بی بی سی کی سائنس فکشن سیریز ”آؤٹ آف دی اَن نون“ (Out of the Unknown) نے 1965 سے 1971 کے درمیان نشر ہونے والے اپنے 4 سیزنز اور 49 اقساط میں ایسے تصورات پیش کیے، جو آج ہماری روزمرہ زندگی میں حقیقت بن چکے ہیں۔
یہ سیریز بنیادی طور پر سائنس فکشن کو سنجیدہ ڈرامے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش تھی، اور اس میں آئیزک ایسی موف اور ایم فورسٹر جیسے مشہور مصنفین کی کہانیاں شامل تھیں۔ اس وقت کمپیوٹر عام زندگی کا حصہ نہیں تھے، مگر یہ ڈرامے مستقبل کی ٹیکنالوجی کی پیش گوئی کرتے نظر آئے۔
سیریز کی سب سے یادگار قسط ”The Machine Stops“ میں ایک ایسی دنیا دکھائی گئی جہاں لوگ اپنے کمرے میں رہتے ہیں اور مشینوں کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے جڑتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا کہ اگر انسان مشینوں پر مکمل انحصار کریں تو کیا واقعی جینے کے قابل رہیں گے؟ آج سوشل میڈیا کی دنیا میں، جہاں لوگ ہزاروں “دوست” رکھتے ہیں مگر حقیقی زندگی میں تنہائی محسوس کرتے ہیں، یہ پیش گوئی بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔
کئی اقساط میں یہ بھی دکھایا گیا کہ معلومات کو طاقت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں ڈیجیٹل ڈیٹا کا کوئی تصور نہیں تھا، مگر سیریز میں بتایا گیا کہ جب معلومات کسی بڑے نظام کے ہاتھ میں آ جائیں تو فرد کی آزادی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ آج ٹیکنالوجی کمپنیاں ہماری پسند، ناپسند اور گفتگو کے ڈیٹا کی بنیاد پر اشتہارات، خبریں اور فیصلے ہمارے سامنے لاتی ہیں، بالکل ویسا ہی جیسا نصف صدی پہلے یہ ڈرامہ پیش کرتا تھا۔
سیریز میں خودکار مشینوں اور ان کے انسانی کنٹرول پر اثرات بھی موضوع رہے۔ یہ تب صرف خیالی تصور تھا، مگر آج ChatGPT، روبوٹکس اور خودکار نظام کے دور میں یہ بحث حقیقت بن چکی ہے۔ قسطوں میں سوال اٹھایا گیا کہ کیا مشینیں انسانوں سے بہتر فیصلے کر سکتی ہیں، مگر کیا وہ ہمدردی، اخلاق اور احساس جیسی صفات میں انسان کی جگہ لے سکتی ہیں؟ یہی سوال آج مصنوعی ذہانت کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔
مزید برآں، سیریز نے خبردار کیا کہ جس ٹیکنالوجی کو ہم سہولت سمجھتے ہیں، وہ ہمیں اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ آج ہمارا دن اسمارٹ فون سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتا ہے، راستے، خبریں، تفریح اور حتیٰ کہ یادیں بھی مشینوں کے سپرد ہیں۔ اگر ہم نے ٹیکنالوجی پر اندھا اعتماد کر لیا، تو ہم اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو سکتے ہیں — بالکل ویسا ہی جس کا ذکر اس سیریز میں کیا گیا تھا۔
ایک اور قسط ”The Last Lonely Man“ میں انسانی یادداشت کو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل کرنے کا تصور پیش کیا گیا۔ اگرچہ یہ ابھی ممکن نہیں، مگر نیوروسائنس اور ڈیجیٹل بایولوجی میں سائنسدان ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جو مستقبل میں انسانی دماغ کے ڈیٹا کو محفوظ یا منتقل کر سکیں، جیسا کہ Brain–Computer Interfaces اور نیورل لنک میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
یہ سیریز اس بات کی پیش گوئی کرتی ہے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں جہاں سہولت ہے، وہیں ہمیں اپنے انسانی فیصلے اور آزادی کی حفاظت کے لیے ہوشیار رہنا ہوگا۔























