امریکہ میں بڑھتے ماس شوٹنگز کے جرائم


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

امریکی معاشرتی نظام میں تشدد کے بڑھتے واقعات، بالخصوص ماس شوٹنگز کے جرائم نے اخلاقی اقدار کو کھوکھلا کردیا ہے۔ نارتھ یونیورسٹی اور امریکی روزنامے یو ایس اے ٹو ڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے پندرہ برسوں کے دوران تشویش ناک حد تک بڑھتے جا رہے ہیں۔ 2020 میں ماس شوٹنگز کے واقعات میں 106 افراد کو ہلاک کیا گیا، جب کہ رواں برس ماس شوٹنگ کے 15 واقعات میں 86 افراد ہلاک کئے جاچکے ہیں۔ ایک ایسے ہی واقعے میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے علاقے سین ہوزے میں قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کے مطابق ریل کی دیکھ بھال کرنے والی ایک تنصیب میں فائرنگ سے آٹھ افراد ہلاک اور کئی دوسرے زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے مطالعہ اور دہشت گردی کے مطالعہ کے لئے نیشنل کنسورشیمم کے مطابق، مریوری لینڈ یونیورسٹی میں گلوبل دہشت گردی کے ڈیٹا بیس کے مطابق، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں سب سے زیادہ شوٹنگ کے واقعات نجی شہریوں اور ملکیت کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن امریکہ میں اس قسم کے واقعوں کو نفسیاتی مسائل سے جوڑا جاتا ہے اور اگر فائرنگ کرنے والا امریکی شہری ہے تو اُسے کوئی نفسیاتی عارضہ یا پھر کوئی دماغی بیماری یا معاشرتی مسائل کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا جائے گا، تاہم بدقسمتی اگر اس قسم کا کوئی واقعہ دنیا بھر میں کسی بھی مسلمان سے سرزد ہوجائے تو بنا تحقیق واقعے کو دہشت گردی و انتہا پسندی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور کہیں اس شخص کا تعلق پاکستان سے نکل آئے تو پوری دنیا میں بھونچال آجاتا ہے اورایک ایسا پروپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے کہ جیسے امریکہ سمیت پوری دنیا کی بقا و سا لمیت کو خطرات درپیش ہوگئے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق امریکہ کے16 شہروں میں ملک میں نفرت پر مبنی جرائم میں 164 فیصد اضافہ ہوا ہے اور رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران اس نوعیت کی95 شکایات پولیس کو درج کرائی گئی جب کہ سروے کے مطابق گذشتہ برس اسی عرصہ کے دوران یہ تعداد 36 تھی۔امریکہ کے شہروں میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے واقعات ہمیشہ امریکی حکومت کے لئے چیلنج رہے ہیں لیکن گن شوٹنگ سمیت پر تشدد واقعات و نسل پرستی کی بڑھتی لہر کو سپرپاور روکنے میں ناکام رہا ہے، بالخصوص امریکی شہریوں کے پاس مہلک ہتھیاروں کی موجودگی و اس پر پابندی سمیت قانون سازی کے لئے موثر اقدامات نہ کئے جانا، وائٹ ہاؤس کی سیاسی مجبوریوں کی المناک داستان کا شرم ناک حصہ ہے۔ امریکہ میں نسلی تفریق کے خلاف تربیت و تعلیم کے لئے گرانٹس بھی فراہم کی گئی ہے۔ امریکی سوشل میڈیا میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف تشدد کے واقعات منظر عام اانے کے بعد ایسے ایشیائی خاندانوں کو حوصلہ مل رہا ہے کہ وہ نسل تفریق کے واقعات پر آوا ز اٹھائیں، ایشیائی امریکیوں کے لئے سب سے اہم و دیرینہ مسئلہ یہ بھی درپیش ہوتا ہے کہ ان کے اپنے آبائی ممالک ان کے ساتھ ہونے والے مثالم پر آواز نہیں اٹھاتی، جس کے سبب ایشیائی امریکی شہری اپنے خلاف ہونے والے جرائم کو رپورٹ نہیں کرتے اور مزید حملوں سے بچنے کے لئے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مارچ 2020 کے بعد سے اب تک ’سٹاپ اے اے پی آئی ہیٹ“ ویب سائٹ پر، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف نسلی حملوں کے 6600 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ادارے کی مئی میں آنے والی قومی رپورٹ کے مطابق نسلی حملوں میں پینسٹھ فیصد زبانی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات شامل ہیں۔ ایشیائی امریکیوں سے شعوری طور پر گریز کے اٹھارہ فیصد، جسمانی حملے کے بارہ فیصد واقعات رپورٹ ہوئے جو ایشیائی امریکیوں کے خلاف متعصبانہ رویے کے غماز ہیں۔ ’سٹاپ اے اے پی آئی ہیٹ‘ پر رپورٹ میں نفرت پرمبنی دیگر جرائم میں کام کی جگہ پر امتیازی سلوک اور آن لائن ہراسان کیا جانا شامل ہے۔ گن شوٹنگ کے مختلف واقعات میں ایشیائی امریکیوں کو بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے،
امریکی ریاست انڈیانا کے شہر انڈیانا میں 19 اپریل 2021 کو’کورئیر کمپنی فیڈ ایکس کے ایک دفتر پر ہونے والے فائرنگ کے واقعہ میں 8 افراد کی ہلاک ہوئے۔ امریکہ میں گزشتہ کچھ برس میں وقتاً فوقتاً ہونے والے فائرنگ کے واقعات میں اب تک سیکڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔فائرنگ کا ایک واقعہ ریاست کولوراڈو کی ایک سپرمارکیٹ میں پیش آیا۔ جس میں ایک پولیس افسر سمیت دس افراد ہلاک ہوگئے۔اس واقعے کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے قومی سطح پر مہلک ہتھیاروں پر پابندی لگانے پر زور دیا، تاہم کولوراڈو واقعہ امریکہ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی فائرنگ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل بھی اس طرح کے مختلف واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں تین مساج پارلرز میں فائرنگ میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے، ان میں بیشتر ایشیائی خواتین تھیں۔سال 2020 میں بھی فائرنگ کے دو واقعات ہوئے۔امریکی ریاست میزوری میں ایک گیس اسٹیشن پر فائرنگ کے واقعے میں چار افراد، ریاست وسکونسن کے شہر ملوکی میں ایک کمپنی میں فائرنگ پانچ افراد مارے گئے۔ سال 2019 میں 10 واقعات کے نتیجے میں 73 ہلاکتیں، 112 زخمی ہوئے۔ ریاست نیو جرسی میں جرسی سٹی کی ایک مارکیٹ میں فائرنگ سے چار افراد ہلاک، ریاست فلوریڈا کے شہر پنساکولا کے نیول بیس میں تین افراد ہلاک اور چھ زخمی۔ ریاست ٹیکساس میں مڈلینڈ اور اوڈیسہ میں پیش آئے واقعے میں 25 افراد زخمی ہوئے جب کہ سات افراد ہلاک، اوہایو کے شہر ڈے ٹن میں ایک بار حملے میں 9 افراد کی ہلاکت ہوئی جب کہ 27 لوگ زخمی، ریاست ٹیکساس میں وال مارٹ میں فائرنگ 22 افراد مارے گئے جب کہ 26 افراد زخمیوں میں بھی شامل تھے۔امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں ایک فیسٹیول میں فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 12 زخمی،ورجینیا بیچ میں ایک عمارت میں فائرنگ کا واقعہ میں 12 افراد ہلاک اور چار زخمی، ریاست الینوائے کے شہر ارورا کے ایک ویئر ہاؤس میں فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے جب کہ زخمی ہونے والوں کی تعداد چھ، امریکی ریاست پنسلوینیا کے ہوٹل بار میں فائرنگ واقعہ میں ہلاکتوں کی تعداد تین رہی جب کہ ایک فرد زخمی،ریاست فلوریڈا کے شہر سب رنگ میں بینک میں فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ جب کہ سال 2018 کو 12 واقعات میں 80 ہلاکتیں، 70 زخمی ہوئے تھے، امریکہ میں سال 2017 میں بھی فائرنگ کے 11 واقعات رونما ہوئے جس میں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔اگرچہ پورے سال اس طرح کے واقعات ہوئے تاہم دو واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔پانچ نومبر کو ٹیکساس کے ایک گرجا گھر میں فائرنگ کی گئی۔ واقعے میں 26 افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔
امریکہ میں نسل پرستی و تعصب و توہم پرستی کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں، جس کو روکنے کے لئے امریکی انتظامیہ قریباََ ناکامی کا سامنا کررہی ہے۔ بالا ئی سطور میں درج واقعات امریکی ذرائع ابلاغ میں دی گئی رپورٹس کا ایک اجمالی تذکرہ ہے، جو امریکی نظام معاشرت کا بھیانک چہرہ کی عکاسی کررہا ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں امن کا نام نہاد ٹھیکدار بنتے ہوئے اپنے معاشرتی نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو درست کرنے میں ناکام ہوا اور امریکی شہریوں میں مہلک ہتھیار بڑے پیمانے میں قانونی طور پر منتقل ہوئے، سروے و رپورٹ کے مطابق امریکہ کے فی کس شہری کے پاس پانچ سے زائد مہلک ہتھیار ہوجود ہیں، تحفظ کے نام امریکی سیکورٹی اداروں کی کارکردگی صرف نسلی تعصب کے نام پر ایشیائی امریکیوں و مسلمانوں کے خلاف محدود رہتی ہیں۔ امریکی سیکورٹی اداروں نے اپنے معاشرے میں متشدد واقعات کی کمی کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور ہر روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جنہیں مغربی پیمانے کے مطابق دہشت گردی کے واقعات قرار دیا جاسکتا ہے، انتہا پسندی صرف کسی خود ساختہ سوچ سے جڑی ہوئی نہیں، بلکہ انتہا پسندی سے مراد یہی ہے کہ وہ مذہب، نسل امتیاز و اپنے نظریات میں فسطائیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔امریکہ میں گن شوٹنگز کے واقعات اسکول، گرجا گھر، مساجد، کلب اور عوامی مقامات میں ہوتے رہتے ہیں، ان میں ملوث افراد خودکشی کرلیتے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ انتہا پسندی سے متاثر شخص اپنی زندگی کی پرواہ نہیں کرتا و خود کش حملے میں بے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیتا ہے، اس صورت میں امریکہ کا ان واقعات کو سطحی انداز میں لینا خود ان کے معاشرے کے لئے خطرناک بنتا جارہا ہے، متشدد و نفسیاتی مریضوں کو مہلک ہتھیار دینے اور انہیں رکھنے کے خلاف قانون موجود ہے، تاہم انتہا پسند، اپنے سخت گیر نظریات کی وجہ سے بے گناہ افراد کو جانی نقصان پہنچاتے ہیں۔امریکی مہلک گن کلچر کے سدباب کے ضروری ہے کہ امریکہ اپنی ریاستوں میں تشدد کے خاتمے کے لئے موژر پالیسیاں اپنائے، اگر افغانستان اور اسرائیل میں پرتشدد کاروائیوں کا موجب و سرپرستی کے رجحان میں فروغ کا موجب بننے سے گریز کی راہ اختیار کرے گا تو خو د امریکہ کے معاشرت کے لئے بہتر ہوگا۔اس سے دنیا بھر میں تشدد کے خاتمے کے لئے انتہاپسندی کی ہر شکل کو ناکام بنانے کے لئے عوام کے وسائل درست سمت خرچ کئے جاسکیں گے۔