یونیورسٹیوں کی خود مختاری متاثر ہونے کا خدشہ
سندھ حکومت کے یہ فیصلے سرکاری یونیورسٹیوں کی ہیت کو تبدیل کر دیں گے۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان
December 11, 2024
سندھ کابینہ نے اب یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرزکی تقرری کے ضابطے میں تبدیلی کی منظوری دیدی ہے۔ حکومت سندھ کے ایک فیصلے کے مطابق وائس چانسلر کے لیے اہلیت متعلقہ شعبہ میں ماسٹر ڈگری کے ساتھ مکمل پروفیسر شپ کے علاوہ گریڈ 21 کا بیوروکریٹ بھی وائس چانسلر بننے کا اہل ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اب غیر تدریسی عملے کے علاوہ ٹیچرزکا تقرر بھی کنٹریکٹ کا بنیاد پر ہوگا۔ سندھ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ تعلیمی بورڈز کے مسائل حل کرنے کے لیے سندھ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آرڈیننس میں ترمیم کی جائے گی۔ اب بورڈ کے چیئرمین بھی بیوروکریٹ ہوںگے۔
سندھ حکومت کے یہ فیصلے سرکاری یونیورسٹیوں کی ہیت کو تبدیل کر دیں گے۔ جدید تعلیمی نظام میں تعلیم کے مختلف مدارج میں جدید نظام میں پہلا مرحلہ اسکول کی تعلیم کا ہے۔ اسکول میں بچے کی شخصیت بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ بچہ بنیادی چیزیں سیکھتا ہے۔ اسکول میں استاد اس کا آئیڈیل ہوتا ہے، پھرکتابیں شامل ہوجاتی ہیں اور بچے کو زبانوں کے علم کے ساتھ لکھنا اور پڑھنا آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسکول کا استاد بچے پر جسمانی تشدد کرنے کا حق رکھتا تھا مگر تعلیم پر ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کا تصور آیا اور پھر بچے کو سوال کا حق بھی مل گیا۔
بچہ میٹرک کرنے کے بعد کالج میں جاتا ہے۔ کالج میں خاصا آزادانہ ماحول ہوتا ہے۔ اب بچہ کو خاصی آزادی ملتی ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی تنظیمی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے کلاس کا نمایندہ CR بننے کا موقع ملتا ہے۔ کچھ اسکولوں میں مختلف نوعیت کی سوسائٹیاں بھی قائم ہوتی ہیں۔ ایک زمانے میں جب طلبہ یونین کا ادارہ موجود تھا تو طالب علم جمہوری رویے سے آشنا ہوتا تھا۔ مختلف طلبہ تنظیموں سے بھی اس کا واسطہ پڑتا ہے مگر اسکول اور کالج میں ابھی طلبہ کو تحقیق کا موقع نہیں ملتا مگر برطانوی نظام تعلیم O لیول اور A لیول میں نصاب جدید سائنسی بنیادوں پر مرتب کیا جاتا ہے، اس بناء پر طلبہ کو مختلف موضوعات پر تحقیق کا موقع ملتا ہے۔
دنیا بھر میں یونیورسٹی کا تصور مختلف ہے۔ یونیورسٹی کے بنیادی فرائض میں تدریس کے علاوہ تحقیق بھی شامل ہے۔ یہ تصورکیا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ ایک کھلے ماحول میں ہر موضوع پر تحقیق کریں گے اور تحقیق کے ذریعے معاشرے اور ریاست کو نئے نظریات سے آگاہ کریں گے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ طالب علموں کے لیے نصاب بھی خود تیار کریں گے اور وقت کے ساتھ اس نصاب میں تبدیلی کی جائے گی۔
اساتذہ اور طلبہ یونیورسٹی کے اداروں میں شامل ہو کر اس کا نظام چلائیں گے۔ اسی بناء پر یونیورسٹی کو مکمل خود مختاری دی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کے بنیادی ادارے اساتذہ اور طلبہ کے لیے قوانین بھی تیارکریں گے۔ اس سارے عمل کو علمی آزادی Academic Freedom کہا جاتا ہے۔ یورپ کی قدیم یونیورسٹیاں آج بھی علمی آزادی کے ادارے کی بناء پر دنیا بھر میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق پر اربوں روپے خرچ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبی سائنس میں ہونے والی تحقیق کی راہ پر نئی دوائیاں ایجاد ہوتی ہیں۔ معاشیات میں ہونے والی تحقیق سے عام آدمی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ صدی میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کا رجحان نہیں تھا۔ ایم اے اور ایم ایس سی میں کسی موضوع پر تحقیق کو اضافی مضمون کا درجہ حاصل تھا اور محدود پیمانے پر ایم فل اور پی ایچ ڈی ہوتا تھا۔ طبی سائنس اور انجنیئرنگ یونیورسٹیوں میں تو تحقیق ہوتی نہیں تھی۔ یہ یونیورسٹیاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے اپنے اساتذہ کو امریکا اور یورپی ممالک میں بھیجتی تھیں۔ صرف چند نوجوان اپنے خرچ پر یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں میں تحقیق کرتے تھے مگر نئی صدی کے آغاز کے ساتھ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
