بدعنوان اور عیاش بینک افسران کی کہانی

ویسے تو بینک کی ملازمت ایک وائٹ کالر جاب ہے پینٹ کوٹ اور ٹائی میں ملبوس مرد افسران بینک کی ملازمت کرتے ہوئے انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ان کی ملازمت اور کام کو پسند کیا جاتا ہے معاشرے میں انہیں کامیاب مانا جاتا ہے یقینی طور پر یہ ملازمت اور مقام حاصل کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے دنیا بھر کی طرح پاکستان کے مختلف بینکوں میں ملازمت کرنے والے بینک افسران بڑی محنت کرتے ہیں اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے ترقی کرتے ہیں انہیں بے شمار چیلنجوں کا سامنا رہتا ہے ذہنی دباؤ اور ٹینشن کا جتنا سامنا ہمارے بینک افسران اور ملازمین کرتے ہیں شاید ہی کوئی دوسرا شعبہ کرتا ہو لیکن عام تاثر یہ ہے کہ یہ افسران اور ملازمین ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ملازمت کرتے ہیں انہیں دفتر میں اچھا پرسکون آرام دے ماحول ملتا ہے دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر آنے جانے کے لیے بہترین سفری سہولت میسر آتی ہے ایک اچھی زندگی گزارتے ہیں ۔
پاکستان میں مختلف بینکوں کے حوالے سے اچھی اچھی خبریں سننے کو ملتی ہیں بینکوں کے اشتہارات اور خبروں میں انہیں بہترین کارکردگی دکھانے والے ادارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ان کی خدمات سہولتوں اور کارکردگی میں انہیں سب سے آگے دکھایا جاتا ہے ان بینکوں کا منافع بھی دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے اور ان بینکوں کی ساکھ بھی بہت اچھی ہے ۔


معاشرے میں اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں بینکوں میں بھی اچھے برے لوگ موجود ہیں پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح بینکوں میں کام کرنے والے سارے افسران اور ملازمین اچھے نہیں ہوتے ۔کچھ گندی مچھلیاں بھی اس تالاب میں آ جاتی ہیں گندی مچھلیاں کی وجہ سے بینکنگ کو نقصان ہوتا ہے اور بینک کے اچھے پرسکون آرام دے ماحول کی آڑ میں غلط کام بھی کیے جاتے ہیں بینکوں کے حوالے سے مختلف عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس جو رپورٹیں آتی ہیں ان میں بدعنوانی اور کرپشن کے ساتھ ساتھ خواتین کو ہراساں کرنا اور ان سے غیر اخلاقی غیر شائستہ گفتگو رابطے اور فرمائشیں اور ان کو بے جا تنگ کرنے کے واقعات شامل ہوتے ہیں عدالتی مقدمات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس آنے والی شکایات یا بینک کے اعلی حکام تک پہنچنے والی شکایات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بینکوں میں بدعنوان اور عیاش افسران موجود ہیں کچھ ایسی شکایات سامنے آنے کے بعد اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں لیکن ابھی بہت سے پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے جنہیں بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے یہ وہ گندی مچھلیاں ہیں جو دوسروں کے انجام سے سبق نہیں سیکھ پائیں اور آج بھی اپنے غلط کاموں کے راستے پر چل رہی ہیں ۔


