ایک ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں کئی طرح کے تعلیمی نظام لاگو ہیں جن سے طبقاتی سوچ پروان چڑھی


کراچی: ایک ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں کئی طرح کے تعلیمی نظام لاگو ہیں جن سے طبقاتی سوچ پروان چڑھی۔یکساں تعلیم نظام اور یکساں نصاب کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حال ہی میں حکومت نے واحد قومی نصاب نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ حوصلہ افزا ہے۔ تاہم اس اقدام کے حوالے سے تعلیمی ماہرین مختلف خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ اس موضوع کو تفصیل سے سمجھنے اور حکومت کو بہتر و مفصل تجاویز و آراء پیش کرنے کے لیے ہمدرد فائونڈیشن کی جانب سے مورخہ9 اکتوبر کو ہمدرد کارپوریٹ ہیڈ آفس میں شوریٰ ہمدرد کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہر تعلیم اور اراکین شوریٰ نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔

مہمان مقرر ، ممتاز ماہر تعلیم محترمہ نرگس علوی نے کہا واحد قومی نصاب میں پہلے تو یہ طے ہونا چاہیے کہ کس زبان میں تعلیم دی جائے گی۔ کیونکہ اردو سے بچہ جلد سمجھ جائے گا لیکن انگریزی کی بھی اپنی افادیت ہے اور پوری دنیا میں انگریزی کو پرائمری سے پڑھایا جارہا ہے۔اس لئے تعلیم تو اردو زبان میں دینی چاہیے اور انگریزی کو پہلی جماعت سے پڑھایا جانا چاہیے۔ سماج میں طبقاتی فرق کو کم سے کم کرنے کے لیے بھی ایک قومی نصاب ہونا چاہیے ۔لیکن بڑے پرائیوٹ اسکولز تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کیمبرج سسٹم ویسے ہی رہے گا اور حکومت اُن کی بات مان چکی ہے ۔ پھر جو طالب علم آغا خان بورڈ کے تحت تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ تو دیگر بچوں کے مقابلے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ حالانکہ آغا خان بورڈ تو حکومت کا نافذ نصاب ہی پڑھارہا ہے لیکن چونکہ اساتذہ اچھے ہیں اور بچوں کو سہولیات بھی میسرآتی ہیں۔ ایسا ماحول ملتا ہے جو سیکھنے سوچنے سمجھنے کو جلابخشتا ہے ۔ اس لیے صرف نصاب ہی نہیں بلکہ تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اصل مسئلہ گلی کوچوں میں کھلے پرائیوٹ اسکولز اور مدارس کے طالب علموں کا ہے کیونکہ انہیں اچھی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ ان اسکولوں میں اساتذہ کا معیار نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ماحول بنانے پر توجہ دی جاتی ہے جس سے بچے سیکھیں اور مفید شہری بنیں۔ چناچہ یہ ضروری ہے کہ اساتذہ کی تربیت ہو، پھر اُن کی مانیٹرنگ ہواور اُنہیں پرکھا جائے۔ اگر کوئی کمی بیشی ہو تو اُسے درست کیا جائے۔


