واٹر سینچری


تحقیق و تجزیوں سے حالات حاضرہ کے دور رس نتائج پر مبنی مستقبل کی امکانی صورت گری (VISUALIZATION)کرنے والے عالمی تھنک ٹینکس نے کہا کہ 21ویں صدی اپنے اختتام پر ’’واٹر سینچری‘‘ کہلائے گی۔ واضح رہے 20 ویں صدی کے آخری ربع میں متعلقہ عالمی ماہرین نے اسے ’’کمیونیکیشن سینچری‘‘ کے طور پر تسلیم کرلیا تھا۔ اس صدی میں انسانی زندگی کے ہرشعبے میں ایک سے بڑھ کر ایک ایجاد ہوئی، لیکن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی تیز تر ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ایڈوانسمنٹ نے 60 کے عشرے میں کینیڈین ماہر سمیاجیات و ابلاغیات پروفیسر مارشل مکلہوہن کے ’’گلوبل ولیج‘‘ کا خواب شرمندہ تعبیر کردیا۔ قارئین کرام! واضح رہے کہ رواں 21 ویںصدی کی آمد پر جیسے ہی نئی صدی کے ’’واٹر سینچری‘‘ کے امکانی تشخص کا چرچا ہونے لگا، اور ممالک کے محفوظ ، مستحکم اور خوشحال ہونے کے لئے ’’واٹر مینجمنٹ‘‘ کا ناگزیر ہونا ٹھہر گیا تو اس نئے عالمی ایجنڈے نے ترقی پذیر ممالک کو بھی الرٹ کردیا اور ان میں بھی اس نے ’’ترجیحی قومی ایجنڈے‘‘ کی مستقل شکل اختیار کرلی۔ بھارت تو پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت ہمسایوں کے پانی کے حق کو بھی ہتھیانے کی مینجمنٹ کرنے لگا۔

وائے بدنصیبی، اسلامی جمہوریہ پاکستان شاہد دنیا کا واحد ترقی پذیر ملک ہے جو اپنی حسین جمہوریت کے پیروکار حکمرانوں اور سیاست دانوں کی مکمل بدنیتی سے عین اس وقت بڑی کرپشن کامنبع آئی پی پیز سے بجلی بنانے کی راہ پر ڈال دیا گیا، جب دنیا میں قومی زندگی کے تمام ہی امور میں بہتری لانے کے لئے انہیں بلواستہ با بلاواسطہ پانی کی وافر دستیابی اور کوالٹی سے جوڑنے کا بیانیہ ترقی پذیر دنیا میں بھی عام ہونے لگا۔ چین نے اپنے طویل YELLOW RIVER(دریائے زرد)کے کناروں پر ہر سال کی طغیانی سے دیہی علاقوں کی تباہی کو زور آور سیلابی پانی کی تیز تر واٹر مینجمنٹ کرکے بجلی بنانے اور آبپاشی کے لئے چھوٹےچھوٹے سینکڑوں ڈیم بنا دیے۔ دریا کے دونوںطویل کنارے فروٹ باسکٹس، ویجی ٹیبل بیلٹس اور خوشحال مکمل الیکٹری فائیڈ دیہی علاقوں میں تبدیل ہوگئے۔ اسی کی برکت سے چینی سیب، ناشپاتی، انگور، لہسن، ادرک اور کتنی ہی سستی چینی اشیائے خور و نوش کی شکل میں پاکستان بھی پہنچتی ہیں۔ جمہوریت کے حسن کے اسیر ہمارے سیاست دانوں نے دریائے سندھ کے پانی کی 50 سال قبل ہونے والی پاکستان کی سب سے بڑی واٹر مینجمنٹ (کالا باغ ڈیم) کو دریا برد کرکے، اسے گویاکفرانِ نعمت میں تبدیل کردیا۔ ثابت شدہ ریکارڈ کے مطابق بھارت نے ارب ہا روپے مستقل بنیاد پر خرچ کرکے جس طرح پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی سب سے بڑی راہ میں ’’قوم پرست‘‘ ڈریگنز کھڑے کئے ، پھر اپنے شیطانی سیاسی ابلاغ سے ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کو اسی طرح حرف ممنوعہ بنا دیا جس طرح یہودیوں نے ہولو کاسٹ پر ابلاغ عام کو۔ سیاسی مکاری یہاں ختم نہیں ہوئی کالا باغ ڈیم ہی نہیں، حسن جمہوریت کی اسیر حکومتوں سے لے کر نجات دہندہ آمرانہ حکومتوں تک نے ’’واٹر مینجمنٹ‘‘ کے خلاف مجرمانہ مزاحمت کی یا اس سے منہ موڑے رکھا۔ جبکہ ہمارے پاس واپڈا جیسا ملک گیر منظم اور ماہر ادارہ موجود تھا جو منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے بجلی پیدا کرنے اور توسیعِ کاشت کے عظیم منصوبوں کی کامیاب تکمیل اور انہیں جاری و ساری رکھنے کے طویل تجربے اور مہارت کا حامل تھا۔