یہ کالی بھیڑیں بینک ملازمت کرنے والے دیگر ملازمین کے لیے بھی شرمندگی اور مشکلات کا باعث بنتی ہیں کیونکہ والدین اور بہن بھائی اور بیوی بچوں کو بعد میں ان کے سیاہ کارناموں کی وجہ سے بہت مشکلات شرمندگی اور پریشانی اٹھانی پڑتی ہے جب کہ وہ خواتین جن کو یہ تنگ کرتے ہیں یا ان کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کرتے ہیں ان کے لئے بھی ملازمت کرنا مشکل ہو جاتا ہے جبکہ بینک فراڈ اور بدعنوانی میں ملوث افسران اور ملازمین کو بالآخر قانون اپنی گرفت میں لے لیتا ہے پھر ان کا بنا بنایا کھیل اور بہت اچھا کیریئر تباہ ہو جاتا ہے ایک اچھی زندگی برباد ہو جاتی ہے ۔
جیوے پاکستان ڈاٹ کام نے اپنی گزشتہ چند رپورٹس میں ایسے بدعنوان اور عیاش بینک افسران کو بے نقاب کیا تو ملک اور بیرون ملک سے بڑی تعداد میں قارئین نے اس سلسلے کو بے حد سراہا اور فرمائش کی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے اور ایسی مزید گندی مچھلیوں کو تالاب سے باہر پھینکنے کے لیے کوشش کی جائے ۔مختلف بینکوں میں کام کرنے والے ملازمین اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے بھی جیوے پاکستان ڈاٹ کام کو اس سلسلے میں مختلف واقعات اور دستاویزی شواہد بھیجے ہیں لوگ مختلف واقعات کی تفصیلات اور شکایات بھیج رہے ہیں یہ سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے اس لیے کوشش کی جائے گی کہ ان میں سے کچھ واقعات کو آپ تک پہنچایا جائے تاکہ ایسے بدعنوان اور عیاش افسران سے بینکوں اور وہاں ملازمت کرنے والی خواتین کو پریشانیوں سے انہیں نجات دلائی جا سکے ۔
آپ کو یاد ہوگا انہیں سطور میں بتایا گیا تھا کہ حبیب بینک لمیٹڈ کا ایک افسر ایک خاتون کے پیچھے ہی پڑ گیا اور اس کے لئے مسائل بڑھا دیئے جس کے بعد آواز اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا تھا یہ سٹوری آپ جیوے پاکستان ڈاٹ کام پر پڑھ چکے ہیں ۔


آج آپ کو حبیب بینک لمیٹڈ میں ملازمت سے فارغ ہونے والے ایک اور افسر کے بارے میں بتا رہے ہیں جنہیں کراچی میں ایک خاتون بینک ملازم کی شکایت پر نہ صرف شرمندگی اٹھانی پڑی بلکہ انکوائری کمیٹی کے سامنے تمام حالات اور واقعات کھل کر سامنے آئے تو وہ مشتعل ہوگئے اور شکایت کرنے والی خاتون ملازم پر دو ٹکے کی عورت ہونے کے الزامات لگاتے رہے لیکن بینک انتظامیہ نے بالآخر ان کو ملازمت سے فارغ کر دیا ان کے خلاف شکایات سامنے آئی تھی کہ انھوں نے اپنے دفتر میں کام کرنے والی ایک خاتون بینکر کو ٹرانسفر سے بچنے اور پرموشن کے حوالے سے لالچ دیا اور اعلی افسر سے ملوانے کے لیے اس کے گھر پر جانے کی بات کی ۔چھٹی کے روز مذکورہ خاتون بینکر کو کراچی کے ایک معروف علاقے سے اپنی کار میں بٹھایا جسے ایک اور شخص چلا رہا تھا اور پھر اسے ایک اور علاقے میں ایک فلیٹ پر لے گئے اور وہاں اس کے ساتھ زیادتی کی کوشش کی خاتون مشکل سے اپنی عزت بچا کر وہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوئی اور اس نے بینک کی اعلیٰ انتظامیہ کو ساری صورتحال کی شکایت کر دی خاتون نے یقینا بہادری کا مظاہرہ کیا اور بینک افسر کو بے نقاب کر دیا ۔اس معاملے میں خاتون کی غلطیوں پر بھی بحث کی گئی کہ وہ چھٹی کے دن گھر سے کیوں نکلی اور بینک آفیسر کے گھر پر جانے کے لئے رضامند کیوں ہوئی اگر اسے اپنا ٹرانسفر بچانا تھا یا پرموشن کے لئے بات کرنی تھی تو دفتر میں بات ہو سکتی تھی اس کام کے لیے کسی افسر کے گھر پر جانا وہ بھی چھٹی والے دن ۔۔۔یہ بات آسانی سے ہضم نہیں ہوتی ۔


اس واقعے کی انکوائری بینک کے اعلی حکام نے کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ بینک آفیسر نے خاتون بینکر کو ایک پلان کے تحت ٹریپ کیا اور اسے ٹرانسفر رکوانے کے بہانے سے جھانسہ دیا ۔انکوائری کے دوران بینک آفیسر مشتعل ہو گیا اور اس نے خاتون بینک ملازمہ پر دو ٹکے کی عورت ہونے اور اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے حوالے سے غیر اخلاقی ریمارکس دینے شروع کر دیے جس کی وجہ سے اس کا کیس میں مزید بگڑ گیا بالآخر اسے ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے ۔


بینکوں کے بد عنوان افسران کے حوالے سے ایک اور کیس سامنے آیا ۔یہ کیس الائیڈ بینک لمیٹڈ کے ایک افسر کا ہے ۔اس کا نام ندیم خان اور یہ کوئٹہ میں برانچ کا مینیجر تھا ۔اسے کچھ سال پہلے نیب کی جانب سے 26 ملین کا ریفرنس دائر کیے جانے کے بعد

