کویت سے طارق اقبال کے پروگرام خلیج ٹائم میں طالب لاشاری کی خصوصی گفتگو

کویت میں مقیم پاکستان کے مشہور صحافی طارق اقبال نے اپنے ہفتہ وار پروگرام خلیج ٹائم میں اس مرتبہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل اور چیلنج کے موضوع پر خصوصی پروگرام کیا ۔اس خصوصی پروگرام میں پاکستان سے سندھ حکومت کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر طالب لاشاری ،سینئر صحافی سالک مجید اور ماری اسٹوپس سوسائٹی کی کنٹری ڈائریکٹر عاصمہ بلال نے اظہار خیال کیا ۔


روگرام کے میزبان طارق اقبال نے پاکستان میں آبادی کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کا احاطہ کیا اور اپنے مہمانوں سے موجودہ صورتحال اہم سوالات پوچھے اور ان کی تجاویز مانگی ۔


اس پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان سے سندھ حکومت کے ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر طالب لاشاری نے کہا کہ
اس وقت پاکستان دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچواں سب سے بڑا ملک بن چکا ہے تقریبا 22 کروڑ کی آبادی ہے سال 2017 میں جو مردم شماری ہوئی تھی اس کے مطابق 21 کروڑ کی آبادی تھی جو یقینی طور پر اب 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہےاس سے پہلے ہم دنیا میں چھٹے نمبر پر تھے اب زیادہ آبادی کے لحاظ سے ہم پانچویں نمبر پر آ چکے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت تیزی کے ساتھ ہماری آبادی بڑھ رہی ہے براعظم ایشیا کے جو دیگر ملک ہیں ان میں اندازہ ہے کہ اگلے ساٹھ سال میں آبادی ڈبل ہو جائے گی لیکن پاکستان کی جو آبادی ہے وہ اگلے تیس سال میں ڈبل ہو جائے گی پاکستان بہت تیزی سے اپنی آبادی میں اضافہ کر رہا ہے آبادی میں سالانہ اضافہ کی شرح 2.4 فیصد ہے ہر سو افراد میں دو سے تین افراد کا اضافہ ہو رہا ہے تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 22 کروڑ کے حساب سے کتنا اضافہ ہو رہا ہے پاکستان وہ ملک ہے جس نے 1950 میں اپنے یہاں فیملی پلاننگ کا پروگرام شروع کیا یعنی جیسے ہی ملک بنا چند سالوں بعد بھی یہاں پر فیملی پلاننگ کا پروگرام شروع کر دیاگیا جس کا مقصد آبادی میں توازن لانا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس پروگرام کو بیک برنر پر رکھ دیا گیا یا سمجھ لیجئے کہ اپنی ترجیحات میں سے نکال دیا گیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھنے لگی ۔انیس سو ستر کے بعد پاکستان میں جو حکومت رہی اس نے تو بالکل اس پروگرام پر پابندی لگا دی تھی انیس سو اٹھاسی اور انیس سو اکانوے میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم کی حیثیت سے اس پروگرام کو دوبارہ زندہ کرنے کا اعلان کیا اور انہوں نے ایک بہت بڑی فورس لیڈی ہیلتھ ورکرز ۔ایک لاکھ سے زیادہ بھرتی کر کے گاؤں جہاں تک یہ کام شروع کیا یہ لیڈی ہیلتھ ورکرز لوگوں کے گھروں میں جانے لگی اور گھروں میں بیٹھی خواتین کو فیملی پلاننگ کے طریقے سمجھانے اور بتانے لگیں۔ نوے کی دہائی میں ایک دوسرا طریقہ سوشل مارکیٹنگ کا تھا جس کے نتیجے میں آپ نے دیکھا کہ بہت سے پرائیویٹ سیکٹر نے کام کیا اور فیملی پلاننگ کے مختلف طریقہ کار مہیا کئے گئے نوے کی دہائی میں فیملی پلاننگ کے طریقے اختیار کرنے والے افراد کی تعداد 12 فیصد تھی یعنی سو میں سے 12 خواتین فیملی پلاننگ کے طریقے استعمال کرتی تھیں۔ اور جب لیڈی ہیلتھ ورکرز اور سوشل مارکیٹنگ نے کام کیا تو یہ سو میں سے بارہ عورتوں کی جگہ بڑھ کر 28 عورتیں ہوں گی 28 فیصد تک بڑھ گیا ۔سال 2000 کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا اور سال2000 بارہ تیرہ میں یہ تعداد 35 فیصد تک پہنچ گئی بعد میں اس میں کچھ کمی بھی نوٹ کی گئی اور سال 2012 میں جب لندن سمٹ ہوا اس میں وہ تمام ممالک شریک ہوئے جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ملینیم ڈویلپمنٹ گولز یہ ملک حاصل نہیں کر پا رہے وہاں پر ایسے دنیا کے 69 ملکوں کی لسٹ بنی تھی ان میں بدقسمتی سے پاکستان کا نام بھی شامل ہے ان ملکوں کے بارے میں یہ کہا گیا کہ یہ فیملی پلاننگ اور آبادی میں توازن کے اہداف حاصل نہیں کر پا رہے لہذا سال 2012 میں ان ملکوں کو لندن میں جمع کرکے وعدہ لیا گیا کہ آپ اپنے یہاں پاپولیشن میں توازن پیدا کریں اور اس کام کے لیے آپ کاسٹیڈ امپلیمنٹیشن پلان بنائیں تو اس سلسلے میں عالمی ادارے آپ کو مدد بھی کریں گے پاکستان میں اس دوران سال 2010 میں اٹھارہویں ترمیم ہو چکی تھی اور یہ صوبائی معاملہ بن چکا تھا پاکستان میں واحد سندھ حکومت تھی جس نے عالمی معاہدے کے مطابق اپنا پلان بنایا 2015 میں ۔اس سی آئی CIP ،پلان کو میں نے ڈیزائن کیا ڈاکٹر عذرا پیچوہو کی سربراہی میں ۔اور میڈم شہناز وزیر علی صاحبہ کی قیادت میں ۔جو سابق ایم این اے بھی ہیں اور وزیراعظم کے مشیر بھی رہ چکی ہیں اس طرح سندھ میں سی آئی پی بنا دو ہزار پندرہ میں ۔پھر صوبائی حکومت نے خود اس کی لانچنگ کی ۔اس میں ڈونر کا پیسہ براہِ راست تو نہیں آیا خود سندھ حکومت نے اس کو سپورٹ کیا اور 2015 سے اس پر عمل درآمد ہو رہا ہے اس پلان کے نتیجے میں ہر سال ایک فیصد اضافہ ہو رہا ہے ایسی عورتوں میں جو فیملی پلاننگ کے طریقے استعمال کر رہی ہیں ۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے صوبے میں پچھلے تین چار برسوں میں تین سے چار فیصد کا اضافہ کیا ہے ۔سال 2017 میں ہونے والی مردم شماری نے بتایا کہ صورتحال بہت الارمنگ ہے ملک میں بہت آبادی بڑھ چکی ہے اور آبادی میں اضافے کی رفتار قابو میں نہیں ہے اس پر پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے نوٹس لیا اور اس معاملے کی سماعت کی انہوں نے وفاقی اور تمام صوبائی حکومتوں کو بلایا انما تو میں میں بھی پیش ہوتا رہا پھر ایک ٹاسک فورس بنیں جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ نشاندہی کرے کہ کیا کیا اقدامات کرنے ضروری ہیں مجھے بھی ٹاسک فورس کا حصہ بنایا گیا ۔اس کے بعد کوآرڈینیشن کمیٹی اب نئی ہے جو پالیسی کا ایجنڈا لے کر بڑھ رہی ہیں ۔ایف پی 2020 جس پر ہم نےCIP سی ای پلان بنایا تھا وہ اب FP 2030 بن چکا ہے وہ اگلے دس سالوں کے لیے بنایا گیا ہے ۔ماضی میں آپ نے نعرہ سنا ہوگا دو بچے خوشحال گھرانہ ۔
