اب کیا ہو گا ؟

مارگلہ کے دامن میں بہار اتر آئی ہے۔ بے باک تو ابھی کوئی نہیں لیکن تیور لشکروں کے کڑے ہیں۔ دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔ گنبد نیلوفری رنگ بدلتاہے کیا۔ ساری کشتیاں بھنور میں ہیں۔پاکستان جمہوری تحریک یعنی پی ڈی ایم کا انتشار سب دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف کا حال بھی پتلا ہے۔ وزیرِ اعظم کئی محاذوں پر الجھ گئے ہیں۔ ترجیحات کا تعین کرنے میں انہیں دشواریوں کا سامنا ہے۔ خاکسار کے خیال میں اس کے کچھ بنیادی اسباب ہیں۔ پہلا تو وہی کہ ذہنی ریاضت کے عادی نہیں۔ ثانیاً اپنی ذات کے گرداب میں گھرے ہیں۔ثالثاًپارٹی منظم ہے اور نہ پوری طرح ان کی وفادار۔ اندازہ ہے کہ کم از کم تیس پینتیس ارکان،بعض وزرا بھی جن میں شامل ہیں، حتیٰ کہ بعض وزرا بھی وفادار نہیں۔ جتلاتے ہیں مگر نہیں ہیں۔ بعض تو شیخ رشید کا نام بھی لیتے ہیں۔ خلافِ ’’شرع‘‘ کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں وزارتِ داخلہ ان کی ہے؛چنانچہ جہانگیر ترین کے خلاف شمشیر بکف ایف آئی اے ان کی ماتحت۔ ’’شوگر مافیا‘‘کے مخالف ہونے باوجود آپ مگر جہانگیر خان کے باب میں خاموش ہیں۔ آصف علی زرداری، میاں محمد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی آل اولاد پہ تو خان صاحب ظاہر ہے، برہم ہیں۔اطلاعات اب یہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندازِ فکر پہ بھی اب وہ شاد نہیں۔ کچھ دیر پہلے کی اطلاع یہ ہے کہ شیخ رشید کی وزارت تبدیل ہونے کا امکان بھی ہے۔شیخ صاحب لہٰذا محتاط ہیں۔ اشارے کنائے میں وزیرِ اعظم کے اندازِ فکر سے اختلاف کرتے ہیں۔ ایک جملہ مگر بڑھا دیتے ہیں ’’میں خان صاحب کی کابینہ میں شامل ہوں‘‘ یا کبھی یہ ’’میں خان صاحب کی پالیسیوں کا پابند ہوں‘‘ جہانگیر ترین اور ان کے صاحبزادے علی ترین نے دس اپریل تک ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔ کل شب ان کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ ایف آئی اے نے ملزموں کی صف میں ان کی صاحبزادیوں کو بھی شامل کر لیا ہے۔ سینیٹ الیکشن کے اس مرحلے میں، جب یوسف رضا گیلانی رکنیت کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کے پرجوش حامی، حتیٰ کہ بعض اخبار نویس بھی چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ جہانگیر خان کپتان کی مدد کے لیے میدان میں اتر آئے ہیں۔ وزیرِ اعظم کے قریبی حلقے اب مگر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کے سابق ہم نفس نے الٹا گیلانی کی مدد کی۔ اب تک جو جرائم جہانگیر ترین سے منسوب کیے گئے، ا ن میں ایک غیر محتاط جملہ ہے، ایک مشاورت کے ہنگام جو شاید ان کے منہ سے نکل گیا۔ تفصیل آداب کے خلاف ہے۔ یہ مگر یقین سے کہا جا سکتاہے کہ بدنیتی کا عنصر اس میں کارفرما نہیں تھا مگر بے تکلفی۔ اس لیے کہ باہمی اعتماد بہت تھا۔ تعلقات کی ایسی کیفیت میں ظاہر ہے کہ تکلف سے کام نہیں لیا جاتا۔ خوب یاد ہے کہ جہانگیر ترین پہ خان صاحب کس قدر مہربان تھے۔ کسی سے بہت متاثر ہوں تو اسے Specialآدمی کہتے ہیں۔ جہانگیر خان کے لیے اکثر کہا کرتے۔ بنی گالہ اور ایوانِ وزیرِ اعلیٰ میں جن کی آمدرفت ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ معاملہ بہت سنگین ہے۔ خان صاحب کو یقین ہے کہ شہبا ز شریف سے ان کے سابق دوست کا رابطہ قائم ہے۔ شہباز شریف کا سرپرستوں سے۔ حمزہ کی ضمانت تو بہت پہلے ہی ہو چکی۔ عدالت چاہے تو شہباز شریف کو بھی رہا کردے۔بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ محکمہ زراعت سے شہباز شریف کا مکالمہ جاری ہے، خواہ فوری نتائج اس کے برآمد نہ ہوں لیکن اگر یہ درست ہے تو وزیرِ اعظم کے لیے یہ بجائے خود پریشانی کا باعث ہے۔