خلیل الرحمٰن قمر کے ڈراموں میں مکالمے سب سے زیادہ زور آور ہوتے تھے۔ ان کے کرداروں کے بولنے کا انداز، ان کی نفسیات کی عکاسی کرتا تھا۔ ان کے بیٹے سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس فن میں بھی ماہر ہوں گے۔ “میں منٹو نہیں ہوں” کے مکالمے کس طرح کے ہوں گے؟ کیا وہ اپنے والد کی طرح کڑوا سچ بولنے کی جرات رکھتے ہیں؟ یا پھر زمانے کے تقاضوں کے مطابق وہ کچھ نرم گوشہ اختیار کریں گے؟
موضوع کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ خلیل الرحمٰن قمر نے اکثر شہری زندگی، بالخصوص upper middle class کے مسائل، رشتوں کی پیچیدگیوں اور خواتین کے جذباتی اتار چڑھاؤ کو موضوع بنایا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے صاحبزادے بھی اسی طبقے کی کہانی بیان کریں، لیکن نئے دور کے نئے مسائل کے ساتھ۔ آج کا نوجوان طبقہ جن مسائل کا شکار ہے – سماجی دباؤ، ذہنی صحت کے مسائل، معاشی عدم تحفظ، رشتوں میں بڑھتی ہوئی دوریاں – ان سب کو نئی ڈرامہ نگاری میں بہتر طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
============

================
ایک امکان یہ بھی ہے کہ وہ اپنے والد کے اسلوب سے ہٹ کر کوئی بالکل نیا تجربہ کریں۔ مثال کے طور پر، خلیل الرحمٰن قمر کے ڈراموں میں مرکزی کردار اکثر مضبوط خواتین ہوتی تھیں۔ ہو سکتا ہے کہ “میں منٹو نہیں ہوں” کا مرکزی محور کوئی مرد کردار ہو جو جدید دور کے تضادات کا شکار ہو۔
نئی نسل اور نئے تقاضے
یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ آج کا ناظر بیس سال پہلے کے ناظر سے یکسر مختلف ہے۔ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے اس دور میں ناظرین کی توجہ کا دورانیہ کم ہو گیا ہے۔ انہیں تیزی سے بدلتی ہوئی کہانیاں، تیز رفتار editing اور non-linear narratives پسند ہیں۔ اے آر وائی ڈیجیٹل جیسا چینل، جو جدید ترین ڈراموں کے لیے مشہور ہے، شاید اسی طرح کے جدید اسلوب کی توقع رکھتا ہوگا۔
==================

=============
لہٰذا، خلیل الرحمٰن قمر کے صاحبزادے کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ وہ اپنے والد کے فن کے تقاضوں اور جدید دور کے ناظرین کی ضروریات کے درمیان توازن کیسے قائم کرتے ہیں۔ کیا وہ روایتی خطیب اسلوب کو اپنائیں گے یا پھر جدید تکنیکوں سے کام لیں گے؟ کیا وہ صرف تفریح پر توجہ دیں گے یا پھر اپنے والد کی طرح سماجی پیغام دینا بھی اپنا فرض سمجھیں گے؟
خودشناسی کا سفر: “میں منٹو نہیں ہوں”
یہ ڈرامہ دراصل نئے ڈرامہ نگار کے خودشناسی کے سفر کی علامت ہے۔ ہر فنکار اپنے آپ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کا اپنا حقیقی آواز کیا ہے۔ یہ عنوان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ڈرامہ نگار اپنے آپ کو دریافت کر رہے ہیں۔ وہ کسی دوسرے کے سانچے میں ڈھلنا نہیں چاہتے، چاہے وہ سانچہ ان کے اپنے والد کا ہی کیوں نہ ہو۔
یہ جدوجہد ہر اس نوجوان فنکار کے لیے متاثر کن ہو سکتی ہے جو کسی بڑے نام کے سائے میں کام کر رہا ہو۔ ڈرامہ کے ذریعے وہ یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ ہر انسان منفرد ہے، ہر فنکار کی اپنی سوچ ہے۔ بزرگوں سے سیکھنا ضروری ہے، لیکن ان کی نقل کرنا نہیں۔ اپنی راہ خود بنانی چاہیے۔
آخر میں
“میں منٹو نہیں ہوں” کا آغاز محض ایک ڈرامے کا آغاز نہیں، بلکہ ایک نئی تخلیقی شخصیت کے عروج کی امید ہے۔ خلیل الرحمٰن قمر کے بیٹے پر پوری قوم کی نظر ہوگی۔ کچھ لوگ ان کی ہر حرکت پر تنقید کریں گے، تو کچھ ان کی ہر کامیابی پر خوش ہوں گے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ خود کو ثابت کریں۔
====================

==========
اگر وہ اپنے والد کی طرح کی جرات، ایمانداری اور گہرائی سے کام لیں گے، اور ساتھ ہی ساتھ جدید دور کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھیں گے، تو یقیناً وہ کامیاب ہوں گے۔ انہیں اپنی الگ پہچان بنانے کے لیے محنت کرنی ہوگی۔ انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ صرف ایک “عظیم ڈرامہ نگار کے بیٹے” نہیں، بلکہ خود ایک “عظیم ڈرامہ نگار” ہیں۔
یہ سفر آسان نہیں ہوگا، لیکن اگر وہ سچے دل سے فن کو خدمت سمجھ کر کام کریں، تو ضرور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔ ہم سب کی یہی دعا ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر کا یہ جوہر قابل فرزند بھی art کے میدان میں اپنا نام روشن کرے اور پاکستانی ڈرامہ صنعت کو نئی بلندیوں تک پہنچائے
پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے شہزادۂ محبت کہلائے جانے والے ہمایوں سعید نے رومانس کے جس تصور کو اپنے کرداروں کے ذریعے سکرین پر زندہ کیا، وہ ان کی پہچان بن گیا۔ انہوں نے محبت کو صرف ایک جذبہ ہی نہیں، بلکہ ایک تہذیب، ایک احترام اور ایک خوبصورت جستجو کے طور پر پیش کیا۔
ہمایوں سعید کی رومانویت میں جذبات کی گہرائی اور شرافت کا امتزاج ہے۔ وہ کبھی بھی محبت کو سطحی یا بھڑکیلے انداز میں پیش نہیں کرتے۔ ان کے کرداروں کی آنکھوں میں خلوص، آواز میں سوز اور باتوں میں ادب ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ‘دل سے’ جیسے ڈرامے کا ان کا کردار آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ انہوں نے ایک ایسا ہیرو متعارف کرایا جو مضبوط بھی ہے اور حساس بھی، جو اپنی محبت کا اظہار بھی کرتا ہے لیکن حدود و آداب کو فراموش نہیں کرتا۔
فلم ‘جنون’ میں ان کا کردار ان کی رومانوی شبیہ کی معراج ہے۔ اس کردار میں دیوانگی کی انتہا کے باوجود وقار اور شرافت برقرار ہے۔ یہی ان کی منفرد پہچان ہے۔ ہمایوں سعید نے اپنے کریئر میں محبت کے ہر پہلو کو چھوا ہے، لیکن ہمیشہ ایک شریفانہ اور پاکیزہ انداز میں۔ وہ نہ صرف اردو speaking world بلکہ پوری subcontinent میں رومانس کے ایک علامتی کردار بن چکے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ محبت کی سب سے خوبصورت شکل وہی ہے جس میں احترام اور خلوص ہو