ڈاکٹر رضوانہ انصاری نے کہا کہ اصل ایشو تعلیمی نظام کی اصلاحات ہیںجن پر ابھی تک ہماری توجہ نہیں ہے۔ اس وقت 22.8ملین بچے اسکول نہیں جاتے اور تقریباً 23ملین اسکول جاتے ہیں۔ ہمارے پاس باقی 22.8ملین بچوں کے لیے اسکول کا انفراسٹرکچر موجود ہی نہیں ہے۔ ہمیں مزید اساتذہ چاہیں، اتنے مزید اسکول چاہیں اور سہولیات چاہیں۔ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں خصوصاً تب جب ہمارا بجٹ محدود ہو؟ مزید براں ہمیں اس پورے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ہمارے پاس ایسا کرنے کے بھی وسائل نہیں ہیں۔ کیونکہ ابھی جو اسکول موجود ہیں وہ بھی کسی بھی طرح اچھے اسکول کہلانے کے لائق نہیں۔ کئی میں نہ چھتیں ہیں اور نہ فرنیچر، ٹوائلٹس نہیں ہیں اس وجہ سے بچیاں اسکول نہیں جاسکتی۔ ہمارا ان مسائل پر کوئی فوکس ہی نہیں۔ معیار تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے اساتذہ کو تربیت فراہم کرنے کے کوئی پلان نہیں بنائے ہیں۔ جب اساتذہ ہی ایسے اداروں سے نہیں تربیت حاصل کریں گے جو ذہنی کشادگی کو فروغ دیتا ہو تو ایسے اساتذہ اپنے طالب علموںتک علم منتقل نہیں کرپائیں گے۔ پھر ایسی سنگین مینجمنٹ کمزوریاں ہیں جو مایوس کن ہیں۔ مثال کے طور پر آدھا سال گزر جاتا ہے لیکن کتابیں چھپ کر نہیں آتیں۔ آجائیں تو ایسی برے انداز میں چھپی ہوتی ہیں کہ اُن سے بچوں کو بھلا کیسے رغبت پیدا ہوگی۔ آپ بڑے پرائیوٹ اسکولز کی تدریسی کتابیں دیکھ لیں۔ وہ بچے کو متاثر کرتی ہیں، بچہ اُنہیں ہاتھ میں لے کر خوش ہوتا ہے ۔ پھر ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم نئے قومی نصاب میں پہلی جماعت سے مزید کئی احادیث شامل کررہے ہیں۔یہ سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ کیا مذہب کو بہت زیادہ پڑھانے سے بچہ اچھا شہر ی بنتا ہے؟ مدارس کے طالب علم کو اگر یہی کورس پڑھانا مقصد ہے تو پھر وہاں موجود اساتذہ کی ٹریننگ کا کیا ہوگا؟ وہ تو ایسی تعلیم دینے کے اہل نہیں ہیں۔ ہمارے مدارس میں جنت کا حصول مقصد ِ حیات پڑھایا جاتا ہے، دنیا کو جنت بنانے کا نہیں۔ حالانکہ دنیا کو بہتر بنانا ہماری سماجی ذمہ داری ہے ۔ مدارس کے بچوں کو بھی تو پتا چلے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں، جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں اس کی بہتری اُن کی ذمہ داری ہے۔ دینی مدارس میں بچوں کو پڑھانے کا رجحان اس لیے فروغ پارہا ہے کیونکہ وہاں بچوں کو رہائش ، کھانا اور کپڑے دیئے جاتے ہیں۔ ہمیں ایسے ہی اسکول بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرسکیں۔ چائلڈ کیئر ایجوکیشن پر بھی توجہ دینی چاہیے اور اس کے لیے ماؤں کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔

جناب جسٹس ریٹائرڈضیاء پرویز نے کہا کہ ایک نصاب کو لاگو کرنے سے مطلوبہ نتائج نہیں ملیں گے کیونکہ تعلیم دینے کے لیے آپ کو اساتذہ کی ایسی افرادی قوت چاہیے جو نئی نسل کو علم منتقل کرنے کی بہترین تربیت رکھتی ہو۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں تقریباً سب نے ہی چٹائی پر بیٹھ کر گورنمنٹ اسکول سے تعلیم حاصل کی ہے۔ گوکہ اُس وقت ایسی سہولیات میسر نہیں تھیں لیکن اساتذہ کی ذاتی کوششوں اور لگن سے بچے تعلیم کی جانب مائل ہوتے تھے۔ نظام تعلیم تو وہی موجود ہے لیکن اساتذہ کا جذبہ ماند پڑگیا ہے۔ تعلیم میں کرپشن کو کسی طور معاف نہیں کرنا چاہیے ۔ابھی بھی جو لوگ گھوسٹ ٹیچر ہیں اُنہیں سخت سزا دی جائے۔ پھر ہمیں سب سے پہلے بہترین تعلیم یافتہ طبقے کو تدریس کے شعبے کی جانب مائل کرنا ہوگا ۔ اساتذہ کے لیے مالی و سماجی مراعات رکھی جائیں تاکہ اعلی تعلیم یافتہ لوگ تدریس کو اپنے روشن مستقبل کی فیلڈ کے طور پر دیکھیں۔ ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ہمیں ترجیحی بنیادوں پر اساتذہ کی شاندار فورس جلد از جلد بنانی ہوگی۔

