانا شروع کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ ان کے اقتدار کو دوام بخشنے میں مددگار ثابت ھوںگے اور نہ صرف خود انگریز رسم و رواج ، تعلیمی ترقی اور سیاسی نظام سے مرعوب ھونگے بلکہ اپنے سے منسلک افراد کو بھی انگریز راج کے فوائد سے آگاہ کریں گے۔ یہ افراد جب تعلیم مکمل کر کے ھندوستان واپس لوٹے تو انھوں نے انگریز قوانین کے تحت اپنے جوہر دکھلاۓ۔ چونکہ اس سے قبل نہ تو تحریری قوانین تھے اور نہ ھی لوگوں کو بذریعہ وکیل قانون سے کھل کر چھیڑ چھاڑ کا موقع ملتا تھا ۔ لہذا انہوں نے مقامی افراد کے باہمی جھگڑوں میں انگریزی زبان دانی اور انگریز قوانین کی تشریع میں خوب نام کمایا اور انکی قانونی امداد کے ساتھ ساتھ سیاسی قیادت کے فرائٰض بھی سنبھال لۓ۔
یوں ایک با لکل نیا پیشہ وجود میں آیا جس میں شمولیت کے لۓ ذات کی کوئ قید نہ تھی بلکہ ایک خاص حد تک تعلیم ھی اس کا معیار بنا۔ شروع شروع میں صرف ان علاقوں تک وکلاء کا وجود تھا جہاں جہاں انگریزوں کا تسلط قائم ھوتا گیا۔ 1774 سے لیکر 1853 تک مختلف ریگولیشنز کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر کنٹرول علاقوں میں وکلاء کو انگریزی قوانین کے تحت قائم شدہ عدالتوں میں فریقین کی جانب سے پیش ھو کر ان کا نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور وکیل کسی بھی مذھب اور قوم کا ھو سکتا تھا۔ گو کہ 1857 تک مغلیہ حکمرانی بعض علاقوں میں برقرار تھی مگر مغلیہ عدالتی نظام میں اس طرح وکلاء کا تصور نہ ھونے کے برابرتھا۔ ۔ شاید یہی وجہ ھے کہ جب بہادر شاہ ظفرکےخلاف مقدمہ کا ٹرائیل انگریزی قوانین کے تحت ھوا تو بہادر شاہ ظفر کی جانب سے کوئی دفاع نہ کیا گیا اور ملزم کا صرف یہ بیان آیا کہ اسے باغیوں نے زبردستی اپنا لیڈر بنا لیا تھا۔ پھرجب 1857 کے واقعات کے بعد برطانیہ نے براہ راست پورے ھندوستان کی حکومت سنبھالی تو 1861 میں برطانوی پارلیمنٹ نے مدراس، کالکتہ اور بمبی کے لۓ ھائی کورٹ کے قیام کی منظوری دی۔ پنجاب پر 1849 میں قبضہ کے بعد مہاراجہ کے عدالتی نظام کو مکمل بدل دیا گیا۔ 1924 میں عورت وکیل کو بھی عدالتوں میں پیش ھونے کی اجازت دی گئ۔
قیام پاکستان اور ھندوستان کی آزادی کی تحریک میں جن اکابرین کا تزکرہ ملتا ھے ان میں علامہ اقبال، قائد اعظم، پنڈت نہرو،ڈاکٹر بی۔ ار امبیدکراور مہاتما گاندھی، پیشے کے لحاظ سے وکیل ھی تھے۔ اس دور کے مقدمات میں مقامی مذہبی اور سیاسی راہنماوُں کی عدالتوں میں گھن گرج کے قصے آج بھی فخر سے بیان کۓ جاتے ھیں۔ وکلاء کا بڑا طبقہ وجود میں آنے کے باوجود، ذات پات کے بندھن اتنی آسانی سے ٹوٹنے والے تو تھے نہیں اس لۓ برھمن اور اونچی ذات کے وکلاء کچھ ھی عرصہ میں چھا گۓ۔ ان کی فیس اور مقدمات کی بھرمار ان کے مقام کا تعین کرنے لگی۔ سیاسی معاملا ت میں بھی ان کی سنی جانے لگی۔ نچلی ذات کے وکلاء میں ڈاکٹربی۔ آر امبیدکر جیسے نابغہ روزگار نے ساری زندگی اس الجھن کا سامنا کیا۔ پاکستان کے پہلے وزیر قانون جوگندرناتھ منڈل بھی اسی نسلی تفاخر کا شکار رھے۔ انگریز مقامی لوگوں کے باہمی معاملات کی حد تک تو انکے نسلی تفاخر کو قبول کرتے تھے مگر جہاں اس کی زد ان کےریاستی مفاد پر پڑتی توبرداشت کرنے والے کہاں تھے۔ مہاتما گاندھی نے اپنی سوانع حیات میں لکھا ھے کہ جب بیرسٹری کے بعد واپس ھندوستان آ کرپہلے بمبئی اور پھر راجکوٹ میں وکالت شروع کی تو کاٹھیاواڑ میں اس کے بھائی کا ایک مقدمہ پولیٹکل ایجنٹ کے پاس تھا ۔ گاندھی اس پولیٹکل ایجنٹ کو انگلینڈ میں تعلیم کے دوران سے جانتے تھے۔ وہ اس کے پاس گۓا اور کام کے بارے میں بتایا۔ جس پر پولیٹیکل ایجنٹ نے برا منایا اور دفتر سےنکل جانے کا کہا۔ جب گاندھی نےذرا تامل کیا تو اس کے کہنے پر دفتر کے چپراسی نے کرسی پر بیٹھے گاندھی جی کوکندھوں سے پکڑ کر باہر نکالا۔ بقول گاندھی، یہ بے عزتی ناقابل برداشت ، مگروکالت کے کیرئٰیر کو بچانے کے لے مجبوری تھی۔ انہی دنوں سیٹھ عبداللہ میمن بمبی والے کی فرم سے ساوُتھ آفریقہ میں بطور اسٹنٹ وکیل بجھوانے کی آئی آفر قبول کی۔ وہاں جاتے ھی انہیں جس نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا اور جو جدوجہد کرنا پڑی اس نے ان کو گاندھی سے مہاتما بنا دیا۔
اج بھی انڈیا کے جوڈیشل سسٹم سے نالاں دلت وکؒلاء کا گلہ ھے کہ وھاں ایک سپر الیٹ کلب کا راج ھے۔ اس کلب سے تعلق رکھنے والے وکلاء ھی اعلی عدلیہ میں جگہ پاتے ھیں۔ ان کے رشتہ دار، بھانجے، بھتیجے، سالے، بہنوئی اور چیمبر فیلو جب عدالت میں پیش ھوتے ھیں تو ججزحضرات دوران سماعت مقدمہ ان سے ھنسی مذاق بھی کرتے ھیں اور ریلیف بھی فوراٗ مل جاتا ھے، جس سے کلائنٹ کا متاثر ھونا لازمی امر ھے۔ جبکہ اس کے مقابل جب کوئی دلت کمیونٹی کا وکیل پیش ھو، خواہ وہ سینئر وکیل ھی کیوں نہ ھو، باتوں باتوں اس کی تذلیل کی جاتی ھے۔ 1861 کے بار کونسل ایکٹ کے تحت سینئر وکیل کا سٹیٹس مخصوص گروہ کے وکلاء کودیا جاتا ھے، جو اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ نہ تو خود کیس دائر کرتے ھیں اور نہ شنوائ کا انتظار۔ وہ جب بھی کورٹ روم میں داخل ھوتے ھیں، ان کا کیس سن لیا جاتا ھے اور ریلیف بھی دل کھول کر دیا جاتا ھے۔ اسی نوعیت اور اھمیت کا مقدمہ اگر دلت وکیل کا ھو تو اس کو کمتر ھونے کا احساس دلاۓ بغیر شنوائی نہیں ھوتی اور ریلیف بھی شاذو نادر ھی ملتا ھے۔ جبکہ سینُیر کہلاۓ جانے وکلاء عدالت کے باہر میڈیا سے بھی کھیلتے ھیں، جو ان کی قابلیت، تجربہ، علم اور مرتبہ کے راگ الاپتا نظر آتا ھے۔ چونکہ ریلیف یقینی ھوتا ھے اس لۓ جتنی بڑی ضرورت، اتنی بڑی فیس، جو کروڑوں میں ھوتی ھے۔ کُڑنے والےوکلاء کو ان سے سیکھنے، منسلک ھونے،اور ان کی بچی کھچی ھڈیاں چوسنے کا درس ملتا ھے۔