پریشانی موزوں لفظ نہیں، برہمی کا سبب۔ناراض وہ پہلے سے ہیں۔ محکمہ زراعت اور جہانگیر ترین دونوں سے۔وہی یوسف رضا گیلانی کی کامیابی۔اہلِ دربار سے رہ و رسم رکھنے والے بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنے مخصوص بلند آہنگ انداز میں خان اعظم سے شیخ صاحب نے کہا تھا:سابق وزیرِ خزانہ حفیظ شیخ سہولت سے جیت جائیں گے۔ حفیظ شیخ کی داستان اور بھی دلچسپ ہے۔ جن اخبار نویسوں کے اینٹینا بہت بلند ہیں، جن کی سماعت سرگوشیاں سن سکتی ہے، کئی ایک ان میں سے یہ کہتے ہیں کہ کپتان ناراض حفیظ شیخ سے نہیں تھے بلکہ ان سے کہ جنہوں نے ماہرِ معیشت کو وزارتِ خزانہ سونپنے کا مشورہ دیا تھا۔ شاید اسی لیے اس طرح انہیں برطرف کیا گیا، جیسے شہنشاہ اکبر نے اپنے اتالیق کو حج پہ روانہ کر دیا تھا۔ جیسے ظہیر الدین بابر نے اپنے پسندیدہ نجومی شریف کو کنواہ کی جنگ کے بعد کابل بھیج دیا تھا۔ عظیم نثر نگار اور مورخ ہیرلڈلیم بابر کو بادشاہوں کا بادشاہ کہتا ہے۔Prince of all princesصداقت شعار، اپنے رفقا پہ ہمیشہ مہربان، حتیٰ کہ ان کی گستاخیوں کو نظر انداز کرنے والا۔ معلوم تاریخ کے عظیم ترین فاتحین میں سے ایک۔ اپنے آپ پہ جو ہنس سکتا تھا۔ بے تکلف اپنی حماقتوں کا ذکر اپنی خودنوشت میں کرتا ہے بلکہ ان خطاؤں کا بھی، جنہیں اہلِ تقویٰ بھی چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مزاج کا معاملہ ہے۔ آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے۔ افغانستان کے سابق وزیرِ اعظم گلبدین حکمت یار سے 1980ء میں ملاقات ہوئی۔ اب تک اسی خوش دلی سے برقرار ہے۔ خان صاحب سے 1996ء میں۔1990ء میں ایک بار گلبدین نے ازراہِ کرم یہ کہا:وہ راز بھی تمہیں بتا دیے ہیں، جو کبھی کسی سے کہے نہ تھے۔ سپردم بہ تُو مایۂ خویش را توُدانی حسابِ کم و بیش را خان صاحب تو خیر کچھ چھپا ہی نہیں سکتے۔ سلطان محمد فاتح سے پوچھا گیا ’’آپ کی خیرہ کن کامیابیوں کا راز کیا ہے؟‘‘ جواب ملا: میری داڑھی کے بالوں کو بھی معلوم ہوجائے کہ میں کیا چاہتا ہوں تو قصوروار ہوں گا۔ سلطان مسلم تاریخ کے معزز ترین فاتحین میں سے ایک ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے قسطنطنیہ فتح کرنے والے پورے لشکر کو بہشتِ بریں کی نوید دی تھی۔ سرکارﷺ کا فرمان یہ ہے: رازداری سے کام لیا کرو۔خان ظفرمند رہا مگر کمزوریاں بھی کمال۔ اپنی فضیلت کا گمان مستقل سر پہ سوار۔موزوں مشاورت میسر ہو نہیں سکتی۔ مصاحب کوظلِ الٰہی کا مزاج ملحوظ رکھنا ہوتاہے۔ رفتہ رفتہ ایک دلدل۔ فقط حکمران ہی نہیں، کبھی کبھی تو پورے لشکر ہی ڈوب جاتے ہیں۔ محمود غزنوی کے جانشین اور بھائی مسعود غزنوی کی طرح۔ مامون الرشید کے سوتیلے برادر امین کی طرح۔ امین زبیدہ کا لاڈلا فرزند، نجیب الطرفین، جودو سخا کا خوگر اور ذہین و فطین مگر ہمارے کپتان کی طرح اپنی فضیلت کے خمار میں گم۔مامون الرشید کو تو ورنہ خراسان کا چھوٹا سا خطہ ہی ملا تھا۔وہ بھی گوارا نہ ہوا۔ اسی خمار میں جان دے دی۔اسی خمار میں بھٹو نے جان دی سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا مستند ہے میرا فرمایا ہوا یوں بھی اقتدار کے مزاج میں ارتکاز ہوتاہے۔ ایک گدڑی میں دو فقیر سو سکتے ہیں، دو بادشاہ ایک محل میں نہیں۔ ظہیر کاشمیری کا مصرعہ یہ ہے: موسم بدلا، رت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے۔ مارگلہ کے دامن میں بہار اتر آئی ہے۔ بے باک تو ابھی کوئی نہیں لیکن تیور لشکروں کے کڑے ہیں۔ دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا۔ گنبد نیلوفری رنگ بدلتاہے کیا۔

Courtesy Roznama 92