“سنڈے اسٹوڈیوز”کراچی کی تہذیبی روح کی ایک تازہ خوشبو

سچ تو یہ ہے،
===========

بشیر سدوزئی
=========

سچ تو یہ ہے کہ کراچی جیسے شہر میں، جہاں روزمرہ کی ہڑبونگ اور سماجی انتشار نے زندگی کی رفتار کو بے ہنگم سا بنا دیا ہے، اگر کوئی خبر دل کو خوشی دے دے تو وہ کسی نعمتِ سے کم نہیں۔ پروفیسر دریا قاضی کا یہ اعلان کہ خالق دینا ہال لائبریری میں “سنڈے اسٹوڈیوز” کا آغاز کیا جارہا ہے، بالکل ایسی ہی خوش خبری تھی جیسے

“نعمتِ غیر مترقبہ” ہو۔ یہ محض ایک اطلاع نہیں تھی بلکہ اس شہر کی دیرینہ ثقافتی روایت کی نئی اور خوش گوار قسط تھی۔ ہم نے بے اختیار اس جملے کو یوں سمجھا کہ کراچی کی تہذیبی روح کی ایک تازہ خوشبو پھر سے اٹھنے والی ہے۔
خالق دینا ہال سے میرا تعلق محض ایک جگہ سے نہیں، ایک دور سے جڑا ہوا ہے۔ 1979ء میں اسٹوڈنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن کی مفت کوچنگ کلاسز میں دسویں کا ٹیوشن لینے یہاں آیا تھا۔ پھر یونس رضوی مرحوم کی مقناطیسی شفقت اور تہذیبی فضا نے ایسا کھینچا کہ چھیالیس برس گزر گئے اور یہ وابستگی آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ وقت نے اس عمارت کو خستہ ضرور کر دیا تھا مگر کراچی کی دو باشعور بیٹیوں، دریا قاضی اور سیما زیدی نے اسے نہ صرف نئی زندگی دی بلکہ اسے اس کی اصل حالت کے ساتھ دوبارہ کھڑا کر دیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے عمارت کے ساتھ وہ مقصد بھی لوٹ آیا ہو جس کے لیے خالق دینا ہال تعمیر کیا گیا تھا، یعنی شہر میں سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ۔
30 نومبر 2025ء کو اسی نو تزئین شدہ ہال میں دوپہر سے رات تک “سنڈے اسٹوڈیوز” کے عنوان سے ایسی ورکشاپس منعقد ہوئیں جنہوں نے شہر کے فنی ذوق رکھنے والوں کو دوبارہ ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں کبھی کتاب کی خوشبو، خطاطی کی رعنائی، مٹی کے برتنوں کی حرارت اور رنگوں کی زبان روزمرہ کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ پھر وقت نے کروٹیں بدلیں مگر ہر بدلتی ہوا میں کچھ لوگ ایسے بھی نکل آتے ہیں جو چراغ بجھنے نہیں دیتے۔ دریا قاضی اور سیما زیدی کی کاوش اسی تسلسل کی ایک روشن کڑی ہے۔ ان ورکشاپس نے نوجوانوں سمیت ہر اس شخص کو دعوتِ تخلیق دی جو ہنرمندی، فن اور لمسِ جمال کو اب بھی اپنے دل کے قریب رکھتا ہے۔
دریا اور سیما نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ سلسلہ محض “سنڈے اسٹوڈیوز” تک محدود نہیں رہے گا۔ باقاعدہ مکالمے، مباحثے، گفتگو کی نشستیں اور سامنے والے گارڈن ریٹریٹ میں چھوٹی ادبی سرگرمیاں بھی اس کا حصہ رہیں گی۔ گویا یہ سب کچھ کراچی کی ثقافتی روح کو دوبارہ جگانے کا ایک مسلسل منصوبہ ہے۔ ایسے وقت میں جب میڈیا کی اکثر خبریں اضطراب، بے چینی اور بحران کی علامت بنی ہوئی ہیں، اس نوعیت کے پروگرام ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی محض سیاست، مہنگائی اور افراتفری کا نام نہیں۔ اس شہر کے دل میں فن کی کوئی نہ کوئی گلی آج بھی روشن ہے، کوئی لائبریری آج بھی اپنے دروازے کھولے بیٹھی ہے، اور کچھ لوگ اب بھی چاہتے ہیں کہ کراچی صرف شہرِ کاروبار ہی نہ رہے بلکہ شہرِ تہذیب بھی بنا رہے۔ یہ صنعتی شہر کے ساتھ تہذیبی شہر بھی کہلائے۔
