قاضی حسین احمد مرحوم ؒ

سابق امیر جماعت سلامی پاکستان قاضی حسین احمد ؒنے اتحاد امت کے لیے اور مظلوم مسلمانوں پر ظلم کے خلاف جرأت مندانہ آواز بلند کی ۔ درد ِ مشترک اور قدرِ مشترک ہی امت کے لیے ناگزیر عمل ہے ۔قاضی صاحب مرحوم نے انتھک جدوجہد سے قومی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ آج کے دور میں قاضی حسین احمد جیسے جرأت مند ، علامہ اقبال اور مولانا مودودی کی فکر کی پیکر قیاد ت کی ضرورت ہے ۔ قاضی حسین احمدؒ کشمیر ، فلسطین ، روہنگیا ، بوسنیا سمیت عالم جہاں میں مسلمانوں پر ظلم و بربریت پر مظلوموں کی آواز بن کر میدان عمل میں اترتے اور نہ صرف مسلم حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے بلکہ اقوا م عالم کوبھی للکارتے ۔ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر 1989 ء کو پہلی مرتبہ ریاستی سطح پر پاکستان میں منایا گیا یہ قاضی حسین احمد کی کشمیری عوام کی لازوال جدوجہد ، انہیں حق خود ارادیت دلانے کی ایسی کوشش تھی جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور آج مقبوضہ کشمیر میں ناجائز بھارتی تسلط ، قبضہ اور عوام پر ظلم و بر بریت کے خلاف پوری دنیا میںمظلوم کشمیری عوام سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کے لیے آواز بلند کرتی ہیں ۔ 
قاضی حسین احمد ظلم کے خلاف اور مظلوم کے ساتھ ہمیشہ کھڑے پائے گئے ۔ پاکستان کے عوام ان سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے تھے ۔’’ ہم بیٹے کس کے قاضی کے ‘‘یہ نوجوانوں کا مقبول عام اور ولولہ انگیز جذبہ اظہار تھا ۔ قاضی صاحب مرحوم ایک ایسی کرشماتی شخصیت کے مالک تھے کہ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا طبقہ ان کی طرف کھنچا چلا آتاتھا ۔ نظریاتی اعتبار سے ان سے مخالفت رکھنے والے بھی انہیں اپنے درمیان پاکر ایسا محبت و احترام والا سلوک کرتے کہ اس پر رشک آتاہے ۔ 
قاضی حسین احمد نے ہمیشہ اپنی ایک ہی شناخت پر فخرواصرار کیا کہ ان کی حضوراکرم ﷺ کے امتی کی حیثیت سے شناخت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نبی اکرم ﷺ کے امتیوں کے اتحاد کی سعی کی۔ تمام مکتبہ ہائے فکر کی اہم پارٹیوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل(MMA) آپ کے خوابوں کی تعبیر تھا۔ کسی منصب یا عہدے کی خواہش نہ رکھنے کے باوجود مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد آپ کو اتفاق رائے سے اس کا صدر چن لیاگیا۔ اس سے پہلے شیعہ ،سنی اختلافات کی بنیاد پر بھڑکائی جانے والی آگ پر قابو پانے کے لیے آپ کی کوششوں سے ملی یکجہتی کونسل کا قیام عمل میں آیا، آپ اس کے روحِ رواں تھے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام بھی آپ کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا۔80کے عشرے میں متحدہ شریعت محاذ وجود میں آیا تو آپ اس کے سیکرٹری جنرل تھے کراچی میں لسانی تعصبات کے شعلے بلند ہوئے تو آپ نے پشاور سے ’’کاروانِ دعوت ومحبت ‘‘لے کر پورے ملک کا دورہ کیا اور کراچی پہنچے اور پورے ملک کو محبت ووحدت کاپیغام دیتے ہوئے واپس پشاور آئے۔تحریک نظام مصطفٰی ؐمیں امت متحد ہوئی تو آپ نے صوبہ سرحد کا  محاذ سنبھالا اور پسِ دیوار زنداں بھی رہے۔
اتحاد امت کی ان کی کوششوں کا دائرہ پاکستان تک ہی محدودنہیںتھابلکہ قاضی صاحب نے یہ پیغام دنیا بھر میں عام کیا۔ سوویت یونین سے برسرِ پیکار افغان مجاہدین کے درمیان اختلافات افغان تاریخ کا سب سے افسوس ناک حصہ ہیں ۔ قاضی حسین احمدصاحب نے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوںکے قائدین اور علماء و مفکرین کو ساتھ ملا کر ان اختلافات کو پاٹنے کی مسلسل کوشش کی۔ لیکن بدقسمتی سے صلح کا ہر معاہدہ بیرونی سازشوں اور اندرونی بے اعتمادی کی نذر ہوگیا۔قاضی حسین احمد نے اتحاد و وحدت کی یہی کاوشیں کشمیر میں بھی جاری رکھیں۔ ان کی کوششوں سے کشمیر میںمجاہدین کے درمیان پھیلائی جانے والی کئی غلط فہمیوں اور اختلافات پربروقت قابو پالیاگیا۔
سوڈان میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر حسن ترابی اور صدر مملکت جنرل عمر حسن البشیر کے درمیان اختلافات علیحدگی کی صورت اختیار کرنے لگے تو فریقین نے قاضی صاحب کو حکم تسلیم کیا۔ ایک بار صلح کا معاہدہ عمل میں بھی آگیا لیکن عالمی و علاقائی سازشوں کی نذر ہوگیا۔ اس کے باوجود قاضی صاحب کے مسلسل رابطے کے باعث اختلافات کو تصادم میںبدلنے کی کئی سازشیں ناکام ہوئیں۔عراق کویت جنگ ہو یا مسئلہ کشمیر ، فلسطین، بوسنیا اور کوسوو میں مسلم کشی ہویا چیچنیا میں قتل عام، برما کے خون آشام حالات ہوں یا اریٹیریا کے غریب عوام کے مصائب، قاضی حسین احمد نے پورے عالم میں امت کی توانائیوں کو یکجا کرنے کی جدوجہد کرتے ہوئے ہمیشہ امت کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش کی۔ 
٭…٭…٭