قومی احتساب بیورو نیب میں اس وقت گرفتار کر لیا تھا جب بلوچستان ہائیکورٹ نے اس کی عبوری ضمانت مسترد کر دی بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے یہ معاملہ زیر سماعت تھا عدالت نے دلائل سننے کے

بعد ضمانت مسترد کر دی نیب بلوچستان نے 26 ملین کا ریفرنس دائر کیا تھا کوئٹہ کی احتساب عدالت میں یہ معاملہ زیر سماعت رہا ۔

بدعنوان بینک افسران کے حوالے سے ایک اور معاملہ 91 ملین بینک فراڈ کا تھا جس میں نیب پنجاب میں 6 ملزمان کے خلاف ریفرنس بنایا اس معاملے میں HSBC بینک لندن نے شکایت کی تھی کہ کراچی میں کچھ بینک افسران جعلی اکاؤنٹ بنا کر لندن سے پاکستانی اور جاپانی اکاؤنٹس سے رقم منتقل کر رہے ہیں یہ شکایت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس آئی پھر یہ معاملہ ہے چیئرمین نیب کے پاس گیا اسی دوران الائیڈ بینک لمیٹڈ کی جانب سے نیب کو شکایت کی گئی کہ شہزاد خان کے خلاف ایسا ہی معاملہ سامنے آیا ہے کچھ برس پہلے ہونے والی اس تحقیقات میں نیب نے پتہ چلایا کہ ملزم حبیب اظہر اور محمد فیاض اقبال اور شہزاد خان عرف محمد سرور اور یاسر عرفات اور عبدالفاروق فرزند نسیم اور فرزانہ نسیم میں مختلف بینکوں کے ساتھ فراڈ کیا اور 91 ملین روپے کی رقم کا فراڈ سامنے آیا ۔
حبیب بینک لمیٹڈ کارپوریٹ برانچ فیصل آباد

کو 47 ملین کا نقصان پہنچایا گیا ۔پرائم کمرشل لاہور کو 25 ملین روپے کا نقصان ہوا ۔میزان بینک سرینا برانچ فیصل آباد

کو 17 ملین روپے کا نقصان ہوا ۔الائیڈ بینک لمیٹڈ کوتوالی روڈ فیصل آباد کو ایک ملین کا نقصان پہنچا ۔بینکوں کے علاوہ میسرز نوبل منی چینجرز کو 19 لاکھ روپے کا نقصان الگ ہوا ۔


اس معاملے میں نیب کی تحقیقات کے بعد پلی بارگین ہوا ۔51 ملین روپے کا جس میں مہران بی بی اور ممتاز بی بی اور شریفہ بی بی اور سکینہ بی بی نے رضاکارانہ رقم واپس کی آفر دی جسے مجاز اتھارٹی نے قبول کرلیا البتہ فرزانہ شاہین نے پہلے تو آپ رضا مندی ظاہر کی لیکن بعد میں فیصلہ بدل دیا ۔اس معاملے میں ملزمان پر الزام تھا کہ وہ جعلی شناخت Fake ID استعمال کرکے مختلف بینکوں میں اکاؤنٹ کھولتے رہے ان اکاؤنٹ میں لندن سے swift message کے ذریعے رقوم ٹرانسفر کی جاتی تھیں۔ملزمان میں دو برٹش نیشنل تھے جبکہ ایک برٹش پاسپورٹ محمد سرور کے نام سے استعمال کیا گیا تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہی پاسپورٹ نمبر شہزاد خان کے نام سے بھی استعمال ہوا ۔
ایک اور معاملہ الائیڈ بینک لمیٹڈ جیک آباد برانچ کے بینک افسران اور ملازمین کے حوالے سے سامنے آیا قومی احتساب بیورو کے پاس لے کے آیا سندھ ہائی کورٹ سکھر بینچ میں جج نے اسے وائٹ کالر کرائم کا ایک اہم کیس قرار دے کر ضمانت کی درخواست مسترد کی ۔CP- D-1653/2019 اور دیگر کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت آیا تھا یہ معاملہ تھا ایجوکیشن ورکس ڈویژن ۔ADP اور کس پروگرام میں گھپلے کا ۔اس کیس میں الائیڈ بینک لمیٹڈ جیکب آباد برانچ کے ملازمین ملوث تھے تمام ملزمان کی سندھ ہائی کورٹ نے ضمانت مسترد کردی تھی (جاری ہے )