اب یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC وجود میں آیا۔ ایچ ای سی نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں نافذ نئے کورس رائج کیے اور بی ایس کی سطح سے تحقیق کا مضمون تدریس میں شامل ہوا اور پہلے سمسٹر سے تحقیق لازمی حیثیت اختیارکرگئی، یوں ایم ایس اور پی ایچ ڈی یونیورسٹی اساتذہ کے لیے لازمی قرار پائے۔ ایچ ای سی بہت سی وجوہات کی بناء پر تحقیق کے لیے ویسے فنڈز فراہم نہیں کرسکتا جیسے فنڈز بھارت، جاپان، یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں کے پاس ہوتے ہیں۔ ریاستی بحرانات کی بناء پر یونیورسٹی کو ملنے والی گرانٹ کم ہوئی۔
ایچ ای سی کے سربراہوں نے یہ بیانیہ اختیارکیا کہ یونیورسٹیاں مالیاتی خود مختاری کے لیے فیسوں میں اضافہ کریں۔ اس صورتحال میں فی کورس کی فیس میں کئی گناہ اور بعض مضامین کی فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔ تعلیمی آڈٹ نہ ہونے کی بناء پر غیر معیاری پی ایچ ڈی کے تھیسز بھی سامنے آئے۔ اس کے ساتھ ہی علمی سرقہ نویسی Plagiarism کا رجحان بھی تقویت پاگیا مگر مجموعی طور پر پاکستان کی یونیورسٹیاں ایک جدید دور میں داخل ہوئیں۔
یونیورسٹی کے مسائل کو سمجھنے اور معیارِ تعلیم کو بلند کرنے اور دنیا بھر میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے نئے رجحانات کو پاکستان یونیورسٹیوں میں رائج کرنے کا فریضہ وہی شخص بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے جو یونیورسٹی کلچر میں ابھرکر سامنے آیا ہو اور خود تحقیق کی ہو، وہ شخص صرف پروفیسر ہوسکتا ہے، وہ طلبہ کے رجحانات سے واقف ہوتا ہے اور ان کے مسائل کا حل نکالتا ہے۔
اچھے وائس چانسلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود بڑا محقق ہو، انتظامی تجربہ ہو اور طلبہ کی نفسیات کو سمجھتا ہو۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بہت سے اساتذہ وائس چانسلر گزرے ہیں جنھوں نے یونیورسٹی میں بڑے بڑے بحرانوں کا حل بغیر کسی امتناعی اقدام کے کیا۔ جب ایک بیوروکریٹ وائس چانسلر تعینات ہوگا تو وہ علمی معاملات سے نابلد ہوگا مگر ان پر فیصلے کرے گا۔ ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے تھیسز اور تحقیق کے لیے موضوعات کے بارے میں فیصلے کا تنہا مجاز ہوگا۔ یوں بیوروکریٹ وائس چانسلرکے لیے طلبہ اور اساتذہ کی علمی آزادی کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
ایک بیوروکریٹ کے پاس طلبہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے سے نمٹنے کا صرف انتظامی راستہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے علمی ادارے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی جس سے یونیورسٹی میں علمی آزادی کو سخت نقصان ہوگا۔ اساتذہ کو کنٹریکٹ پر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ استاد ہر وقت اپنے افسران کی تابعداری پر مجبور ہوگا۔ ایک زمانے میں چیئرمین اور ڈین مستقل ہوتے تھے، جونیئر اساتذہ کے ساتھ ان کا رویہ ڈکٹیٹرکا ہوتا تھا۔ اس وقت اساتذہ دس، دس سال تک ایڈہاک بنیادوں پرکام کرنے پر مجبور ہوتے تھے اور جو استاد اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا تھا تو وہ ملازمت سے فارغ کردیا جاتا تھا۔
