“میں منٹو نہیں ہوں”: ایک ایسا ڈرامہ جو معاشرے کے چہرے پر ایک طمانچہ ہے
اردو ڈرامہ نگاری کی دنیا میں جہاں زیادہ تر کہانیاں رومانس، خاندانی جھگڑوں یا انتقام کے گرد گھومتی ہیں، وہیں کبھی کبھار کوئی ایسا ڈرامہ سامنے آتا ہے جو نہ صرف ان روایتی دائروں کو توڑتا ہے بلکہ معاشرے کے ایک ایسے کربناک پہلو کو بے نقاب کرتا ہے جس پر بات کرنا ہمارے ہاں تقریباً ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ ARY ڈیجیٹل کا ڈرامہ “میں منٹو نہیں ہون” اسی قسم کا ایک منفرد، جری اور دل کو چھو لینے والا شاہکار ہے۔ یہ ڈرامہ محض ایک کہانی نہیں، بلکہ معاشرے کے اس روئیے پر ایک کاری ضرب ہے جو متاثرہ کے بجائے مجرم کو عزت دیتا ہے اور زخم پر مرہم رکھنے کے بجائے اسے مزید ہرا کرتا ہے
===============

===========================
ڈرامہ “میں منٹو نہیں ہوں” میں اگرچہ مرکزی کردار ثناء (حرا خان) اور اس کے شوہر عمیر (شہزاد شیخ) کے گرد گھومتا ہے، لیکن مہمل کا کردار کہانی کو گہرائی اور وسعت دینے میں ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ مہمل، جسے عموماً ثناء کا کزن یا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے، کہانی کا واحد مثالی کردار ہے جو ثناء کے نفسیاتی تشدد بھرے ماحول میں اسے Emotional Support فراہم کرتا ہے۔
جب عمیر ثناء کو اس کے اپنوں سے کاٹ کر اسے نفسیاتی طور پر تباہ کر رہا ہوتا ہے، مہمل ہی وہ واحد شخص ہے جو ثناء کی بے زبان چیخوں کو سنتا اور سمجھتا ہے۔ وہ نہ صرف اس کا ہمدرد بنتا ہے بلکہ اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ پاگل نہیں ہے، اور عمیر کا رویہ درست نہیں۔ مہمل درحقیقت ثناء کے ضمیر کی آواز بن جاتا ہے، جو اسے بتاتا ہے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ معمولی نہیں بلکہ ایک سنگین ظلم ہے۔
===============


===============
مہمل کی موجودگی ڈرامے میں امید کی کرن ہے۔ وہ ثناء کی خوداری کو بحال کرنے اور اسے اس ذہنی قید سے نکلنے کی ہمت دیتا ہے۔ اس کا کردار اس پیغام کی علامت ہے کہ ایسے مشکل وقت میں کسی کا ساتھ اور حمایت کتنی ضروری ہوتی ہے۔ مہمل ثناء کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ خاموشی توڑے اور اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہو۔ مختصراً یہ کہ مہمل صرف ایک کردار نہیں، بلکہ ڈرامے کا وہ Ethical Center ہے جو سچائی، ہمت اور انسانیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
اختتام: مہمل کے بغیر ثناء کا سفر نامکمل تھا۔ وہ وہی mirror ہے جو ثناء کو اس کی حقیقی طاقت دکھاتا ہے، اس لیے اس کا کردار کہانی کا ایک نہایت اہم اور قابلِ ستائش حصہ ہے
=================

=====================
آنکھوں سے بولنے کا فن:
بابر علی کی اداکاری کی سب سے بڑی طاقت ان کی آنکھیں ہیں۔ وہ بغیر کوئی ڈائیلاگ بولے صرف اپنے تاثرات سے وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو الفاظ بیان نہیں کر سکتے۔ خوشی کا ایک لمحہ ہو، غم کی گہری گھڑی ہو، یا پھر غصے کی آگ، وہ ہر جذبے کو اپنی آنکھوں کے ذریعے اس قدر حقیقی انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ناظر فوراً سے کردار کے جذبات سے جڑ جاتا ہے۔
کرداروں میں سچائی:
بابر علی نے ہمیشہ ایسے کردار چنے ہیں جو حقیقی زندگی کے قریب ہوں۔ وہ اپنے کرداروں میں ایک عام انسان کی طرح جیتے ہیں، جس میں کوئی بناوٹ یا مصنوعی پن نہیں ہوتا۔ چاہے وہ “من کی مانوں” کا غریب اور محنتی نعمان ہو یا پھر “میرے ہمدم” کا وفادار دوست، ان کے کردار ہمیشہ ناظرین کے دلوں میں اتر جاتے ہیں۔