“سنڈے اسٹوڈیوز” کو اس بار ریڈنگ روم فیسٹیول کا نام دیا گیا، جو نہایت وقار اور اہتمام کے ساتھ منعقد ہوا۔ داخلہ عام تھا، اسی لیے شہر بھر سے ادب اور فن کے شائقین بڑی تعداد میں خالق دینا ہال پہنچے۔ دوپہر سے رات تک ہر نشست میں غیر معمولی دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ فیسٹیول کا آغاز گرپس تھیٹر کے اسٹیج پلے “دنیا میرے آگے ایک بے ڈھنگی گیند ہے” سے ہوا جس نے نوجوانوں، سماجی تضادات اور انسانی رویّوں کو نہایت علامتی اور تاثر انگیز انداز میں پیش کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی یہ پرفارمنس ناظرین کو کئی سوالات اور کئی بازگشتوں کے ساتھ رخصت کر گئی۔
اس کے بعد کہانی سنانے کے فن پر اسد مونگا، آکف راج اور فاطمہ بی بی کی گفتگو نے حاضرین کو کہانی کے بنیادی اجزا، بیانیے کی تبدیلی اور کرداروں کی تہہ در تہہ تشکیل سے آگاہ کیا۔ شام پانچ بجے “شہر کا مطالعہ” کے عنوان سے ہونے والی نشست میں میونسپل کمشنر کراچی افضل زیدی، مہر جعفری، نصرت خواجہ اور سیما زیدی نے شہر کی بدلتی ہوئی ثقافت، اس کی خوشبو، اس کے خوف اور اس کی رونقوں پر گفتگو کی۔ یہ نشست شہری بیانیے کے کئی نئے زاویے کھولنے میں کامیاب رہی۔
شام ڈھلے داستان گوئی کا سیشن ہوا، جو فیسٹیول کا سب سے جاذبِ نظر اور روح کو چھو لینے والا حصہ تھا۔ لفظ، آواز اور ادا نے مل کر ایک ایسی کیفیت پیدا کی کہ محفل دیر تک اس کی گرفت میں رہی۔ اختتام رات آٹھ سے دس بجے تک ہونے والی صوفیانہ قوالی سے ہوا جس میں غیور معید قوال اور ان کے برادران نے وجد آفریں سُر بکھیرے اور ہال کو دیر تک سماع کی کیفیت میں رکھا۔
اس روز خالق دینا ہال فقط روشن نہیں بلکہ سانس لیتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ مٹی کے برتنوں میں پیش کیے گئے روایتی کھانے، ثقافتی کارنر، لائبریری کی خاموش خوشبو، اور وہی لکڑی کی کرسیاں جو دہائیوں پہلے ہماری نشست و برخاست کا حصہ ہوتی تھیں اس فیسٹیول میں دیکھی گئی۔ سب کچھ مل کر اس دن کو یادگار بنا گئے۔ ریڈنگ روم فیسٹیول نے ثابت کیا کہ کراچی آج بھی ادب و فن کا مرکز ہے، اور جب لوگ فن کے رنگ میں ڈوبتے ہیں تو شہر کی خاک بھی زندہ محسوس ہونے لگتی ہے۔
اس دن خالق دینا ہال میں داخل ہونے والا ہر شخص کسی نہ کسی رنگ میں ضرور رنگ گیا، فن کے رنگ میں، زندگی کے رنگ میں، یا یادوں کے رنگ میں۔ پروگرام کے اختتام پر لوگ اس امید کے ساتھ لوٹ رہے تھے کہ خالق دینا ہال پھر سے آباد ہوئے رہا ہے، شادیوں کی تقریبات کے لیے نہیں ثقافتی اور تخلیقی سرگرمیوں کے لیے۔