ناتجربہ کار بیوروکریٹ چارج سنبھالیں گے تو وہاں پر بھی صورتحال خراب ہوگی۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو یونیورسٹی کے اس قانون میں تبدیلی کردی جو پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت حکومت نے سنڈیکیٹ سے رجسٹرار اور ڈائریکٹر فنانس کے تقررکا اختیار چھین لیا گیا۔ اس ترمیم سے وائس چانسلر بے اختیار ہوئے مگر جب اساتذہ نے احتجاج کیا تو حکومت نے ترمیم تو واپس نہ لی مگر کراچی یونیورسٹی میں اور سندھ یونیورسٹی کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا تھا البتہ دیگر یونیورسٹیوں میں یہ قانون نافذ ہوگیا۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کی اساتذہ یونین کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ ’’ جامعات کے وائس چانسلرز کے عہدے کے لیے غیر پی ایچ ڈی افراد کی تقرری نہ صرف تعلیمی اداروں کے ساتھ ناانصافی اور غیر اخلاقی ہوگی بلکہ یہ پاکستانی جامعات میں تعلیمی معیار میں مزید گراؤٹ کا سبب بنے گی۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی روایات اور اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہوگا۔‘‘
دنیا بھر میں یونیورسٹی کی سربراہی تعلیم و تحقیق میں ممتاز مقام رکھنے والے افراد کے سپرد کی جاتی ہے، اگرچہ حکومتی وزراء اس فیصلے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر رضا ربانی نے اس ترمیم کو مسترد کردیا ہے۔ حکومت کو یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر حملہ کرنے کے بجائے یونیورسٹیوں کے انتظامی اور مالیاتی بحران کے حل کے لیے مدد کرنی چاہیے۔
https://www.express.pk/story/2737340/universities-ki-khud-mukhtari-mutasir-hone-ka-khadsha-2737340
================================
جامعہ کراچی: کلیہ معارف اسلامیہ کے زیر اہتمام سیمینار بعنوان”اسلام میں عورت کا مقام“
مغرب انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود خواتین کو آج تک وہ مقام اورحقوق نہیں دے سکا جو حقو ق اور مقام اسلام نے عورت کودیاہے۔اکٹر سید افضال عباس مہدی الشامی
عراق سے آئے ہوئے مقررڈاکٹر سید افضال عباس مہدی الشامی نے کہا کہ مغرب انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود خواتین کو آج تک وہ مقام اورحقوق نہیں دے سکا جو حقو ق اور مقام اسلام نے عورت کودیاہے۔دین اسلام کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ اس نے عورت اور کنبے کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے جبکہ مغرب میں اس کے برعکس ہوتاہے اور وہاں پر خواتین کو خودکمانا پڑتاہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی کے زیر اہتمام خاتون جنت حضرت فاطمتہ زہراؓ کے یوم ولادت کے موقع پر چائنیزٹیچرزمیموریل آڈیٹوریم جامعہ کراچی میں منعقدہ سیمینار بعنوان: ”اسلام میں عورت کا مقام“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر سید افضال عباس مہدی الشامی نے مزید کہا کہ اسلام میں عورت کو ایک خاص مقام،عزت ومرتبہ حاصل اور عورت کو دنیا میں آنے کے بعد مرتے دم تک عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے جبکہ مغرب میں زندگی کے آخری مراحل میں عورت کو تنہااور بے یارومددگارچھوڑدیاجاتاہے۔انہوں نے اتنے اہم موضوع پر سیمینا رکے انعقاد پر رئیس کلیہ معارف اسلامیہ اور ان کی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔
سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل واسسٹنٹ پروفیسرشعبہ اسلامک لرننگ جامعہ کراچی ڈاکٹر عمیر محمودصدیقی نے کہا کہ اگرکسی بھی اعتبارسے اہل جنت میں سے خواتین کی کوئی صفات بیان ہوئیں ہیں یا اہل ایمان اور اہل اسلام میں ان عظیم المرتبت عورتوں کی صفات بیان ہورہی ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت اور مغفرت کو تیارکررکھاہے ان سب کی سیدہ اور امام حضرت فاطمتہ الزہراؓ کی ذات اقدس ہے۔حضرت فاطمتہ الزہراؓ کوریفرنس بنایاجائے تو حقیقی طورپر ہم خواتین کا درست اور صحیح مقام جو اسلام نے عطاکیاہے اس کو جان سکتے ہیں۔
رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ اسلام نے عورت کو تمام حقوق دیئے ہیں البتہ مغرب میں خواتین کے حقوق کا پیمانہ الگ ہے جبکہ ہماراپیمانہ الگ ہے اس بات کو ہمیں ماننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ہم سب خواتین کے لئے یہ ایک بہت بڑی اعزاز کی بات ہے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون حضرت خدیجہ ؓ تھیں۔
