تحقیقاتی کمیشن نے پٹرولیم بحران کو خود ساختہ قرار دے دیا،


تحقیقاتی کمیشن نے پٹرولیم بحران کو خود ساختہ قرار دے دیا، سیکرٹری اورڈی جی( آئل) کے خلاف سخت ایکشن کی سفارش کی
پٹرولیم بحران 2020ء وزیراعظم کے احکامات ہوا میں اُڑا دیئے گئے

سیکرٹری پٹرولیم، وزیراعظم،
کابینہ سے بھی طاقتور بن گئے

تحقیقاتی کمیشن کی سفارشات ردی کی ٹوکری کی نظر ہوگئی

کمیشن نے ڈی، جی آئل شفیع آفریدی کی تقرری غیر قانونی قرار دی، ڈی۔ جی آئل کی غیر قانونی تقرری سیکرٹری پٹرولیم نے کی

وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد26 مارچ کو تین وزراء نے سیکرٹری پٹرولیم کو ہٹانے کا اعلان کیا، مگر کچھ نہ ہوا

وزیراعظم کے رائٹ ہینڈ نے سب سے پہلی تقرری اسد حیاء الدین کی کی، وہ اُن کے بعد واحد سیکرٹری ہیں جو کبھی تبدیل نہ ہوئے

وزیراعظم سیکرٹریٹ کی طاقتور لابی نے پہلے سیکرٹری پٹرولیم سے تین ماہ کی چھٹی کی درخواست دلوائی، پھر اسے خود ہی ڈمپ کردیا

ندیم بابر اور دوسرے لوگوں کو شفاف تحقیقات کیلئے ان کے عہدوں سے ہٹایا گیا، مگر نامزد سیکرٹری پٹرولیم کو ’’دوستوں‘‘ نے بچا لیا

ڈی جی آئل شفیع آفریدی نے یکم جون 2020ء کو اوگرا کو خط لکھا، جس میں جولائی میں پٹرول کی قیمتیں متوقع طور پر بڑھنے کا کہا

وفاقی وزیراطلاعات اور وزیر توانائی حماد اظہر کو سوالنامہ بھیجا گیا، وزیراطلاعات نے چیک کرنے کا کہا، مگر دونوں وزراء نے جواب نہ دیا

