اقوامِ متحدہ دنیا کا سب سے بڑا بین الاقوامی ادارہ ہے
جو عالمی امن، معاشی ترقی، انسانی حقوق اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ اسی مقصد کے تحت 2015 میں اقوامِ متحدہ نے پائیدار ترقی کے اہداف یعنی Sustainable Development Goals (SDGs) کا تاریخی پروگرام متعارف کرایا۔ یہ پروگرام 2030 تک دنیا کو زیادہ پرامن، منصفانہ، صحت مند اور خوشحال بنانے کے لیے ایک عالمی منصوبۂ عمل ہے۔ ایس ڈی جیز صرف حکومتی پالیسیوں تک محدود نہیں بلکہ سماج، کاروباری اداروں، تعلیمی تنظیموں اور انفرادی سطح پر بھی راہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
یہ اہداف مجموعی طور پر 17 مقاصد اور 169 ذیلی اہداف پر مشتمل ہیں، جو انسانی زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان میں غربت کے خاتمے سے لے کر معیاری تعلیم، موسمیاتی تبدیلی، پائیدار شہروں، صنفی مساوات، صاف پانی اور عالمی شراکت داری جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔
ایس ڈی جیز کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
دنیا تیز رفتار تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ ماحولیاتی بحران، بڑھتی ہوئی غربت، معاشی ناہمواری، آلودگی، موسمیاتی خطرات، بے روزگاری اور صحت کے مسائل نے عالمی معاشرے کو مسلسل چینلج کیا ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کا خیال تھا کہ اگر دنیا متحد ہو کر مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے کام کرے تو یہ مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔
اس سے قبل 2000 میں ’’ملینیم ڈویلپمنٹ گولز‘‘ (MDGs) کا آغاز کیا گیا تھا، جس نے کئی شعبوں میں پیش رفت دکھائی، لیکن وہ محدود اہداف تھے۔ تجربے کی بنیاد پر 2015 میں زیادہ جامع، عالمی اور زمینی حقائق پر مبنی 17 اہداف ترتیب دیے گئے جنہیں ایس ڈی جیز کا نام دیا گیا۔
ایس ڈی جیز کے 17 بنیادی اہداف
1. غربت کا خاتمہ
دنیا بھر میں غربت سب سے بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ ایس ڈی جیز کا پہلا مقصد انتہائی غربت کے خاتمے، سماجی تحفظ کے نظام کے قیام اور کمزور طبقات کو مالی معاونت فراہم کرنا ہے۔
2. بھوک کا خاتمہ اور غذائی تحفظ
اس ہدف کا مقصد دنیا کو بھوک سے پاک بنانا، غذائیت سے بھرپور خوراک کی فراہمی اور پائیدار زرعی نظام کو فروغ دینا ہے۔
3. صحت اور فلاح و بہبود
صاف ماحول، بہتر غذائیت، حفظانِ صحت، ویکسینیشن اور صحت سہولیات تک آسان رسائی اس مقصد کا اہم حصہ ہیں۔
4. معیاری تعلیم
تعلیم انسانی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔ یہ ہدف سب کے لیے یکساں، باکیفیت اور سستی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔
5. صنفی مساوات
خواتین اور مردوں کے مساوی حقوق، بااختیار بنانے اور ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا عزم اس مقصد سے وابستہ ہے۔
6. صاف پانی اور صفائی ستھرائی
صاف پانی زندگی کی بنیاد ہے، جبکہ صفائی ستھرائی بیماریوں سے بچاؤ کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس مقصد کے ذریعے پانی کے بہتر انتظام اور آلودگی کے خاتمے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
7. سستی اور صاف توانائی
توانائی ہر ترقی کی بنیاد ہے۔ اس ہدف میں سستی، قابلِ تجدید اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع کو فروغ دینا شامل ہے۔
8. باعزت روزگار اور معاشی ترقی
مضبوط معیشت، روزگار کے مواقع اور مزدوروں کے حقوق کا تحفظ اس مقصد کا حصہ ہیں۔
9. صنعتی ترقی، اختراع اور بنیادی ڈھانچہ
ٹیکنالوجی، جدید صنعتیں، تحقیق اور مضبوط انفراسٹرکچر پائیدار ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
10. عدم مساوات میں کمی
معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر مساوات کا فروغ اس ہدف کی بنیادی روح ہے۔