پاکستان میں بھی ؤکلاء کمیونٹی کے مسائل شاید انڈیا جیسے ھی ھیں۔ کم وسائل وکلاء کو بدنام کرنے کے لۓ وکلاء گردی جیسی اصطلاح ایجاد کی گئ۔ اور معاشرہ میں تاثر پھیلایا گیا کہ وکلاء کا طبقہ ناانصافی کا موجب بن رھا ھے۔ اس تاثر کو پھیلانے والوں میں بد قسمتی سےچند وہ وکلاء بھی شامل ھیں، جن کے مفادات کیہں اور جڑے ھوۓ ھوتے ھیں۔ ان کےخیال میں وکالت صرف امراء کا پیشہ ھے اور عدالت میں حصول انصاف کے لۓ آنا صرف امیر کا ھی حق ھے۔ وہ اس بات سے ناخوش ھیں کہ ایک عام وکیل انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی بات کرتا ھے۔ ریاست اور اس کے ادارے ھمیشہ سے من مانی کرنے کے عادی ھوتے ھیں۔ اول تو وہ کوئی قانون بنانا ھی پسند نھیں کرتے، اور اگر کسی قانون کے تابع ھونا پڑے تو اس میں چور راستے تلاش کرلیتے ھیں اور اگر کوئی ان کو قانون یاد دلائے، تو چڑتے ھیں۔ قانون کی تعلیم کو مشکل اور مہنگا کرنا بھی ان کا حربہ ھے۔ جس طرح ڈاکڑ بننے کے لۓ، ایک کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑتا ھے اور پھر ڈاکٹر کی بے حسی اور لالچ کو یہ کہ کر برداشت کرنے کا کہا جاتا ھے کہ اس نے تعلیم حاصل کرنے کے لۓ جو خرچہ کیا ھے وہ بھی تو پورا کرنا ھے۔ ٹھیک اسی طرح وکیل بننے کے لۓ جو جتنی بڑی رقم خرچ کرے گا، وہ اتنی بڑی فیس بھی لے گا۔ ایسے میں سستے انصاف کے ریاستی دعوے ھوا میں تحلیل ھو جاتے ھیں۔
قانون کی تعلیم کوئی ایسی مشکل نھیں، جو عام آدمی کو سھمجھ نہ آسکے۔ اور اگر قانون مشکل ھے تو اس کو عام فہم بنانا ریاست کی ذمہ داری ھے۔ کیوں پرائیوٹ طور پر قانون کی تعلیم ممکن نہیں۔ اس میں کونسی پریکٹیکل والی کسوٹی ھوتی ھے جوعام پڑھا لکھا آدمی اسانی سے حل نہیں کر سکتا۔ اور اس کے حصول کے لۓ کسی عمر کی بھی ضرورت نہیں۔ پرایئوٹ لاء کالجز کو پالنا کس کی مجبوری ھے۔ کیا یہ کالجز ان اصحاب کا مستقل ذریہ معاش نہیں، جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر رہے ھیں۔ ایسا کرنے والوں کا خیال ھے کہ وکیل صرف ایسا شخص ھونا چاھیے جو اس کو بطور پیشہ اپنانے کا ارادہ لیکر آۓ اور اس پیشہ میں داخلہ محدود ھو تاکہ صرف وہ لوگ ھی اس پیشہ میں آسکیں، جن کا تعلق ایک خاص طبقہ سے ھو اور غریب کا بچہ اس پیشہ سے دور رھے۔ کیا صرف دولت مند اورسپر الیٹ کلب کےممبران کی آل اولاد ھی اس پیشہ کی اہل ھے۔ ان لوگوں کا خیال ھے کہ غریب طبقہ وکلاء عدالتی رکھ رکھاوُ سے ناواقف ھونے کے سبب مسائل پیدا کر رہے ھیں اور ان کی کوشش اور خواہش ھے کہ قانون کی تعلیم کو اتنا مشکل اور مہنگا کر دیا جاۓ کہ اسے آہستہ آہستہ واقعتاُ صرف طبقہ امرآ تک محدود کر دیا جاے۔ حالانکہ وکلاء میں بے چینی کا اصل سبب، وہ مخصوص طبقہ وکلاء ھے، جو ایک طرف تو عام وکلاء کو کوستے نیہں تھکتا، تو دوسری طرف ان کے بل بوتے مفادات سمیٹنے میں مصروف ھے۔ کیونکہ ان کا کام کسی بھی طرح کا ھو اور کسی بھی سطع پر،وہ فیضیاب ھو جااتے ھیں۔ قانون کی تعلیم تو اتنی عام اور سہل ھونی چاھۓ کہ ھر شھری خود اپنے حقوق سے نہ صرف آگاہ ھو بلکہ ان کی حفاظت کے طریقہ کار سے بھی واقف ھو۔ وکالت کو پیشہ اور وہ بھی مہنگا ترین بنانا اورپھر اس پر فخر کرنا اور اس کے تحفظ اور بقاء کے منصوبے بنانا، انسانی اور اسلامی اقدار کی نفی کے مترادف ھے۔