کموڈور (ریٹائرڈ) سدید انور ملک نے کہا کہ ہماری آبادی میں سوا پانچ کروڑ چھوٹے بچوں سے لیکر ۲۰ سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل آبادی ہے۔ ان میں سے پونے تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں ۔ اور جو باقی اسکولوں میں ہیں اُن میں سے چند لاکھ ہی بہترین تعلیم حاصل کررہے ہیں۔بقیہ بچوں کے اسکولوں کا دورہ کیا جائے تو تکلیف دہ حقائق سامنے آتے ہیں۔ ہمارا زور اردو پر ہے حالانکہ دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جو پہلے اپنی زبان کو فوقیت دیتے تھے، آج وہ بھی انگریزی پر زور دے رہے ہیں۔ انگریزی کم عمر ی میں سکھا دی جائے تو بچے کو پریشانی نہیں ہوتی، بلکہ وہ انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی معلومات میں ازخود اضافہ کرسکتا ہے۔ اس لیے یہ کشمکش اب ختم ہوجانی چاہیے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ اس لیے ہم دوسرے عقائد کے بچوں کو پابند نہیں کرسکتے کہ وہ ہماری اسلامی تعلیمات پڑھیں۔ ہمارے یہاں سائنس کی کتابوں میں بھی مذہبی تعلیمات موجود ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنا حساب دینا ہے لہٰذا کسی پر زور زبردستی آج کے دور میں ممکن نہیں ہے۔ پھر ہمیں اُن بچوں کو واپس اسکول میں لانا ہے جو اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان کے لیے انفراسٹرکچر بنانا ہے ۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں جو ممکن نہ ہو۔ یہ باآسانی پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ امتحانوں میں نقل کے رجحان کو سختی سے کچلنا ہوگا ۔ یہ ہمارے خلاف باقاعدہ سازش ہورہی ہے، اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔ لوگ بھارت سے پرچے حل کرکے پاکستان میں بھیجتے ہیں تاکہ یہاں تعلیم کا بیڑہ غرق ہو۔

محترمہ مسرت اکرم نے کہا کہ اُردو میں تدریس سے بچوں کو اساتذہ میں رشتہ مضبوط ہوتا ہے ۔ اُستاد زیادہ بہتر انداز میں سادہ طریقے سے طالب علموں کو مضامین سمجھاسکتے ہیں۔ ہمیں بنیادی طور پر اپنے مسائل کا درست ادراک نہیں ہے۔ پہلے ایک بار فیصلہ کرلیں کہ تعلیم سے کیاحاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پھر اپنی ترجیحات کے مطابق ہم نئی نسل کو تیار کرسکتے ہیں۔ روڈ میپ نہیں ہوگا تو ہم کچھ حاصل نہیں کرپائیں گے۔ قومیں ایسے نہیں بنتیں کہ طبقے کے حساب سے بچے تعلیم حاصل کریں۔ امیر کا بچہ جدید تعلیم حاصل کرے اور غریب کا بچہ مدارس سےعلم پائے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس مدینۃ الحکمہ جیسی شاندار مثال موجود ہے ۔ ہمیں ہر شہر میں مدینۃ الحکمہ بنانا ہے۔ مغرب میں بھی کئی شہر ایسے ہیں جو یونی ورسٹی شہر کہلاتے ہیں۔