اسلام آباد(رپورٹ:؍ ناصر جمال) پٹرولیم بحران 2020ء کی رپورٹ پبلک کئے جانے اور کمیشن کی سفارشات کے باوجود بھی طاقتور لابی سیکرٹری پٹرولیم کو ان کے عہدے سے نہیں ہٹنے دے رہی۔ وزیراعظم، وفاقی کابینہ اور تین وزراء انھیں عہدے سے ہٹانے کا اعلان کرچکے ہیں۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھی ایک طاقتور لابی اپنی من مانی کررہی ہے۔ اُس نے سیکرٹری پٹرولیم سے تین ماہ کی چھٹی کی درخواست دلوائی اور اُسے بعد ازاں وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ’’ڈمپ‘‘ کردیا۔
شفاف انکوائری اور فرانزک رپورٹ کیلئے بحران میں مبینہ طور پر ملوث ان افراد کو عہدے چھوڑنے کیلئے کہا گیا جن کے خلاف پٹرولیم بحران کمیشن نے سخت ایکشن کی سفارشات کیں تھیں۔ ان میں سیکرٹری پٹرولیم سرفہرست ہیں۔ جبکہ بحران کے ایک اور بڑے کردار ڈی۔ جی (آئل) کی تقرری غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔ اس غیر قانونی تقرری کرنیوالے سیکرٹری پٹرولیم خود ہیں۔ جو ماضی میں وزیر اعظم کے اختیارات استعمال کرتے پائے گئے۔ مگر ان کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نہ ہوا۔ اُنھیں وزیراعظم سیکرٹریٹ کا لاڈلہ سیکرٹری مانا اور جانا جاتا ہے۔
اس ضمن میں وزیر اطلاعات و نشریات اور وزیر توانائی کو سوالنامہ بھجیا گیا۔ مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
معتبر ذرائع کے مطابق وزیراعظم پاکستان نے بھی طاقتور مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھی طاقتور اور مضبوط لابی نے پٹرولیم بحران2020ء میں ملوث مبینہ کرداروں کو مسلسل بچانے کی کوششیں کی ہیں۔ ایف۔ آئی۔ اے کی فرانزک رپورٹ اور خصوصی کمیٹی کی واضح سفارشات اور وزیراعظم کے حکم کے باوجود حکومت ان پر عملدرآمد کروانے میں ناکام نظر آتی ہے۔
26مارچ کو وزیر اعظم نے ندیم بابر، سیکرٹری پٹرولیم سمیت پٹرولیم بحران میں مبینہ کردار کے باعث ہٹانے کا حکم دیا۔ تین فیڈرل منسٹرز نے پریس کانفرنس کی۔ اسد عمر اس کے روح رواں تھے۔ جبکہ تین رکنی وزارتی کمیٹی نے پٹرولیم بحران کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد، وزیراعظم کو ایکشن تجویز کیا۔ اس وزارتی کمیٹی میں شیری مزاری، شفقت محمود اور اعظم سواتی شامل تھے۔
ندیم بابر چلے گئے، مگر اس کےبعد سیکرٹری پٹرولیم اسد حیاء الدین کو بچانے کیلئے ان کے طاقتور دوست متحرک ہوگئے۔ اسد حیاء الدین نے اپنا سامان تک اُٹھا لیا تھا۔ پھر اچانک ہی انہوں نے وزارت کی میٹنگز لینا شروع کر دیں۔ نہ صرف میٹنگز لینا شروع کردیں بلکہ انھوں نے اس (پٹرولیم بحران 2020ء) کے کرداروں کا تحفظ بھی شروع کردیا۔ انہوں نے ڈی۔ جی آئل (شفیع آفریدی) کو تحفظ دینا شروع کردیا۔ رپورٹ آنے اور وزیر اعظم کے احکامات کے باوجود انہوں نے انھیں آخری دم تک بچانے کی کوشش کی۔ شفیع آفریدی کی غیر قانونی تقرری کے حوالے سے اس نمائندہ کو 2020ء میں نشاندہی کا اعزاز حاصل ہے۔ جبکہ پٹرولیم بحران میں ان کے کردار اور ان کے خط کو بھی بے نقاب کیا۔ جو پٹرولیم بحران کی اصل وجہ بنا۔ جس میں محتاط اندازے کے مطابق مبینہ طورپر 25ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکال لئے گئے۔ شفیع آفریدی گریڈ19کے سیکرٹریٹ گروپ کے افسر تھے۔ انھیں اسد حیاء الدین نے وزیراعظم کی منظوری کے بغیر گریڈ 20میں ڈی۔ جی پروجیکٹ لگایا اور پھر انھیں ایکس کیڈر گریڈ بیس کی پوسٹ پر ڈی۔ جی(آئل) بھی لگا دیا۔
20اپریل2021ء کو پٹرولیم بحران کی جو کمیشن رپورٹ پبلک ہوئی ہے اس کی وفاقی کابینہ نے منظوری دی۔ اس میں جہاں پٹرولیم بحران کو مصنوعی قرار دیا گیا۔ وہیں پر ڈی۔ جی پٹرولیم کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ جبکہ سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی۔ پٹرولیم ڈویژن کے عمران ابڑو کے خلاف بھی کاروائی کی سفارش کی گئی۔ وہ انٹرااسٹیٹ کا ملازم ہے۔ ابھی تک اپنے عہدے پر ہے۔ ڈی۔ جی آئل غیر قانونی طور پر یہ کوٹہ مختص کرنے میں ملوث ہے۔ عمران ابڑو افسران بالا کے احکامات پر عملدرآمد کرتے رہے۔ جبکہ ڈی جی آئل نے یکم جون 2020ء کو اس وقت چیئرپرسن اوگرا کوKO. DOM-1(24) 2020یکم جولائی خط لکھا کہ ’’ اگلے ماہ پٹرولیم مصنوعات کی متوقع طورپر قیمتیں بڑھیں گی۔‘‘ جب وزیراعظم نے پٹرول کی قیمت مزید سات روپے کم کی اور قیمت 74.52 روپے پر آگئی۔