کلیہ معارف اسلامیہ کی پی ایچ ڈی اسکالر سیدہ ثروت زہرہ زیدی نے کہا کہ حضرت فاطمتہ الزہراؓکی سیرت و کردار خواتین عالم کے لئے مشعلِ راہ اور ہدایت کا مرکز ہے۔ اپنی خاندانی زندگی کو باطریق احسن نبھانے کے ساتھ ساتھ اجتماعی معاملات میں بھی آپ کا کردار و گفتار مشعل راہ ہے۔
رئیس کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر زاہد علی زاہدی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے سیمینار کے اغراض ومقاصدپر روشنی ڈالی اور سیمینار کے اختتام پر تمام مہمانوں اور مقررین کا شکریہ اداکیا۔سیمینار کے اختتام پر شیخ صلاح علوان کربلائی نے دعاکرائی۔
==========================
جامعہ کراچی: میزان بینک پرائیوٹ لیمٹڈ کے اشتراک سے ریکروٹمنٹ ڈرائیو کا انعقاد
جامعہ کراچی کے پانچ شعبہ جات کے 175 طلباوطالبات کے انٹرویوز
جامعہ کراچی کے آفس آف ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن اور پرائم منسٹر یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹر کے زیر اہتمام اور میزان بینک پرائیویٹ لیمٹڈ کے اشتراک سے منگل کو کراچی یونیورسٹی بزنس انکیوبیشن سینٹر میں ایک روزہ ریکروٹمنٹ ڈرائیو کا انعقاد کیا گیاجس میں کراچی یونیورسٹی بزنس اسکول،پبلک ایڈمنسٹریشن،کامرس،ریاضی اور شعبہ شماریات کے طلبہ اور فریش گریجویٹس کے انٹرویوزپرسنل بینکنگ آفیسراور مینجمنٹ ٹرینی آفیسرکی آسامیوں کے لئے کئے گئے۔ریجنل مینجرز سید وقاص اعزاز، احمد فرحان خان، سروش احمد خان، اور محمد حسن ساقرنی نے پانچ شعبہ جات کے تقریباً 175 طلباوطالبات کے انٹرویوزکئے۔
طلباء نے اسلامی بینکنگ کے رجحان کے فروغ کو خوش آئند اوردوران تدریس اس طرح کی ڈرائیوکے انعقاد کوحصول ملازمت کا بہترین ذریعہ قراردیا۔تقریب میں رئیس کلیہ نظمیات وانتظامی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر زعیمہ اسرارمحی الدین،شعبہ پبلک ایڈمنسٹریشن کی چیئر پرسن پروفیسرڈاکٹر صائمہ اختر،چیئر مین کراچی یونیورسٹی بزنس اسکول ڈاکٹر شیخ محمد فخر عالم صدیقی،چیئرمین شعبہ ریاضی ڈاکٹر نجیب عالم خان،نچارج شعبہ شماریات رافعہ شفیع اورڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی ڈاکٹر سیدہ حورالعین اور ان کا عملہ بھی موجودتھا۔
میزان بینک کے کراچی نارتھ ریجن کے ریجنل ویلتھ منیجر سید وقاص اعجاز نے سیشن کی قیادت کی اور ملک میں اسلامی بینکاری کے فروغ میں شریعت کی تعمیل، اسلامی بینکاری اور میزان بینک کے کردار کی اہمیت کو بیان کیا۔اس موقع پررئیس کلیہ نظمیات وانتظامی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر زعیمہ اسرارمحی الدین اور ڈائریکٹر آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی ڈاکٹر سیدہ حورالعین نے بھی خطاب کیا۔
==========================
ونیورسٹی آف گوادر نے انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ (IIRMR) کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر دستخط کر لیا.
یو جی پی آر
یونیورسٹی آف گوادر اور انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ نے بلوچستان میں تحقیق، تعلیمی تبادلے، اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے تعاون پر مبنی ایک مفاہمتی یاداشت (MoU) پر سی پیک اسٹڈی سنٹر کے کانفرنس روم میں دستخط کیے ہیں۔
یہ تقریب گوادر یونیورسٹی کے سی پیک اسٹڈی سینٹر کے کانفرنس روم میں منعقد ہوئی، جہاں یونیورسٹی آف گوادر کے پرو وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر منظور احمد اور انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے صدر یاسر حبیب خان نے یادداشت پر دستخط کیے۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس رحمت اللہ، ڈائریکٹر اوورک محمد ارشاد، پبلک ریلیشن آفیسر نصیر احمد، اور دیگر انتظامی عہدیدار بھی موجود تھے۔
یہ شراکت اقتصادی ترقی، سماجی و ثقافتی مسائل، چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC)، اور گوادر پورٹ جیسے کلیدی شعبوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ دونوں ادارے علاقائی مسائل کے حل اور تعلیمی جدت کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
یہ معاہدہ علاقائی ترقی اور عالمی سطح پر علمی تعاون کے مشترکہ وژن کو اجاگر کرتا ہے۔