پاکستان میں بریسٹ کینسر بڑھتا ہوا خطرہ اور بچاؤ کی امید

پاکستان میں بریسٹ کینسر بڑھتا ہوا خطرہ اور بچاؤ کی امید
تحریر: ماریہ اسماعیل
پاکستان میں خواتین کی صحت کے حوالے سے سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا ہوا مرض “بریسٹ کینسر” یا چھاتی کا سرطان ہے۔ ہر سال تقریباً 92 ہزار خواتین اس مرض کا شکار بنتی ہیں، جن میں سے 40 ہزار تک جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں بریسٹ کینسر لاحق ہو سکتا ہے — یہ شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
بریسٹ کینسر کیا ہے؟
بریسٹ کینسر اس وقت ہوتا ہے جب چھاتی کے خلیات (cells) غیر معمولی طور پر بڑھنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ خلیات جسم کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل سکتے ہیں۔ یہ عموماً دودھ پیدا کرنے والی نالیوں (ducts) یا غدود (lobules) سے شروع ہوتا ہے۔
ابتدائی مرحلے میں اکثر علامات ظاہر نہیں ہوتیں، اسی لیے خواتین کو خود معائنہ (self-examination) اور سالانہ میڈیکل چیک اپ کو معمول بنانا چاہیے۔
علامات
چھاتی میں گلٹی یا سختی محسوس ہونا.چھاتی کی جلد یا نپل میں تبدیلی ہونا۔نپل سے خون یا مادہ خارج ہونا۔بغل میں سوجن یا درد ہونا۔چھاتی کے سائز یا ساخت میں اچانک تبدیلی ہونا۔یہ علامات ہمیشہ کینسر کی نشاندہی نہیں کرتیں، لیکن اگر ظاہر ہوں تو فوری ڈاکٹر سے رجوع ضروری ہے۔
اسباب اور خطرے کے عوامل
بریسٹ کینسر کے اسباب ایک نہیں بلکہ کئی عوامل مل کر خطرہ بڑھاتے ہیں ۔اگر خاندان میں کسی قریبی خاتون کو یہ مرض ہو چکا ہو تو خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ BRCA1 اور BRCA2 جینز میں تبدیلی بھی بڑی وجہ ہے۔بڑھتی عمر، دیر سے شادی، یا بچے پیدا نہ کرنا بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔غیر متوازن غذا، موٹاپا، ورزش کی کمی، تمباکو نوشی اور ذہنی دباؤ خطرے کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔آلودگی، مصنوعی ہارمونز، یا غیر صحت مند تیلوں کا مسلسل استعمال بھی کینسر کے امکانات میں اضافہ کر سکتا ہے۔
پاکستان میں صورتحال
سرکاری اور نجی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) کے مطابق ہر سال تقریباً90ہزازسے 92ہزارتک نئی مریض سامنے آتی ہیں۔ہائیدرآباد کینسر رجسٹری (Hyderabad Cancer Registry) کے 2020–2023 کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں رپورٹ ہونے والے کل کیسز میں سے سب سے زیادہ خواتین کو بریسٹ کینسر لاحق تھا۔کراچی، حیدرآباد، سکھر اور لاڑکانہ میں اس مرض کی شرح سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں آگاہی مہمات کے باوجود دیہی سندھ میں آج بھی خواتین بیماری چھپانے یا علاج کے اخراجات کے ڈر سے اسپتال نہیں جاتیں، جس سے کیسز دیر سے تشخیص ہوتے ہیں اور علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
طبی ماہرین کاکہناہے
ڈاکٹر سارہ عارف، ہیڈ آف سرجری، میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اسپتال، نے کہا کہ سالانہ 90 سے 92 ہزار کیسز کا تخمینہ پرانے اعداد و شمار پر مبنی ہے جس میں دیہی اور پسماندہ علاقوں کی خواتین شامل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف چند فلاحی اسپتال ایسے ہیں جو مفت یا رعایتی نرخوں پر علاج فراہم کرتے ہیں جو قومی ضرورت کے لیے ناکافی ہے۔انہوں اس بات پرزوردیاکہ قومی کینسر رجسٹری کے قیام کا مطالبہ کیا تاکہ شہری اور دیہی علاقوں میں پھیلنے والی تمام اقسام کے سرطان بالخصوص چھاتی کے سرطان سے متعلق مستند اور جامع اعداد و شمار مرتب کیے جا سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں کی خواتین اکثر قومی اعداد و شمار میں شامل نہیں ہوتیں کیونکہ ان تک تشخیص اور علاج کی سہولیات دستیاب نہیں۔
