یہ بات اُنیس سو سینتالیس کی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہونے والے فسادات کے شعلے ابھی بھڑک رہے تھے، اور لاکھوں افراد کے لیے زندگی ایک نئے سرے سے شروع ہونے کا نام تھا۔ ایسے ہی ایک خاندان نے، جو ہندوستان کے شہر پونے سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا، کراچی کی اس وقت کی کچی آبادیوں میں پناہ لی تھی۔ اس خاندان کے سربراہ تھے دیارام جےٹمل آواڑی۔ ان کا بیٹا، ایک نوجوان بہرام دیارام آواڑی، جو ابھی سولہ برس کا تھا، اپنے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایک ہوٹل میں ملازم ہو گیا۔ اس وقت کسی نے نہیں سوچا ہو گا کہ یہ نوجوان نہ صرف پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری کا ایک ستون بنے گا، بلکہ ایک ایسا نام قائم کرے گا جو کوالٹی، شائستگی اور قومی ترقی کی علامت بن جائے گا۔ بہرام ڈی آواڑی اور ‘آواڑی ہوٹلز’ کی کہانی محض ایک کاروباری کامیابی کی داستان نہیں؛ یہ پاکستان کی خود مختاری کے بعد کی جدوجہد، عزم اور کامیابی کی ایک ایسی مثال ہے جس نے ملک کی معیشت اور ثقافت پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔
شروعات: مشکلات سے نبردآزما ہونے کا عزم
بہرام آواڑی کا خاندان درحقیقت ہندوستان کے صوبے سندھ کے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھتا تھا، لیکن تقسیم سے پہلے وہ پونے میں مقیم تھے۔ ہجرت کے بعد ابتدائی مشکلات نے ان کی ہمت کو توڑا نہیں، بلکہ مضبوط کیا۔ بہرام نے کراچی کے ایک چھوٹے سے ہوٹل ‘بیلاں وِلا’ میں بطور کلرک کام شروع کیا۔ محنت، ایمانداری اور خدمت کے جذبے نے جلد ہی انھیں ممتاز بنا دیا۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انھیں ‘میٹروپول ہوٹل’ کا مینیجر مقرر کیا گیا، جو اس وقت کراچی کے معروف ہوٹلوں میں سے ایک تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان ایک نوزائیدہ مملکت تھی اور کراچی اس کا دارالحکومت۔ شہر میں غیر ملکی سفارت کاروں، تاجروں اور سیاحوں کی آمد شروع ہو چکی تھی، لیکن بین الاقوامی معیار کے رہائشی اور تفریحی اداروں کا شدید فقدان تھا۔ بہرام آواڑی نے اس خلا کو محسوس کیا۔ ان کا خواب پاکستان میں ایک ایسا ہوٹل قائم کرنے کا تھا جو نہ صرف بین الاقوامی معیارات پر پورا اترے بلکہ ملک کی ثقافت اور میزبانی کی روایت کا بھی آئینہ دار ہو۔
پہلا ہوٹل: ‘ہوٹل آواڑی’ کراچی کا قیام
اپنی بچت اور قریبی دوستوں کی مدد سے بہرام آواڑی نے ۱۹۵۸ میں کراچی کے بہترین علاقے فلیٹی بندر روڈ (اب عبداللہ ہارون روڈ) پر ‘ہوٹل آواڑی’ کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک معمولی سی عمارت میں صرف ۱۶ کمروں سے شروع ہوا۔ لیکن بہرام آواڑی کا فلسفہ واضح تھا: “معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔”
انھوں نے ہوٹل میں ایسی سہولیات اور خدمات فراہم کیں جو اس وقت پاکستان میں نایاب تھیں۔ صفائی ستھرائی، کھانے پینے کے معیار، عملے کے پیشہ ورانہ رویے اور مہمانوں کی ذاتی توجہ پر ان کی خصوصی نظر تھی۔ ان کی اہلیہ، محترمہ دیانا آواڑی، نے ہوٹل کے انتظام میں ان کا بھرپور ساتھ دیا اور ہوٹل کی اندرونی سجاوٹ اور کھانے کے معیار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جلد ہی، ‘ہوٹل آواڑی’ غیر ملکیوں اور مقامی اشرافیہ کے لیے کراچی میں رہنے اور کھانے کا پہلا انتخاب بن گیا۔
اس کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ بہرام آواڑی کی قیادت میں کام کرنے والے عملے کا جذبہ تھا۔ وہ اپنے ملازمین کے ساتھ ایک خاندان کے بزرگ کی مانند پیش آتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ خوش اور مطمئن عملہ ہی خوش اور مطمئن مہمانوں کی ضمانت ہے۔ انھوں نے اپنے عملے کو بااختیار بنایا، ان کی تربیت پر سرمایہ کاری کی، اور ان کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کیا۔
توسیع اور عروج: ایک برانڈ کی تخلیق