11. پائیدار شہروں اور کمیونٹیز کا قیام
بڑھتی ہوئی آبادی نے شہروں پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اس مقصد کا تعلق رہائشی سہولیات، ٹرانسپورٹ، فضائی معیار اور شہری منصوبہ بندی سے ہے۔
12. پائیدار کھپت اور پیداوار
بے جا استعمال، فضلے کے اضافے اور قدرتی وسائل کے زیاں کو روکنا اس ہدف کا اہم حصہ ہے۔
13. موسمیاتی تبدیلی کے خلاف کارروائی
دنیا کو درپیش سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ اس کے اثرات کم کرنے اور ماحول کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔
14. سمندری وسائل کا تحفظ
سمندری آلودگی، بے تحاشا ماہی گیری اور مرجان کی تباہی سے جڑی مشکلات کے حل کے لیے یہ مقصد ترتیب دیا گیا ہے۔
15. زمینی ماحولیاتی نظام کا تحفظ
جنگلات کی کٹائی، حیاتیاتی تنوع میں کمی اور جانوروں کے مسکن کی تباہی روئے زمین کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ یہاں ان مسائل کے حل پر کام کیا جاتا ہے۔
16. امن، انصاف اور مضبوط ادارے
شفاف قانونی نظام، انصاف کی فراہمی اور بدعنوانی کا خاتمہ اس مقصد کی نمایاں ترجیحات ہیں۔
17. شراکت داری برائے ترقی

ان تمام اہداف کے حصول کے لیے عالمی تعاون، ٹیکنالوجی کا تبادلہ اور مالی وسائل کی فراہمی ضروری ہے۔
ایس ڈی جیز کی کامیابی کیوں ضروری ہے؟
دنیا کی بقا اور آنے والی نسلوں کا مستقبل انہی اہداف کی کامیابی سے وابستہ ہے۔ اگر یہ اہداف پورے کیے جائیں تو:
معاشی ناہمواری کم ہوگی
صحت اور تعلیم بہتر ہوگی
ماحولیاتی آلودگی میں کمی آئے گی
موسمیاتی بحران کا مقابلہ ممکن ہوگا
غربت اور بھوک میں نمایاں کمی آئے گی
عالمی امن اور بین الاقوامی تعاون میں اضافہ ہوگا
اس کے برعکس اگر انہیں نظرانداز کیا جائے تو دنیا مزید مشکلات، جنگوں، غربت اور ماحولیاتی تباہی کا شکار ہوسکتی ہے۔
پاکستان اور ایس ڈی جیز
پاکستان اقوامِ متحدہ کے بانی رکن ممالک میں سے ایک ہے اور اس نے ایس ڈی جیز کو قومی ترقیاتی ایجنڈا کے طور پر اختیار کیا ہے۔ حکومت نے پلاننگ کمیشن میں SDG یونٹ قائم کیا ہے، صوبائی سطح پر بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ تاہم:
آبادی کا تیز رفتار اضافہ

مالی مسائل
کمزور گورننس
موسمیاتی خطرات
سیلاب اور خشک سالی
جیسے چیلنجز پاکستان کی پیش رفت میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود تعلیم، صحت، قابلِ تجدید توانائی اور خواتین کے بااختیار ہونے کے شعبوں میں اچھی پیشرفت بھی دیکھنے میں آئی ہے۔
ایس ڈی جیز کا مستقبل — ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
حقیقت یہ ہے کہ ان اہداف کو صرف حکومتیں نہیں بلکہ ہر ادارہ اور ہر فرد مل کر ہی حاصل کرسکتا ہے۔ ہمیں درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
وسائل کے منصفانہ استعمال کو فروغ
ماحول دوست طرزِ زندگی اختیار کرنا
تعلیم خصوصاً خواتین کی تعلیم پر توجہ
شجرکاری اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کردار
غربت اور بھوک کے خاتمے کے لیے سماجی تعاون
تحقیق، ٹیکنالوجی اور اختراع کی حوصلہ افزائی
قانون کی پاسداری اور شفافیت کو یقینی بنانا
اگر دنیا اجتماعی طور پر کام کرے تو 2030 کا خواب حقیقت بن سکتا ہے۔
نتیجہ
اقوامِ متحدہ کا ایس ڈی جیز پروگرام انسانی تاریخ کا ایک غیر معمولی منصوبہ ہے جس نے دنیا کو ایک مشترکہ وژن، ایک مثبت سمت اور ایک بہتر مستقبل کی امید دی ہے۔ یہ نہ صرف سرحدوں سے بالاتر سوچ ہے بلکہ انسانیت کے مشترکہ مسائل کا حل بھی ہے۔
اگر ہم بحیثیت فرد، معاشرہ اور ریاست ان اہداف کے حصول کی کوشش کریں تو ہم نہ صرف اپنی نسلوں کے لیے بہتر مستقبل یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ دنیا کو امن، خوشحالی اور ترقی کی راہ پر بھی گامزن کرسکتے ہیں