ہمارے ملک کےنظامِ عدل و احتساب کا معیار اور سکت کیا اور کتنی ہے؟ اس پر تبصرے، تجزیے ہو ہی رہے ہیں لیکن اوسط درجے کے سیاسی شعور کے حامل پاکستانی کا یہ یقین پختہ ہے کہ گزرا عشرہ (18-2008) بحالی ’’جمہوریت‘‘ کے ساتھ ملکی تاریخ کا کرپٹ ترین عشرہ تھا جس کی جڑیں پاکستان جیسے آبی وسائل والے ملک میں ہائیڈل پاور کی مکمل بندش کے بعد کوٹ ادو پاور پلانٹ سے عوام دشمن آئی پی پیز کے کرپشن پر چلنے والے نظام کے قیام سے ڈالی گئیں۔ پھر جو لوٹ مار اور شیطانی آسودگیوں کی کمائی کا سلسلہ شروع ہوا وہ کہیں رکتا ہی نہیں تھا۔ آئی پی پیز کی اہمیت و حیثیت کو بڑھانے اور ناگزیر بنانے کے لئے ملک بھر کو لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں ڈبو دیا، کرپشن سے ہی اسے بحال کیا گیا۔ نندی پور پراجیکٹ کے ریکارڈ کی آتش زدگی اس کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

دیر آید درست آید، پچاس پچپن سال بعد ملک سیاسی ابلاغ اور دکھاوے کی گرائونڈ بریکنگ سے نہیں عملاً ہائیڈل پاور جنریشن اور ڈیمز میں پانی کے ذخائر سے نئے زیر کاشت رقبے بنانے کی انقلاب آفریں راہ پر آگیا ہے۔ میں اپنی ذاتی اور گہری دلچسپی کے باعث ’’واٹر مینجمنٹ‘‘ کی موجود صورتحال سے خود کو باخبر رکھتا ہوں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے مہمند ڈیم کے دورے کے موقع پر ملک میں ہائیڈل پاور کے منصوبوں کی جو تفصیلات بتائی ہیں اگرچہ ان کے نتائج قدرے دوررس 2028 سے نکلنا شروع ہوںگے لیکن یہ موجودہ جاری بحرانی کیفیت، سیاسی عدم استحکام اور گورننس کے گھمبیر مسائل میں اتنا بڑا اقدام خیر ہے کہ اس پر عمران حکومت کو سات خون معا ف کئے جا سکتے ہیں۔ خاکسار نے اپنے تئیں متعلقہ مصدقہ ذرائع سے جو معلومات حاصل کی ہیں ان کے مطابق پاکستان میں موجود کل ہائیڈل پاور پیداوار 9389میگا واٹ ہے اس کے دو بڑے ذریعے عشروں قبل بننے والے منگلا اور تربیلا ڈیم ہیں جبکہ موجودہ حکومت نے مہمند اور بھاشا دیامر دو بڑے ڈیموں پر جو عملی کام مکمل سنجیدگی سے شروع کیا ہے اس سے 2028میں پانی سے بننے والی بجلی کی یہ پیداوار دوگنی سے بھی زائد ہو جائے گی۔ مہمند ڈیم کی سپل وے، سڑکوں، ٹنلز، سٹاف کالونی سمیت آٹھ سائٹس پر کام ہو رہا ہے۔ پشاور شہر کو 300ملین گیلن پینے کا صاف پانی یومیہ ملے گا۔ ایک لاکھ 60 ہزار ایکڑ زرعی اراضی سیراب ہوگی۔ مہمند ڈیم 800 اور بھاشا ڈیم 4500 میگاواٹ سستی اور ماحول دوست بجلی پیدا کرے گا جس سے صنعت، زراعت اور روزگار پر براہ راست خوش کن اثرات ہوںگے۔ اس کا تعلق قومی اقتصادیات اور سیاسی استحکام سے براہ راست جڑا ہوا ہے۔ یاد رکھیے پانی “NEXT OIL” ہے۔ یہ ہماری جیو پولیٹیکل اور جیواکنامک پالیٹکس تک کو متاثر کرے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کا ہائیڈل پاور جنریشن کی طرف آ جانا اسٹیٹس کو پر ضرب کاری ہے۔


ڈاکٹر مجاہد منصوری
—————————-

https://jang.com.pk/news/929945?_ga=2.111192909.830850884.1621656770-1340233949.1621656769