جہاں تک وکلاء پر بحثیت مجموعی دھونس دھاندلی اور وکلاء گردی جیسے الزامات کا تعلق ھے، نہ تو ھر وکیل اتنا بآثر ھے کہ اس کا ھرجاُئزو ناجائز کام ھو رھا ھے اور نہ ھی وہ تشدد کا راستہ اپنا سکتا ھے۔ البتہ جب وہ کھلی ناانصافی دیکھتا ھے اور اس کا ازالہ کرنے میں خود کو بے بس پاتا ھے تو ردعمل قدرتی ھے۔ جیسے غلط طور پر وکلاء گردی کا نام دیکردبانے کی کوشش کی جاتی ھے۔ جو لوگ عدالتوں کے اندر اور باہر وکلاء کے روپ میں پر تشدد کاروائیوں میں ملوث پاۓ جاتے ھیں اس میں ان کے وکیل ھونے یا نہ ھونے کا عمل دخل کم ھے۔ وہ اگر وکیل نہ بھی ہوتے، تب بھی جس شعبہ زندگی میں قدم رکھتے وھاں یہی گل کھلاتے۔ اگر یہ پولیس میں ھوتے، تو پولیس مقابلوں میں بے گناہ بندے مار رہے ھوتے، اگر ڈاکٹر بن جاتے تو مریضوں کے گردے بیچ رہے ھوتے، اگر انجینیئر ھوتے تو ریت، بجری اور لوھے کا سودا کرتے نظر آتے، اگر شعبہ تعلیم سے وابستہ ھوتے تومہنگے ترین ٹیوشن سنٹر کھولتے اور طالبات کو حراساں کرتے، اگر فوج میں ھوتے تو کورٹ مارشل کا سامنا کرتے،اگر سوشل ورکر ھوتے تو منشیات فروشی کرتے، اگر مذہبی راہنما ھوتے تو مخالف مسلک پر ڈنڈے برساتے، اور اگر سیاست میں ھوتے تو قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے۔ یہ ان کے معاشی، معاشرتی اورخاندانی پس منظر کی وجہ ھے کہ وہ ایسا رویہ اپناتے ھیں، اس میں ان کے صرف وکیل ھونے کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ایسے بے شمار واقعات سب کو معلوم ھیں جہاں صرف وکیل ھونا انصاف کے حصول میں بھی کام نہ آیا، کیونکہ اس کے مقابل مافیا کا تعلق اس قبیلہ سے نکلا جو کسی بھی میدان میں ناکام ھونا نہیں جانتا۔ ۔ اس لۓ نہ تو مراعات یافتہ اور نہ ھی مار کٹائی والے، وکلاء کے نمائیندے ھیں۔ یہ اپنی نمائیندگی خود کرتے ھیں ۔ یہ اگر وکیل نہ بھی ھوں اور کسی دیگر شعبہ زندگی سے وابستہ ھوں، تب بھی یہ ، اپنے لۓ راہ نکال لیتے ۔
ہر صاحب اختیارلا محدود اختیارات کا متمنی ھوتا ھے اور جوں جوں وہ ان کے استمعال کی لذت سے آشنا ھوتا جاتا ھے اس کی ھوس میں اضافہ ھی ھوتا جاتا ھے۔ وہ راستے میں آنےوالی ھر رکاوٹ کوھٹانے کی کوشش کرتا ھے۔ یہاں تک کہ اپنے ھی بناۓ ھوۓ قوانین کو برداشت کرنے کی سکت سے بھی عاری ھو جاتا ھے۔ اسی جبلت کے تحت شعبہ قانون سے وابستہ افراد بھی جب کسی انتظامی عہدہ پر براجمان ھوتے ھیں تو قانون ٹوڑنے میں فخرمحسوس کرتے ھیں۔ اور ان کی زبان سے ھی اکثر یہ فقرے سننے کو ملتے ھیں کہ” بڑا آیا قانون کی بات کرنے والا”، “قانون کو اپنے پاس رکھو”، اور” قانون وھی ھے جو میں کہتا ھوں”۔ چند روزقبل تک اسی طبقہ وکلاء سے فخریہ تعلق رکھنے والےدوسروں سے زیادہ اس طبقہ کو کوسنا شروع کر دیتے ھیں، با لکل اس پولیس والے کی مانند، جو وکلاء پرلاٹھی چارج کرتے وقت یہ بڑبڑانا ضروری سہمجتا ھے کہ “میں اب تجھے بتاتا ھوں کہ قانون کیا ھے۔” اس لۓ یہ کہنا کہ وکلاء بحثیت پیشہ،غیر قانونی افعال میں ملوث ھوتے ھیں، درست نہیں، بلکہ یہ ایک طرح سے تضحیک وکالت ھے۔ البتہ یہ درست ھے کہ وکلاء ھر غیر قانونی عمل پر ردعمل ضرور دیتے ھیں اور یہی بات ھر قانون شکن کو ناگوار گزرتی ھے