جناب شکیل فاروقی نے کہا کہ واحد قومی نصاب کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا کیونکہ کیمبرج سسٹم تو رہے گا۔ ایک طبقہ تو ہرگز نہیں چاہے گا ۔ ملک میں تعلیم کو ہر سطح پر فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس لیے سخت اقدامات ناگزیر ہوگئے ہیں۔ اسکولز کے نام پر بزنس چل رہے ہیں۔معتبر ناموں کے حامل اسکول اپنی فرینچائز دیتے ہیں ۔فیسیں بہت زیادہ ہیں اس لیے ایک نصاب کرنے کے لیے حکومت کو سختی سے عمل درآمد کرنا پڑے گا۔ پھر یونی ورسٹی میں پڑھنا بھی ایک خواب ہوتا ہے۔ اگر ہماری یونی ورسٹیاں اچھی ہوں تو چھوٹے بچے اُن میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہونگے جیسے آکسفورڈ یا ہارورڈ کے متعلق سوچا جاتا ہے۔ہمدرد یونی ورسٹی کے علاوہ اور ایسی کوئی یونی ورسٹی نہیں جو سرکاری یونی ورسٹیوں کی طرح مختلف شعبوں میں ماسٹرز ایم فل پی ایچ ڈیز کرواتی ہوں۔ اگر پاکستان کو اچھا کرنا ہے تو تعلیم کو وہی اہمیت دینا ہوگی جو ملکی سلامتی کو دی جاتی ہے۔
کرنل ریٹائرڈ مختار احمد بٹ نے کہا نصاب صوبائی معاملہ ہے، وفاقی حکومت کا اس معاملے میں دخل اندازی کرنا سمجھ سے باہر ہے۔ اگر وفاقی حکومت سمجھتی ہے کہ جو نصاب وہ لاگو کرنا چاہتی ہے وہ اچھا ہے تو کسی ایک صوبے میں پہلے کرکے دیکھ لیں۔ حکومت کو اندازہ بھی ہوجائے گا کہ آیامدارس اس کے لیے تیار ہوتے ہیں یا نہیں۔پاکستان کے تعلیمی مسائل کی ایک وجہ اس شعبے سے جڑے لوگوں کا مالی مفاد ہے۔ پرائیوٹ اسکول تو چاہیں گے کہ اُنہیں برتری حاصل رہے اور وہ من مانی فیسیں لیتے رہیں۔ سرکاری اسکولوں پر حکومتی افسران کی توجہ ہی نہیں اُنہیں کرپشن سے فرصت ملے تو کچھ کام کریں۔ ملک کو بنے ستر سال ہوگئے ہیں لیکن ہم آج تک بنیادی سوالات میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ یہ لمحہ فکریہ ہے
پروفیسر ڈاکٹرشاہین حبیب نے کہا کہ ہم نے تعلیم پر بہت خوفناک قسم کے تجربات کیے ہیں۔ اب ہماری نوجوان نسل منتشر ہے اور ہر قسم کے غیر اہم جھگڑوں اور اختلاف میں پڑ گئی ہے۔ مذہبی، لسانی، صوبائی نیز ہر اُس مسئلہ میں الجھ گئے ہیں جن کا وہ کوئی حل نہیں کرسکتے۔ کوویڈ ۱۹ میں والدین کو اچھا موقع ملا کہ وہ اپنے بچوں کے اساتذہ کو آن لائن لیکچرز میں پرکھیں۔ بڑی مایوسی ہوئی کہ اساتذہ کی ساری توجہ انگریزی بولنے اور لیکچر کو بغیر دلچسپ بنائے پیش کردینا ہے۔ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے بچے تعلیم سے کیوں متنفر ہورہے ہیں، کیونکہ جب اساتذہ کا رویہ ایسا ہوگا تو بچے کیوں دلچسپی لیںگے۔ ایک نصاب تو بہت ضروری ہے کیونکہ مذہبی و لسانی اختلافات کو نکالنے کے لیے اس سے اچھی اور کوئی چیز نہیں۔
جناب ابن الحسن رضوی نے کہا کہ تعلیم کو متوسط و غریب طبقے کے لیے پرکشش بنانا ضروری ہے اس کے لیے اسکولوں میں ووکیشنل ٹریننگ کا بھی اہتمام کرنا ہوگا اس سے والدین کو لگے گا کہ بچہ اسکول میں تعلیم کے ساتھ ایسا کام بھی سیکھ رہا ہے جس سے وہ جلد کمانے کے قابل ہوجائے گا۔ اس طرح مدارس کی رجسٹریشن پر بھی فرق پڑے گا۔دیہی علاقوں میں بھی ایسے پروجیکٹس کام کررہے ہیں جہاں بچوں کو روزانہ اسکول آنے پرکچھ رقم دی جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ خراب ہے، بہت سے معاملات اچھے بھی ہیں۔ اگر ہم بائیو میٹرک کے ذریعے اساتذہ کی حاضری لینے لگیں تو بہت اچھا ہوجائے گا۔
ڈاکٹر سید امجد علی جعفری صاحب نے کہا کہ نصاب میںتحریک پاکستان کی شخصیات کی بارے میں بھی شا مل ہونا چاہیے جنہوں نے پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔آج کی نوجوان نسل بانیان پاکستان کے نام تک نہیں جانتی۔ انہوں نے مزید کہاکہ نصاب میںشہید پاکستان حکیم محمد سعید ، عبد الستار ایدھی جیسے عظیم لوگوں کے بارے میں اسباق ہوناچاہیے ۔ یہ لاعلمی اچھی چیز نہیں ہے یہ بتارہی ہے کہ ہم نے تعلیم کے شعبے میں غفلت برت کر کتنا بڑا گناہ کیا ہے۔
جناب انور عزیزجکارتہ والانے کہا کہ انڈونیشیا میں اُس وقت کے صدر سوہارتو نے تعلیم کو باہاسا انڈونیشیا میں کردیا۔ اُس وقت بڑے اعتراضات ہوئے لیکن آج ہر انڈونیشین دل سے اپنے وطن سے محبت کرتا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ ہجرت کرتے ہیں لیکن انڈونیشین بہت کم باہر ممالک میں کام کرتے نظر آئیں گے۔ قومی جذبہ اپنی زبان میں تعلیم دینے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی مسئلہ ہے، یہاں پر وطن تو ہے وطن پرستی نہیں ہے، پاکستانیت نہیں ہے۔ ہم نے بنیاد کو چھوڑ دیا ہے ۔ جب تک اپنی بنیاد کی جانب نہیں لوٹیں گے ہم ایسے ہی کنفیوز رہیں گے۔ انگریزی تو لازمی پڑھانی ہے اور پہلی جماعت سے پڑھانی ہے لیکن باقی مضامین اپنی اردو میں پڑھانے ہیں۔