ڈاکٹر صدف حفیظ چوہان، سربراہ شعبہ نفسیات، سلیم حبیب یونیورسٹی، نے کہا کہ بریسٹ کینسر کے مریضوں کو نہ صرف جسمانی بلکہ نفسیاتی مدد کی بھی شدید ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ علاج کے دوران اپنے حوصلے کو برقرار رکھ سکیں۔
ڈاکٹر بلقیس شیخ، معروف ہربلسٹ، نے خواتین کو مشورہ دیا کہ وہ پراسیسڈ اور جنک فوڈ کے استعمال میں کمی لائیں، ورزش کو معمول بنائیں اور قدرتی غذا کا استعمال بڑھائیں تاکہ قوتِ مدافعت مضبوط ہو اور کینسر کے خلاف جسم کا دفاع بہتر ہو۔
بچاؤ کے طریقے
بریسٹ کینسر سے بچاؤ ممکن ہے اگر خواتین اپنی صحت پر توجہ دیں اور چند عادات اپنائیں توخود معائنہ (Self Examination) کرے ہر مہینے ایک مرتبہ چھاتی کا خود معائنہ کریں۔ کسی بھی غیر معمولی گلٹی یا تبدیلی کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
40 سال کی عمر کے بعد ہر سال ممیوگرافی کروانا ضروری ہے۔
صحت مند طرزِ زندگی کے لیے
وزن کو قابو میں رکھیں، روزانہ ہلکی ورزش کریں، زیادہ چکنائی اور شکر والی غذاؤں سے پرہیز کریں، اور تازہ پھل و سبزیاں زیادہ استعمال کریں۔
بچوں کو دودھ پلانا خواتین میں بریسٹ کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے۔خواتین کو گھریلو، تعلیمی اور سماجی سطح پر اس مرض کے بارے میں آگاہی دینا سب سے مؤثر دفاع ہے۔
سندھ میں آگاہی کی ضرورت
سندھ میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں تعلیم اور آگاہی کی کمی کے باعث کیسز دیر سے سامنے آتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر حکومت اور مقامی ادارے مل کر گاؤں گاؤں آگاہی مہمات چلائیں، خواتین ہیلتھ ورکرز کو تربیت دیں اور مفت ممیوگرافی مراکز قائم کریں تو ہزاروں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
رتھ ضیا، پرنسپل نرسنگ کالج، اور شکیل خان (آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی) نے کہا کہ صحت مند طرزِ زندگی اور خاندانی تعاون خواتین کو بیماری کے خلاف مضبوطی سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔
بریسٹ کینسرسے متاثرین
سینئر صحافی اور بریسٹ کینسر سروائیور عافیہ سلام نے کہا کہ عوامی سطح پر آگاہی مہمات بہت ضروری ہیں تاکہ لوگ حفاظتی تدابیر کو قبول کریں۔ انہوں نے کراچی میں ایچ پی وی ویکسینیشن مہم کی ناکامی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ عوامی آگاہی کے بغیر کوئی بھی صحت پروگرام کامیاب نہیں ہو سکتا۔
این ایف ایچ ای کی سیکرٹری جنرل، رقیہ نعیم نے اپنی آٹھ سال قبل کی کامیاب جدوجہد شیئر کی جب انہوں نے اس بیماری کو اسٹیج ٹو پر شکست دی۔ انہوں نے اپنی فیملی کے تعاون اور اپنے حوصلے کو اپنی صحت یابی کی بڑی وجہ قرار دیا۔
نتیجہ
بریسٹ کینسر ایک خطرناک مگر قابلِ علاج بیماری ہے، بشرطِ کہ اسے وقت پر پہچانا جائے۔ پاکستان اور خصوصاً سندھ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین خود اعتمادی سے اپنی صحت کا خیال رکھیں، سماج اس موضوع پر بات کو شرم یا خوف کے بجائے ذمہ داری سمجھے، اور حکومت آگاہی کے ساتھ مفت علاج کی سہولتوں کو عام کرے۔زندگی بچ سکتی ہے ۔ اگر وقت پر تشخیص ہو۔