ڈی جی آئل شفیع آفریدی کے خط کے بعد وسیع پیمانے پرذخیرہ اندوزی ہوئی۔ اس کے باوجود وہ تقریباً گیارہ ماہ اپنے عہدے پر موجود رہے۔9جون 2020ء کو اوگرا نے 6او۔ ایم۔ سیز پر 40ملین کا جرمانہ عائد کردیا۔ سیکرٹری پٹرولیم نے اُسی ڈی۔ جی(آئل) کی نگرانی میں 8جون کو تحقیقاتی کمیٹی بنا دی۔ عمران ابڑو کو کیمٹی کا سیکرٹری بنا دیا۔ جبکہ ذخیرہ اندوزوں کے سامنے حکومت بے بس ہوگئی اور اس نے ملکی تاریخ کا پٹرول کی قیمتوں میں سب سے بڑا اضافہ 25.58روپے بڑھانے کا اعلان کیا تو تمام سٹاک پٹرولیم مارکیٹ میں آگیا۔ پٹرولیم کمیشن کی سفارشات کسی سرد خانے میں پڑی رہیں۔ پھر کابینہ میں آئیں۔ پھر ادھُورا ایکشن ہوا۔ اب جبکہ رپورٹ پبلک بھی ہوگئی ہے۔ پھر بھی سیکرٹری پٹرولیم، مکمل کروفر اوراتھارٹی کے ساتھ عہدے پر موجود ہیں۔ جو کہ انتہائی حیرت انگیز اور مفادات کا ٹکرائو ہے۔ قانونی حلقے اسے ریگولیٹری کیپچر کی بدترین مثال قرار دیتے ہیں۔
سیکرٹری پٹرولیم، ملک کے طاقتور ترین بیورو کریٹ کے یارغار ہیں۔ جو کہ وزیر اعظم کے رائٹ ہینڈ بھی ہیں۔ انہوں نے اسد حیاء الدین کو ڈی۔ نوٹیفائیڈ کروانے کی بجائے، ان سے تین ماہ کی چھٹی کی درخواست دلوا دی۔ منصوبہ تھا کہ انھیں باہر بھجوا کر، کسی کو ایکٹنگ چارج دے دیا جائے اور واپس چند ہفتوں کے بعدانھیں جوائن کروالیا جائے۔ پھر یہ تکلف بھی ختم کردیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ڈاکخانے کا کردار ادا کرتے ہوئے۔ ان کی چھٹی کی درخواست کو وزیراعظم سیکرٹریٹ بھجوا کر بھنگ کا پیالہ چڑھا لیا۔ جبکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھے سیکرٹری پٹرولیم کے یاروں نے اس درخواست کو ’’ڈمپ‘‘ کردیا۔
وزیراعظم بھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس طاقتور مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک گئے ہیں۔ اور سیکرٹری پٹرولیم ’’شفاف تحقیقات‘‘ کے لوازمات پورے کرنے کے لئے وزارت میں موجود ہیں۔ تاکہ اپنے خلاف ہونے والی مزید تحقیقات میں ’’مزید تعاون‘‘ کریں۔
پاکستان سالانہ تقریباًساڑھے 14ارب ڈالر پٹرولیم مصنوعات پر خرچ کرتا ہے۔(FY-2019-20)اس کا امپورٹ بل ساڑھے دس ارب ڈالر ہے۔
سیکرٹری پٹرولیم 26مارچ سے وزیراعظم کے حکم کے باوجود اپنے عہدے پر براجمان ہیں۔ جبکہ 20اپریل 2021ء کو پٹرولیم بحران رپورٹ پبلک کردی گئی۔ مگر سیکرٹری پٹرولیم کو تمام لوگ اور ادارے ویسے ہی جوابدہ ہیں۔ جیسے پہلے جوابدہ تھے۔ پٹرولیم انڈسٹری، پارلیمنٹ کے نمائندے اور پی۔ اے۔ سی کے لوگ اس کے باوجود سیکرٹری پٹرولیم کے عہدے پر موجودگی پر حیران ہیں۔
اور یہاں یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ ڈاکٹر شفیع آفریدی ، سیکرٹریٹ گروپ کے گریڈ 19کے افسر تھے۔ انھیں سیکرٹری ڈیپوٹیشن پر گریڈ 20میں بطور ڈی۔ جی۔ پروجیکٹ لے کر آئے۔(ذرائع کا دعویٰ ہےکہ اس کی وزیراعظم سے منظوری نہیں لی گئی) جبکہ انھیں غیر قانونی طور پر ایکس کیڈر پوسٹ پر ڈی۔ جی آئل لگا دیا گیا۔ انھیں پٹرولیم سیکٹر کا ککھ پتا نہیں تھا۔ یہ بھی وزیر اعظم کا اختیار تھا۔ سیکرٹری اس سے قبل بھی گریڈ 20کے چارج وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر دے چکے ہیں۔ جن میں عمران نامی شخص ڈی۔ جی (پی۔ سی) لگا دیا گیا۔ پھر خاتون جوائنٹ سیکرٹری کو ڈی۔ جی۔ پی۔ سی کا چارج دیا۔ جو کہ مکمل طورپر غیر قانونی تھا۔ انھوں نے ایک اور گریڈ 19کے افسر کو ڈی جی منرل لگا دیا۔ اس میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ سب ایک ایسے شخص (اسد حیاء الدین سیکرٹری پٹرولیم) نے کیا ہے جو ایڈیشنل سیکرٹری انچارج اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھی رہ چکے ہیں۔