شکریہ نیویارک ٹائمز…….!

نیوز روم/امجد عثمانی

شکریہ نیویارک ٹائمز…….!
amjad usmani column nigar 2632021

امریکی اخبار “دی نیویارک ٹائمز” نے شہید فلسطینی بچوں کا ایک جملے میں رلا دینے والا نوحہ لکھا ہے…..اخبار نے 28مئی کی اشاعت میں صفحہ اول پر
—-“They were just childern”—
کے عنوان سے ہنستے مسکراتے،چہکتے مہکتے67بچوں کی تصویریں شائع کرکے جہاں” ناجائز صہیونی ریاست” کے “خونخوار وزیر اعظم “نیتن یاہو کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر دیا ہے وہاں بڑے بڑے اسلامی ذرائع ابلاغ سمیت دنیا بھر کے “گونگے بہرے اندھے میڈیا”کے منہ پر طمانچہ بھی رسید کیا ہے……. انسانی حقوق کا علم بردار وہی” عالمی میڈیا” ، جس کو افغانی،عراقی اور شامی بچوں کے بہتے خون پر بھی سانپ سونگھ گیا تھا……..

“دی نیویارک ٹائمز “نے سچ لکھا کہ وہ تو محض بچے تھے!……کاش عرب نیوز سمیت مسلم دنیا کا کوئی اخبار شہید فلسطینی بچوں کی تصاویر چھاپ کر خون دل سے ایسی سرخی جماتا تو فلسطینی مائوں،بہنوں کے گہرے گھائو اس سوچ کے ساتھ جلد مندمل ہوجاتے کہ ان کے اپنوں نے ان کے زخموں پر مرہم رکھی ہے……..بہرکیف “دی نیو یارک ٹائمز” کا شکریہ کہ اس نے بے گناہ مسلمان بچوں کے قتل عام کیخلاف آواز اٹھا کر صحافت کی لاج رکھ لی ہے……..یہ کالم،یہ بلاگ اور یہ مکتوب” دی نیویارک ٹائمز “کے ایڈیٹر کے نام ہے کہ آپ کے اخبار کو سلیوٹ،آپ کے قلم کو سلیوٹ…….!!!

ہمارے اسلامی کلچر میں تو مائیں،بہنیں اور بچے سانجھے ہوتے ہیں….فلسطینی بچوں کے لاشے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ غزہ میں صہیونی فوج کس درجہ درندگی پر اتر آئی….یہ تو اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے بچے ہیں کہ جنہوں نے بچوں کو باغ کے پھولوں سے تشبیہہ جبکہ بچوں سے پیار نہ کرنے والوں کو “وہ ہم میں سے نہیں “کی وارننگ دی…..وہ سپہ سالار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کہ جنہوں نے جنگ کے دوران دشمن کے بچوں کے قتل کو ممنوع قرار دیا…….

سیرت کی ورق گردانی کریں تو جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے محبت کی مہک آتی ہے…..کیا کیا ایمان افروز واقعات ہیں کہ دل و دماغ معطر ہو جاتے ہیں…….آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچوں سے بہت دلچسپی تھی…..بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ،پیار کرتے،دعا فرماتے….ننھے بچے لائے جاتے تو ان کو گود میں لے لیتے….ان کو بہلانے کے لیے پیار بھرے عجیب کلمے فرماتے….. بچوں کے نام تجویز کرتے….سفر سے آرہے ہوتے تو جو بچہ راستے میں ملتا اسے سواری پر بٹھا لیتے….چھوٹا ہوتا تو آگے ،بڑا ہوتا تو پیچھے بٹھاتے…نیا پھل آتا تو دعائے برکت مانگ کر کم عمر بچے کو دے دیتے….بچوں کو قطار میں کھڑا کرکے انعامی دوڑ لگواتے کہ دیکھیں کون ہمیں پہلے چھوتا ہے….بچے دوڑتے ہوئے آتے تو کوئی سینہ پر گرتا،کوئی پیٹ مبارک پر….آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسوں حسنین کریمین رضی اللہ عنہم سے بھی بہت پیار تھا…..ان کو گود میں بٹھاتے،بوسے لیتے…کندھوں پر سوار کرتے…. حالت نماز میں بھی ان کو کندھوں پر بیٹھنے دیتے…..ان کے لیے گھوڑا بنتے…….

