اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ زحل ہی وہ واحد سیارہ ہے جس کے گرد خوبصورت گول دائرے ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ زحل کے حلقوں (Rings) نے اپنی چمک اور وسعت سے ہمیشہ انسان کو حیران کیا ہے، لیکن یہ صرف اسی سیارے کا خاصہ نہیں۔ مشتری، یورینس اور نیپچون — ان تینوں کے گرد بھی دائرے موجود ہیں، اگرچہ وہ زحل کی طرح نمایاں یا روشن نہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق تقریباً 10 سے 20 کروڑ سال قبل زحل کا ایک چاند، جسے کریسالس کہا جاتا ہے، اپنی کشش ثقل کی حد سے زیادہ قریب آگیا اور ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ انہی ٹکڑوں نے بعد میں زحل کے شاندار دائروں کی شکل اختیار کی۔
ناسا کے کیسینی مشن نے زحل کے ان حلقوں کے بارے میں حیران کن تفصیلات فراہم کیں۔ یہ دائرے لاکھوں کلومیٹر چوڑے ہیں لیکن بعض مقامات پر ان کی موٹائی صرف چند میٹر ہے۔ ان میں سینکڑوں باریک دائرے شامل ہیں جو ایک دوسرے کے گرد گھومتے ہوئے ایک ٹھوس سطح جیسے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر کوئی انہیں قریب سے دیکھے تو اندازہ ہوگا کہ یہ دراصل بے شمار ذرات سے بنے ہیں — کچھ دھول کے ذروں کے برابر جبکہ کچھ دس میٹر تک بڑے۔ ان میں زیادہ تر حصہ پانی کی برف پر مشتمل ہے، اسی وجہ سے وہ روشنی کو خوبصورتی سے منعکس کرتے ہیں اور زمین سے بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
ابھی تک سائنس دان یہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ زحل کے دائرے کیسے بنے، مگر ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ کسی چاند یا دمدار ستارے کی باقیات ہیں جو زحل کی کشش ثقل کی شدت سے تباہ ہو گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دیگر دیوہیکل سیاروں کے گرد بھی ایسے دائرے ہیں۔ یورینس کے حلقے طاقتور دوربین کے ذریعے زمین سے دیکھے جا سکتے ہیں، اگرچہ وہ بہت مدھم ہیں اور پہلی بار 1977 میں دریافت کیے گئے۔ نیپچون کے دائرے تو اس سے بھی زیادہ دھندلے ہیں — صرف دو ہی واضح طور پر نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ جدید ترین جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ سے بھی۔
یوں زحل کے حلقوں کی اصل خاصیت ان کا وجود نہیں بلکہ ان کی چمک، وسعت اور دلکشی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت زحل کے ان دائروں کو ان کے عروج پر دیکھ رہے ہیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ زحل کی کششِ ثقل انہیں آہستہ آہستہ ختم کر دے گی — شاید ایک دن یہ صرف تاریخ کا حصہ رہ جائیں۔























