سفارشات کے بغیر تحقیقی کانفرنس کی افادیت نہیں ،چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن
پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی اور پولیو پر تحقیق کی ضرورت ہے،21ویں بین الاقوامی شماریاتی کانفرنس میں خطاب
کراچی: سندھ ہائر ایجوکیشن کے چیئرمین پروفیسر سید محمد طارق رفیع نے کہا ہے کہ پاکستا ن میں درست اعداد و شمار کی عدم دستیابی سے بیماریوں کے نمونوں تک کی درست عکاسی نہیں ہوتی اس لیے کسی تحقیق کا سوال بھی نہیں پیدا ہوتا ، سفارشات کے بغیر تحقیقی کانفرنس کی کوئی افادیت نہیں، شماریات کے بغیر کوئی تحقیق نہیں کی جاسکتی کیونکہ تحقیق کے لیے ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان میں اس سال کا بھی ڈیٹا دستیاب نہیں ہوگا، ہم بین الاقوامی ممالک سے دستیاب ڈیٹا پر انحصار کرتے ہیں اور ہم اپنی پالیسیوں کو اس ڈیٹا کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہاں انسانی ذہانت موجود ہے کیونکہ مشینیں تو خود انسان کی پیداوار ہیں، مصنوعی ذہانت کبھی ہماری سوچ کو تبدیل نہیں کرسکتی ، انسانوں پر کبھی بھی مشینوں کی حکمرانی نہیں ہوسکتی،یہ باتیں انہوں نے ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس میں “پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے بگ ڈیٹا سائنس اور بگ ڈیٹا کو متحرک کرنے “کے عنوان سے منعقدہ 21ویں بین الاقوامی شماریاتی کانفرنس سے بہ طور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہیں، جس کی میزبانی اسلامک کنٹریز سوسائٹی آف اسٹیٹسٹیکل سائنسز کے سیکریٹری اور سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اشتراک سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور بقائی میڈیکل یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی، کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور کانفرنس کے سرپرستِ اعلیٰ پروفیسر محمد سعید قریشی، بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور کانفرنس کے سرپرستِ اعلیٰ پروفیسر افتخار اے صدیقی، اسلامک کنٹریز سوسائٹی آف اسٹیٹسٹیکل سائنسز کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ظہور احمد، ڈاؤ یونیورسٹی سے کانفرنس چیئرمین پروفیسر کاشف شفیق، بقائی میڈیکل یونیورسٹی سے کانفرنس چیئرمین پروفیسر نذیر خان، پرووائس چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی پروفیسر جہاں آرا حسن، ڈاؤ یونیورسٹی کے بی ایس پبلک ہیلتھ پروگرام کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریہ عاطف، ڈاکٹر سید عبدالرشید شریک ہوئے جبکہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ مہمان اعزازی تھیں،بین الاقوامی کانفرنس میں بنگلہ دیش سے پروفیسر شاہ جہاں خان اور کینیڈا سے پروفیسر سید اعجاز احمد نے شرکت کی، 3 روزہ کانفرنس مجموعی طور پر 21 سیشنز پر مشتمل ہے جس میں قومی و بین الاقوامی ماہرین کےتجربات اور مقالے پیش کیے جائیں گے، کانفرنس کے دو روزہ سیشنز ڈاؤ یونیورسٹی کے اوجھا کیمپس جبکہ آخری سیشن بدھ کے روز بقائی میڈیکل یونیورسٹی میں منعقد ہوگا،21ویں بین الاقوامی کانفرنس آف سٹیٹسٹیکل سائنسز سے خطاب میں پروفیسر سید محمد طارق رفیع نے کہا کہ شماریات ایک مشکل چیز ہے لیکن یہ اتنی اہم ہے کہ آپ شماریات کے بغیر کوئی مقالہ نہیں لکھ سکتے، چیئرمین سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کہا کہ ہم بین الاقوامی ممالک سے دستیاب شدہ ڈیٹا پر انحصار سے ہم اپنی پالیسیوں کو اس ڈیٹا کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں جو کبھی بھی یہاں موجود بیماریوں کے نمونوں اور چیزوں کی عکاسی نہیں کرتا، ڈاکٹر طارق رفیع نے کہا کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے پاس مصنوعی ذہانت ہےلیکن سب کچھ نہیں ہے،تمام مصنوعی چیزیں اصل چیزوں کی پیداوار ہیں، جیسے ہم انسان ہیں، مصنوعی چیزیں کبھی بھی ہماری اصل سوچ کو مٹا نہیں سکتیں، اور وہ کبھی بھی ہمارے خیالات اور سوچ کو نہیں بدل سکتیں، کوئی مشین ان سب چیزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہی، انہوں نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کانفرنسوں کے لیے سپورٹ فراہم کرتا ہے، لیکن ہم یہ دیکھنا چاہ رہے ہیں کہ تحقیق کے کیا اثرات ہوں گے ، انہوں نے کہا کہ کسی بھی تحقیق کا کوئی فائدہ نہیں اگر وہ کوئی اثرات مرتب نہیں کرتیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت خوراک کے تحفظ، موسمیاتی تبدیلی، سیلاب کے اثرات، صحت کا بنیادی تحفظ، پولیو جیسے موضوعات پر تحقیق کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اگر ہم بہت ہائی پروفائل چیزوں کے بارے میں بات کریں اور ان پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو یقیناً یہ ایک اچھی تحقیق ہوگی لیکن کیا اس کا ہمارے ماحول پر، ہمارے ملک پر کوئی اثر پڑے گا؟ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس وقت جتنی رقم، وقت اور محنت صرف کی جائے گی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، انہوں نے کانفرنس کے منتظمین سے درخواست کی کہ وہ کانفرنس کے اختتام پر تجاویز مبنی ایک اعلامیہ تاکہ ان پر عملدرآمد کے لیے حکومت کو بھیجا جاسکے، انہوں نے کہا کہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ کچھ تجاویز پیش کریں ان کے نافذ ہونے کا انتظار نہ کریں، اگر تجاویز نہیں بھیجی جائیں گی تو انہیں حقیقت میں کیسے ڈھالا جائے گا، کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی تحقیق کو آگے بڑھانے، صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے اور شواہد پر مبنی پالیسیوں کی تشکیل میں شماریاتی علوم کے انمول کردار کو تسلیم کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ اب ہم روایتی طریقہ کار اور تبدیلی کی ٹیکنالوجیز کے سنگم پر کھڑے ہیں، یہ ضروری ہے کہ شماریاتی علوم اور مصنوعی ذہانت کے درمیان ہم آہنگی پر بات کی جائے، یہ ایک ایسا شعبہ ہے جو ڈیٹا کے تجزیے اور تشریح کو نئے انداز میں بیان کر رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں شماریاتی سائنس کے ماہرین اپنے تجربات نے زریعے تعاون کو فروغ دینے، اور موجودہ وقت کے پیچیدہ چیلنجز کے جدید حل تلاش کرنے کے لیے موجود ہیں، انہوں نے کہا کہ اعدادوشمار، بہترین تجزیے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، جو ڈیٹا کو منظم اور بامعنی انداز میں سمجھنے کے لیے لائحہ عمل فراہم کرتے ہیں، پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ زیادہ ڈیٹا اور مشین لرننگ کے دور میں شماریات کا کردار نمایاں طور پر واضح ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ بڑے ڈیٹاسیٹس پر کام کرنے اور پیٹرن کی نشاندہی کرنے کی اپنی صلاحیت کے ساتھ اے آئی، بنیادی طور پر شماریاتی ماڈلز پر انحصار کرتا ہے، چاہے شعبہ طب کی پیش گوئی کرنے والے تجزیات پر مبنی الگورتھم ہو، صحت عامہ میں وسائل کی تخصیص کو بہتر بنانا ہو، یا یہاں تک کہ ادویات کی تیاری کے عمل کو بڑھانا ہو، شماریات اور اے آئی کے امتزاج نے نیا افق روشن کیا ہے،انہوں نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، صحت کی دیکھ بھال کے اہم چیلنجز یعنی بیماری کے پھیلنے کی پیش گوئی سے لے کر علاج کی حکمت عملیوں کو مرتب کرنا، مریضوں اور کمیونٹیز کے لیے بہتر نتائج کو یقینی بنانے کے لیے اس جدید پیشرفت سے استفادے کی خواہاں ، ان کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف اے آئی اینڈ انوویٹو ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے ، اسلامک کنٹریز سوسائٹی آف اسٹیٹسٹیکل سائنسز(آئی ایس او ایس ایس) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ظہور احمد نے کانفرنس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد شماریاتی سائنس کو فروغ دینا، تحقیق کی حوصلہ افزائی کرنا، تعاون کے مواقع فراہم کرنا، پیشہ ورانہ ترقی، علم کا فروغ ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں شماریات کی 20 جبکہ مختلف اسلامی ممالک میں 15 کانفرنس منعقد کی جاچکی ہیں، کانفرنس کے پہلے سیشن میں بنگلہ دیش کے ڈاکٹر شاہ جہاں خان نے میٹا اینالسز میں شماریاتی ماڈلز اور ہیلتھ سائنسز میں ان پر اطلاق سے متعلق گفتگو کی، کینیڈا کے ڈاکٹر سید اعجاز احمد نے ہائی ڈائمینشنل پریڈیکٹو ماڈلنگ میں مشین لرننگ اور شماریاتی حکمت عملیوں پر بات چیت کی، دوسرے سیشن میں ایران سے ڈاکٹر محمد اراشی اور کینیڈا سے ڈاکٹر خرم ندیم آن لائن شریک ہوئے، قبل ازیں افتتاحی تقریب میں وائس چانسلرز اور مہمان خصوصی کو شیلڈز جبکہ بین الاقوامی ماہرین کو تحائف دیے گئے، علاوہ ازیں ہر سیشن میں شریک مقررین کو سرٹیفیکٹس بھی پیش کیے گئے۔
Load/Hide Comments