اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے (یونیسکو) اور یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کی تازہ تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت کے بڑے لسانی نمونوں (ایل ایل ایم) کی تیاری اور ان کے استعمال میں معمولی تبدیلیاں لا کر بغیر معیار پر سمجھوتہ کیے توانائی کی کھپت میں نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگر بھاری وسائل خرچ کرنے والے بڑے ماڈلز کی بجائے چھوٹے، منظم اور مخصوص مقصد والے ماڈلز تیار کیے جائیں تو توانائی کا استعمال 90 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یونیسکو کا مقصد اپنے 194 رکن ممالک کو ایسی ڈیجیٹل پالیسیوں کی تشکیل میں مدد دینا ہے جو نہ صرف توانائی کی بچت کو یقینی بنائیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کو اخلاقی اور پائیدار بھی بنائیں۔
یاد رہے کہ 2021 میں تمام رکن ممالک نے مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال سے متعلق یونیسکو کی سفارشات پر اتفاق کیا تھا، جن میں ماحولیاتی اثرات پر پالیسی سازی کا حصہ بھی شامل ہے۔ اس تازہ رپورٹ میں حکومتوں اور ٹیک کمپنیوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پائیدار تحقیق و ترقی پر سرمایہ لگائیں اور صارفین میں شعور بیدار کریں تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال سے ماحول پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
دنیا بھر میں روزانہ ایک ارب سے زائد افراد مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹولز استعمال کرتے ہیں، جس سے اوسطاً 0.34 واٹ آور فی سرگرمی توانائی خرچ ہوتی ہے۔ اگر سالانہ حساب کیا جائے تو یہ تقریباً 310 گیگا واٹ آور بنتی ہے، جو کسی کم آمدنی والے افریقی ملک میں 30 لاکھ افراد کی سالانہ بجلی کی کھپت کے برابر ہے۔
یو سی ایل کے ماہرین نے اس رپورٹ کے لیے مختلف ماڈلز پر تجربات کیے اور تین اہم اقدامات تجویز کیے جو توانائی کی بچت میں مدد دے سکتے ہیں جبکہ ماڈلز کی کارکردگی پر اثر نہیں پڑے گا۔ تحقیق سے پتا چلا کہ مخصوص کاموں جیسے ترجمہ یا خلاصہ کرنے کے لیے چھوٹے ماڈلز بڑے ماڈلز جتنے ہی مؤثر ہوتے ہیں لیکن کہیں کم توانائی خرچ کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’ماہرین کا مرکب‘‘ جیسے طریقہ کار، جس میں مخصوص ماڈلز ضرورت کے وقت ہی متحرک ہوتے ہیں، توانائی کی لاگت کو مزید کم کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ کوانٹائزیشن جیسی تکنیک ماڈلز کے سائز کو محدود کرتی ہے، جس سے بھی بجلی کی بچت ہوتی ہے جبکہ نتائج کی درستگی برقرار رہتی ہے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کی سہولتیں زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہیں، جس سے عالمی سطح پر عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ آئی ٹی یو کے مطابق افریقہ میں صرف پانچ فیصد لوگ ہی اس شعبے میں ضروری کمپیوٹنگ وسائل تک رسائی رکھتے ہیں۔
ایسے میں کم وسائل والے علاقوں کے لیے چھوٹے ماڈلز اور توانائی کی بچت کرنے والی تکنیکیں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، خاص طور پر وہاں جہاں مسلسل تیز رفتار انٹرنیٹ اور بجلی کی دستیابی مسئلہ ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل زیادہ جامع، مختصر اور ماحول دوست حل اپنانے میں ہے۔