اب یہ نعرہ تو تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب نیا نعرہ ہے کہ آبادی میں توازن ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل اور آبادی کی تعداد میں برابری پیدا کی جائے ۔
اس حوالے سے اب پاکستان میں آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نیا بیانیہ بنایا گیا ہے ۔وفاقی سطح پر جو ٹاسک فورس بنائی گئی ہے اسے وزیراعظم دیکھتے ہیں اور صوبوں میں جو ٹاسک فورس بنی ہے وہ وزیراعلی دیکھتے ہیں اب مقصد یہ ہے کہ ری پروڈکٹو ہیلتھ کے حوالے سے تمام ضروری سروسز سہولتیں معلومات لوگوں تک فراہم کی جائیں اس کو یقینی بنایا جائے لوگوں میں بھی یہ شعور بڑھایا جائے کہ جتنی آبادی بڑھے گی اتنے مسائل پیدا ہوں گے اور فوڈ سیکورٹی بھی مسئلہ بنے کی ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پہلے ہی خوراک کی کمی واقع ہو چکی ہے اور اگر ہماری آبادی میں اضافے کی شرح تیز رہی تو پھر آنے والے برسوں میں ہمارے یہاں گندم کی قلت پیدا ہوجائے گی اسی طرح پاکستان میں آنے والے برسوں میں بچوں کے لیے اسکول اور کالج کم پڑ جائیں گے پاکستان میں مریضوں کے لئے اسپتال کم پڑ جائیں گے پاکستان میں مریضوں کے لئے اسپتالوں میں بیڈ کم پڑ جائیں گے پاکستان میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی تعداد کم ہو جائے گی اس وقت اگر ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر اور نرس ہونی چاہیے تو وہ پھر بہت زیادہ لوگوں کے لئے مختص ہو جائے گی اور ہمیں کمی کا سامنا ہوگا اسی طرح ہمارا انوائرمنٹ بہت بری طرح سے متاثر ہوگا جنگلات ہم پہلے ہی کاٹ چکے ہیں لیکن جو باقی بچے ہیں وہ بھی ہم کاٹ لیں گے کنکریٹ کے جنگل بن چکے ہوں گے اور اس بے ہنگم آبادی سے انتہا پسندی بھی جنم لے گی انتہا پسندی ہماری سوسائٹی میں پہلے ہی بڑھ رہی ہے اور یہ انتہا پسندی بےروزگاری اور غربت کی وجہ سے آتی ہے مکانات کی کمی کی وجہ سے مسائل جنم لیتے ہیں ہمارے ملک میں غیر منصوبہ بندی کے ذریعے اربنائزیشن ہو رہی ہے لوگ شہروں کا رخ کر رہے ہیں سندھ میں ڈبل مسائل ہیں ایک تو آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے دوسرا اربنائزیشن ہو رہی ہے دیگر علاقوں سے لوگ سندھ آ رہے ہیں کراچی زبردست دباؤ میں ہے شہر دیہاتوں کو ہڑپ کرتے جا رہے ہیں زرعی زمینوں کو کھول کر وہاں پر ہاؤسنگ اسکیمیں اور انڈسٹری لگائی جارہی ہیں زرعی زمینوں کو ختم کر کے وہاں اینٹوں کے کارخانے لگائے جارہے ہیں آنے والے دنوں میں پانی کی شدید کمی کا مسئلہ بھی سر اٹھائے گا ۔کراچی میں اربنائزیشن اس طرح ہوئی ہے کہ 60 فیصد لوگ کچی آبادی میں رہے ہیں جہاں پر بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے
———-
Jeeveypakistan.com—-report
————
Whatsapp…………92-300-9253034