‘ہوٹل آواڑی’ کراچی کی شہرت نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی مواقع پیدا کیے۔ ۱۹۶۵ میں، ‘لاہور آواڑی’ کا افتتاح ہوا، جو لاہور میں ایک جدید اور شاندار ہوٹل تھا۔ اس کے بعد ‘فیصل آباد آواڑی’ (اس وقت لائل پور) آیا۔ ہر نئے ہوٹل کے ساتھ، آواڑی برانڈ نے اپنے معیار کو بلند رکھا اور پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری میں ایک نئی بلندی متعین کی۔
============

=========================
آواڑی ہوٹلز صرف رہائش ہی فراہم نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ سماجی زندگی کے مرکز بن گئے۔ ان کے ریستوراں، خاص طور پر ‘ہوٹل آواڑی’ کراچی کا ‘ٹوپیوانا’ ریستوراں، شہر کے معاشرتی اور ثقافتی منظر نامے کا ایک اہم حصہ تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سیاست دان، فنکار، دانشور، اور تاجر جمع ہوتے تھے۔ شادیوں، تقریبات اور کاروباری اجلاسوں کے لیے آواڑی ہوٹلز معیاری انتخاب بن گئے۔
بہرام آواڑی نے ہوٹل انڈسٹری سے آگے بڑھ کر دیگر شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کی۔ انھوں نے ‘آواڑی گروپ آف کمپنیز’ کے تحت ٹیکسٹائل، انشورنس، اور ریئل اسٹیٹ جیسے شعبوں میں بھی کامیابی سے قدم جمانا شروع کیے۔ اس طرح آواڑی گروپ پاکستان کی معیشت میں ایک اہم قوت بن کر ابھرا۔
بہرام ڈی آواڑی: انسانیت اور قوم پرستی
بہرام آواڑی کی شخصیت محض ایک کامیاب صنعت کار کی نہیں تھی۔ وہ ایک دوراندیش انسان دوست (فلاحِ انسانیت کے داعی) اور پرخلوص قوم پرست تھے۔ ان کا یہ جملہ ان کی سوچ کو واضح کرتا ہے: “ہم نے پاکستان میں ہر وہ کام کیا ہے جس سے ملک کی ترقی ہوتی ہے۔”
انھوں نے اپنی کامیابی کا سہرا ہمیشہ اپنے عملے، اپنے خاندان اور اس ملک کو دیا جس نے انھیں پناہ دی تھی۔ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی بہت فعال تھے۔ انھوں نے کراچی میں ‘دیانا آواڑی اسکول’ قائم کیا، جو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے مشہور ہے۔ ان کے چیریٹیبل کاموں میں ہمیشہ خاموشی اور انکساری سے کام لیا جاتا تھا۔
ان کی قوم پرستی کا جذبہ اس بات سے عیاں ہے کہ انھوں نے اپنی تمام تر کامیابیوں اور بین الاقوامی تعلقات کے باوجود کبھی بھی پاکستان چھوڑنے کا سوچا تک نہیں۔ وہ اس ملک کے وفادار رہے اور اپنی آخری سانس تک یہیں رہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں پاکستان کی حکومت نے انھیں صدارتی اعزاز ‘تمغہِ قائداعظم’ سے نوازا۔
===================

============
جدید دور میں آواڑی ہوٹلز
بہرام ڈی آواڑی کا انتقال ۲۰۰۳ میں ہوا، لیکن ان کی وراثت ان کے خاندان اور آواڑی گروپ کی صورت میں زندہ ہے۔ آج بھی آواڑی ہوٹلز اپنے بانی کے اصولوں پر کاربند ہیں۔ کراچی، لاہور، اور فیصل آباد میں ان کے ہوٹلز شہر کی پہچان ہیں۔ وقت کے ساتھ، انھوں نے اپنی سہولیات کو جدید سے جدید تر کیا ہے۔ ‘لاہور آواڑی’ میں ‘فوڈ اسٹریٹ’ کا تصور متعارف کرایا گیا ہے، جبکہ ‘کراچی آواڑی’ اپنے شاندار کھانوں اور کنونشن سینٹر کے لیے مشہور ہے۔
بین الاقوامی ہوٹل چینز کے اس دور میں، آواڑی ہوٹلز ایک مقامی برانڈ کے طور پر اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ وہ صرف ایک ہوٹل نہیں، بلکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی جمع ہوا کرتے تھے، جہاں ملکی اور غیر ملکی رہنما ٹھہرے، اور جہاں لاکھوں خاندانوں نے اپنے خوشی کے لمحات منائے۔
خلاصہ
بہرام ڈی آواڑی کی کہانی درحقیقت ‘پاکستان ڈریم’ کی عملی تفسیر ہے۔ ایک مہاجر نوجوان جو ایک چھوٹے سے کلرک کے عہدے سے شروع ہوا اور اپنی محنت، لگن، دیانتداری اور دوراندیشی سے ایک صنعتی سلطنت قائم کی۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اگر عزم ہو اور کام میں ایمانداری ہو تو مشکلات کو فتح کرنا ممکن ہے۔ آواڑی ہوٹلز نہ صرف عمارتیں ہیں، بلکہ وہ بہرام آواڑی کے وژن، ان کے کام کے معیار اور پاکستان سے محبت کے زندہ شاہکار ہیں۔ ان کی کہانی نئی نسل کے لیے یہ پیغام ہے کہ کامیابی کی بلندیاں چھونے کے لیے زمین سے جڑے رہنا اور اپنی اقدار کو قائم رکھنا کتنا ضروری ہے۔ بہرام ڈی آواڑی نے پاکستان کو نہ صرف ایک کامیاب کاروباری گروپ دیا، بلکہ قومی وقار اور خوداعتمادی کا ایک ایسا جذبہ بخشا جو آج بھی زندہ ہے۔