جناب عثمان دموہی نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ نصاب کو بدلنے کی ضرورت نہیں البتہ اگر کوئی معلومات اپ گریڈ کرنا ہو تو وہ اچھا ہے۔یہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ سائنس کے مضامین میں تفصیل بڑھائی جائے اور یونی ورسٹی کے طالب علموں کو پابند کیا جائے کہ وہ کم از کم ایک بچہ تو ضرور پڑھائیں۔
بریگیڈئر ریٹائرڈ ڈاکٹر ریاض الحق نے کہا کہ موجودہ تعلیمی نظام نے طبقاتی سوچ کو طاقتور کردیا ہے۔ ایسے رویے اگر معاشرے میں پیدا ہوجائیں تو وہ قومیں ترقی نہیں کرتیں۔ پرائمری لیول پر توجہ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اسی دوران بچے کی شخصیت واضع ہوتی ہے۔

محترمہ ہما بیگ نے کہا کہ دو زبانوں پر زور دینا چاہیے۔ ہمیں اپنے بچوں کی شخصیات اُبھارنی ہیں۔ اُنہیں ذمہ دار اور سمجھدار بنانا ہے۔ ملک میں اگر واحد نصاب نافذ ہوجائے تو بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے کیونکہ تعلیم تکنیکی شعبہ ہے اس میں نفسیات کا بھی پہلو ہوتا ہے اور سماجیات کا بھی۔ اس کے لیے منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔ محض نصاب ایک کرنے سے کام نہیں چلے گا۔

صدر شوریٰ ہمدرد محترمہ سعدیہ راشد نے اس موقع پر اسپیکر شوریٰ جسٹس ریٹائرڈ حاذق الخیری کی ذوجہ کے انتقال اور رکن شوریٰ ہمدرد ہما بیگ کے نوجوان صاحب زاد ے کی شہادت پر گہرے افسوس و رنج کا اظہار کرتے ہوئے اُن کے بلند درجات کے لیے دعا کی۔ ہما بیگ کے صاحب زادےکچھ عرصہ پہلے پی آئی اے ہوائی جہاز حادثے میں شہید ہوئے تھے۔