پیر کامل سید علی ہجویری کشف المحجوب میں رقمطراز ہیں:حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھٹنوں پر جھکے ہوئے چل رہے تھے….حضرت حسین رضی اللہ عنہ آپ کی پشت مبارک پر سوار تھے…..رسی کا ایک سرا ان کے ہاتھ اور دوسرا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک میں تھا…..حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا “کیا عمدہ اونٹ سواری کے لیے پایا”…….حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”یہ سوار بھی کتنا اچھا ہے”……

سیرت نگار جناب نعیم صدیقی نے اپنی کتاب محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم میں نقل کیا ہے کہ ایک بار اقرع بن حابس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جناب حسن رضی اللہ عنہ کا بوسہ لیتے دیکھا تو تعجب سے کہا کہ میرے تو دس بیٹے ہیں،میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا مگر آپ بوسہ لیتے ہیں….فرمایا”جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا”……حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کبھی کبھی پیار سے کہتے” اوہ! دو کانوں والے” …..حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی ابو عمیر کا پالا ہوا ممولا مرگیا تو وہ اداس بیٹھے تھے….حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو پکار کر کہا”ابو عمیر!تمہارے ممولے کو کیا ہوا؟”……..عبداللہ بن بشیر کے ہاتھ ان کی والدہ نے ہدیہ کے طور پر انگور حضور کی خدمت میں بھیجے……وہ راستے میں کھا گئے….جب معاملہ کھلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیار سے عبداللہ کے کان پکڑ کر کہتے “اوہ دھوکے باز،اوہ دھوکے باز”…

جناب ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ تو بہت ہی دلچسپ ہے…….بچے تھے کہ بچوں کے ساتھ اذان کی نقل اتار رہے تھے
….آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیارے لگے تو کعبہ کے موذن بن گئے……فرماتے ہیں :ہم مقام جعرانہ میں تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حنین سے واپس تشریف لارہے تھے….. مؤذن نے اذان دی ….. ہم مذاق کرتے ہوئے اذان کی نقل اتارنے لگے …..رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری آواز سن لی اور ہمیں اپنے پاس بلابھیجا…..آپ نے فرمایا : عمدہ ،بہترین اوربلند آواز سے تم میں سے کس نے اذان د ی؟ ساتھیوں نے میری جانب اشارہ کردیا ……آقا کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا اب اذان دو…..جب اذان مکمل ہوئی توآپ نے ایک تھیلی عطافرمائی جس میں چاندی تھی …..پھر اپنا دست مبارک میری پیشانی پر رکھ کر چہرے اور سینے کے اوپر سے گذارتے ہوئے ناف تک لے آئے اور تین مرتبہ برکت کی دعا فرمائی…… میرا دل آپ کی محبت سے لبریز ہوگیا ……… آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جاؤ مکہ مکرمہ میں اذان دیا کرو ……میں عاملِ مکہ کی خدمت میں حاضر ہوا …..کار گذاری سنائی اور کعبہ میں اذان دینے لگا……..

عہد رسالت سے عہد حاضر تک،شہر رسول مدینہ منورہ میں بچوں کے لیے ایک ہی پروٹوکول ہے کہ بچے آنکھوں کے تارے ہیں……
جناب ممتاز مفتی اپنے سفرنامہ حج “لبیک”میں لکھتے ہیں کہ مجھے قدرت اللہ شہاب نے نبی کریم کی بچوں سے محبت کا ایک واقعہ سنایا کہ مسجد نبوی میں بچے کھلیں یا شور مچائیں تو انہیں کوئی نہیں روکتا…..پاکستان کا ایک فوجی افسر عمرہ کرنے لیے ایک مہینے کی چھٹی پر یہاں آیا….مسجد نبوی شریف میں اس نے دیکھا کہ بچے شور کر رہے ہیں…..اسے بے حد غصہ آیا….کہنے لگا “یہ سراسر زیادتی ہے”…اس نے بچوں کو ڈانٹا……اس پر اس کے ساتھی نے جو مدینہ منورہ کی ڈسپنسری میں تھا،اس کو منع کیا کہ بچوں کو نہ ڈانٹے….افسر نظم و نسق کا متوالا تھا….. اس نے ڈاکٹر کی ان سنی کر دی…..رات کو اس موضوع پر دونوں میں بحث چھڑ گئی….ڈاکٹر نے کہا حضور اعلی صلی اللہ علیہ وسلم یہ پسند نہیں کرتے کہ بچوں کو ڈانٹا جائے…..اسی رات افسر نے خواب دیکھا…..حضور اعلی صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور خشمگیں لہجے میں فرمایا “اگر مسجد میں بچوں کی موجودگی پسند نہیں کرتے تو مدینہ سے چلے جائیے”…..
اگلے روز پاکستان کے فوجی ہیڈکوارٹرز سے ایک تار موصول ہوا جس میں اس افسر کی چھٹی منسوخ کر دی گئی تھی اور اسے فورا ڈیوٹی پر حاظر ہونے کا حکم دیا گیا تھا……ممتاز کہتے ہیں میں نے قدرت سے پوچھا کہ آپ کو اس واقعہ کا کیسے پتہ چلا….؟؟؟انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ڈسپنسری کے ڈاکٹر نے بتایا، جس کے پاس وہ افسر ٹھہرا ہواتھا……..!!!

سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سبق ہے کہ بچوں سے پیار کریں……بچے تو بچے ہوتے ہیں……ان سے کون سا اور کیسا انتقام؟؟؟؟کوئی وحشی ہی پھولوں پر بم برسا سکتا ہے……!!!