فیملی پلاننگ ۔کیا پاکستان میں عالمی اہداف کے تمام اشاریے منفی میں آرہے ہیں ؟پاپولیشن سیکٹر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی۔ لمحہ فکریہ !

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔۔۔۔۔پاکستان میں فیملی پلاننگ کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کے نتائج بھی کچھ اسی طرح کے ہیں ماہرین کے مطابق صورتحال کچھ زیادہ تسلی بخش اور حوصلہ افزا نہیں ہے ہمارے سرکاری افسران دل کی تسلی کے لئے اور عالمی فنڈنگ کے استعمال کو درست دکھانے کے لئے ایسی رپورٹیں تیار کرتے رہتے ہیں جن کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں فیملی پلاننگ کے حوالے سے شعور اور آگاہی بڑھائی گئی ہے اب ہمارے شادی شدہ جوڑے فیملی پلاننگ کے لیے ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر جدید اور محفوظ طریقے استعمال کر رہے ہیں اور انہیں ایسی مصنوعات تک ماضی کی نسبت باآسانی رسائی حاصل ہوگئی ہے جو مصنوعات آبادی میں اضافے کی رفتار کم کرنے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ پاکستان کو مختلف عالمی ادارے اپنی فنڈنگ اور قرضوں کے ذریعے آبادی کی رفتار کم کرنے کے لیے مدد فراہم کرتے ہیں مصنوعات بھی بھیجتے ہیں ٹریننگ بھی دیتے ہیں اور مسائل کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ رہنمائی بھی کرتے ہیں اس لئے ان کی ٹریننگ رہنمائی اور مدد کو موثر ثابت کرنے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سرکاری اور نجی ادارے اس قسم کی سچی اور کبھی آدھے سچ پر مبنی رپورٹیں تیار کرتے رہتے ہیں جن کے ذریعے فیملی پلاننگ کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کے نتائج تسلی بخش نظر اسکیں۔ لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہانی بیان کر رہے ہیں پاکستان پہلے دنیا میں زیادہ آبادی رکھنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر تھا تمام تر اقدامات اور رپورٹوں کے بعد بھی آبادی میں اضافے کی رفتار کم نہ ہو سکی اور آج پاکستان دنیا میں زیادہ آبادی رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر پہنچ گیا ہے پاکستان کے لیے یہ اعداد و شمار یہ رفتار اور آنے والے سال انتہائی تشویش ناک منظر نامہ پیش کرتے ہیں سال 2030 اور سال 2050 آبادی میں اضافہ کے لحاظ سے پاکستان کے وسائل کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوں گے اس لیے پوری دنیا پاکستان پر زور دے رہی ہے کہ اپنی آبادی اور وسائل میں توازن پیدا کریں پاکستان نے عالمی اجلاسوں میں سرکاری طور پر یہ یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ عالمی اہداف کے حصول کے لئے انتہائی سنجیدہ کوششیں اور اقدامات کرے گا پاکستان کی سپریم کورٹ نے بھی اس سلسلے میں نوٹس لیا تھا وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس کے بعد ٹاسک فورس تشکیل دی وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزیر اعلی کو اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ اور مسلسل اقدامات کرنے ہیں لیکن سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی ٹاسک فورس کی سفارشات پر صحیح معنوں میں عمل درآمد نہیں ہو رہا اس حوالے سے سرکاری افسران اور سیاستدان زیادہ لب کشائی نہیں کرتے ۔صوبائی حکومتیں اور پاپولیشن کے محکمے اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے رسمی اجلاس اور ان کے فیصلے خوبصورت الفاظ میں دنیا کے سامنے اس لیے پیش کرتے ہیں تاکہ عالمی فنڈنگ جاری رہے اور فنڈ بھیجنے والے ادارے مطمئن رہیں کہ ان کی بھیجی گئی رقم اور مصنوعات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔
پاکستان کے سرکاری دعوؤں کے برعکس دنیا کی مختلف ڈونر ایجنسیوں اور رہنمائی اور امداد فراہم کرنے والے اداروں نے واضح الفاظ میں پاکستان کے متعلقہ لوگوں کو خبردار کر دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں فیملی پلاننگ کے حوالے سے پاکستان کی جاری فنڈنگ میں کمی آئے گی اس کی مختلف وجوہات ہیں ایک بڑی وجہ کرونا کی وبا ہے جس نے پوری دنیا کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے بڑے بڑے دونوں ادارے بھی اس کی لپیٹ میں ہیں افرادی قوت پر بھی اثر پڑا ہے فنڈنگ کا رخ دیگر معاملات سے صحت کی طرف بڑھ گیا ہے باقی معاملات کی طرف جانے والی فنڈنگ کی شرح میں نمایاں کمی ہو گئی ہے اس لیے فیملی پلاننگ سمیت مختلف معاملات کے لیے رکھی گئی رقم میں کٹوتی کی گئی ہے آنے والے دنوں میں وہ رقم پاکستان جیسے ملکوں کو نہیں مل سکے گی جو ماضی میں ملتی رہیں اس لیے پاکستان کی حکومتوں کو وفاقی اور صوبائی سطح پر فیملی پلاننگ کے حوالے سے آنے والے چیلنجوں کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہیے ماضی کی نسبت آنے والے دنوں میں فنڈز میں کمی آئے گی جو سرکاری اور نجی ادارے ماں اور بچے کی بہتر صحت اور نشونما اور بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ کے حوالے سے مختلف مصنوعات کے ذریعے شعور اور آگاہی بڑھانے پر کام کر رہے ہیں انہیں اب اپنی ورک فورس کو برقرار رکھنے اور پالنے کے لیے خود وسائل پیدا کرنے ہوں گے یعنی مالی طور پر خود مستحکم ہونا ہوگا جس کے لیے انہیں کافی دنوں سے خبردار کیا جاتا رہا ہے لگتا نہیں ہے کہ یہ ادارے خود کو اتنا مالی طور پر مستحکم کر پائیں گے کیونکہ انہوں نے وہ تیاری نہیں کی جس کی ضرورت تھی یا ان کے لوگوں نے صورتحال کو اتنا سنجیدہ نہیں سمجھا جتنی سنگین صورتحال ہو رہی ہے نتیجہ یہ نکلے گا کہ مختلف محاذوں پر کام کرنے والی ورک فورس تنخواہ مراعات اور اخراجات کے معاملے میں ڈھیر ہو جائے گی اس کی ورکنگ بری طرح متاثر ہوگی شہروں کے ساتھ ساتھ دورافتادہ پسماندہ علاقوں میں شادی شدہ جوڑوں کا وہ مصنوعات اور خدمات نہیں پہنچ سکے گی جن کے ذریعے فیملی پلاننگ کو یقینی بنایا جا رہا ہے مصنوعات اور خدمات کی کمی اور عدم فراہمی کے نتیجے میں آبادی پر قابو پانے کے عالمی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جائے گا ۔آنے والے برس پاکستان جیسے ملکوں کے لیے مزید خطرناک نتائج لے کر آئیں گے ۔
پاپولیشن کنٹرول کے حوالے سے کام کرنے والے ماہرین اس صورتحال سے پوری طرح باخبر ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ حکومتیں بھی اس صورتحال سے ادراک رکھتی ہیں لیکن جان بوجھ کر خاموش ہیں یا پردہ پوشی کی جارہی ہے کیوں کہ آبادی کا معاملہ ایسا ہے جو کسی بھی حکومت کے سیاسی ایجنڈے میں اولین ترجیح نہیں ہے پاکستان میں حکومت وفاقی ہو یا صوبائی ۔۔۔سب کو اپنے مستقبل کی فکر ہے قوم کے مستقبل کی فکر کسی کو نہیں ۔۔۔سیاسی اور مذہبی جماعتیں باقی تمام معاملات پر لڑ رہی ہیں آواز اٹھا رہی ہیں لیکن آبادی کے معاملے میں کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے سب کی آوازیں گم ہیں۔ رسمی بیان بازی سے زیادہ کچھ نہیں ہو رہا اس لیے فیملی پلاننگ کے حوالے سے عالمی اہداف کے حصول کی توقع رکھنا بالکل فضول ہوگا ۔کسی خوش فہمی کو پالنا خود فریبی سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگا ۔اس حوالے سے حکومتی شخصیات گلہ ضرور کرتی ہیں کہ مایوسی کی باتیں کیوں پھیلاتے ہو ۔لوگوں کو امید دلاؤ ۔۔۔امید پر دنیا قائم ہے ۔۔۔۔لیکن فیملی پلاننگ کے معاملے میں اگر لوگ امید سے ہو گئے تو ساری کوششوں پر ویسے ہی پانی پھر جائے گا ۔
———————————
Salik-Majeed
———————-
Jeeveypakistan.com-report
————————-Whatsapp……….92-300-9253034