آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے چوتھے روز ”اردو فکشن“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا

رپورٹ – اشرف بھٹی

خبر نمبر1

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے چوتھے روز ”اردو فکشن“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آخری روز چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی میں پہلا اجلاس ”اردو فکشن“ کے عنوان سے آڈیٹوریم I میں منعقد کیا گیا جس کی صدارت اسدمحمد خاں نے کی جبکہ نظامت کے فرائض عرفان جاوید نے ادا کیے۔ شرکائے گفتگو میں سینئر صحافی انورسن رائے، حفیظ خان، حمید شاہد، اخلاق احمد، کاشف رضا، اقبال خورشیدشامل تھے۔ خطبہ صدارت میں اسد محمد خاں نے کہا کہ ریڈیو کے لیے بہت کہانیاں لکھیں، کمرشل لکھے، دوستوں کے کہنے پر ناول لکھنا شروع کیا ۔ آرٹس کونسل اوراحمدشاہ کاشکریہ جنھوں نے ادب کی نئی دنیا بسائی اور اتنی عزت دی ۔ انور سن رائے نے بھی اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ آصف فرخی ،شوکت صدیقی، عثمان و دیگر نے کراچی کو اپنا موضوع بنایا اور کراچی کی راتوں کا ذکر بھی اپنے افسانوںمیں کیا۔ ابن صفی نے تخلیاتی دنیا کو حقیقت کا روپ دیا، عمران سیریز چند گھنٹوںمیں فروخت ہوجاتی تھی۔ حفیظ خان نے کہا کہ خالد اختر نے ریڈیوکے لیے فیچر یا ڈرامے لکھنے سے انکار کیا ۔ خالد اختر کا مزاج جو وہ لکھتے تھے اس سے الگ تھا۔ خالد اختر نے تین سال کراچی میں قیام کیا جس میں انہوں نے مشہور ناول چاکیواڑہ میں وصال تحریر کیا جو کراچی کے کرداروں اور کراچی شہر کے بارے میں تھا۔ خالد اخترنے کہانیوں ،فکا ہوں، خاکوں کی لاتعداد ان کے مشہور ناولوںمیں ابن جبیر کا سفر لالٹین، چاکیواڑہ کا وصال، یاترا،کھویا ہوا افق شامل ہیں۔ حمید شاہد نے کہا کہ اردو فکشن کے باب میں تبدیلی پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں ہوئی جب پورے برصغیر سے ادیب و دانشور کراچی آئے۔ کراچی کے پھیلاﺅ کو سمندر بھی نہ روک سکا۔ انہوں نے قرة العین حیدر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ قرة العین حیدر کا نام اردو فکشن میں سب سے بڑا ہے ۔ ان کا مشہورناول ”آگ کا دریا“ قارئین کو آج بھی اپنے سحر میں مبتلا کردیتا ہے۔ قرة العین نے ناول میں کراچی اور تقسیم ہند کے واقعات کا ذکر کیا۔ انہوں نے کبھی عورت ہونے کو کمزور ی نہیں بننے دیا، اپنی الگ شناخت بنائی۔ اردو ناول پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اخلاق احمد نے ابن صفی کے بارے میں کہا کہ ابن صفی نے دوسوپچاس سے زائد ناول لکھے ابن صفی کی عمران سیریز سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔ کراچی میں ریگل چوک پر قارئین کی قطاریں لگی ہوتی تھیں۔ لائبریریوںمیں عمران سیریز پہلے پڑھنے کے لئے قارئین کا آپس میں جھگڑا ہوتا تھا۔ ابن صفی صرف رائٹر نہیں بلکہ ایک مینٹور تھے جنہوں نے ہزاروں نئے لکھنے والے پیدا کیے۔ انہوں نے اردو زبان کو فروغ دیا۔ دل موہ لینا والا فکشن ایجاد کیا۔ کوئی بھی ناول نگار ابن صفی کے تخلیقی کردار دوبارہ نہیں لکھ سکا۔ کاشف رضا نے کہا کہ کراچی کی تاریخ خالد اختر،شوکت صدیقی، صغیر ملال، آصف فرخی و دیگر نے ناولوں میں بیان کی۔ خالد اختر کی فکشن کہانیوں میں چچا بھتیجے کا جو مکالمہ پیش کیا گیا ہے وہ چاکیواڑہ اور صدر کے ہوٹلوں پر بیٹھے افراد کی گفتگو ہے۔ غازی صلاح الدین نے بھی ساٹھ کی دہائی میں ناول لکھے جن کے کردار کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ آصف فرخی نے سمندرکی چوری ناول میں شہر قائد کے ساحل کا ذکر کیا۔ اقبال خورشید نے شوکت صدیقی کے بارے میں کہا کہ شوکت صدیقی کا ناول ”خدا کی بستی“ 30 زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہوچکا ہے اور اس کا ایڈیشن 70 بار شائع ہوچکا ہے۔ آج بھی ناول ”خدا کی بستی“ اپنے پڑھنے والوں پر شہرکراچی ساٹھ کی دہائی میں لے جاتا ہے۔ خدا کی بستی ناول ڈرامے کی شکل میں بھی پی ٹی وی سے پیش کیا جاچکا ہے جو بے حدمقبول ہوا۔
=================================
خبر نمبر2

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے چوتھے روز ”ترقی پسند تحریک اور کراچی“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔ جشن کراچی کے چوتھے روز ”ترقی پسند تحریک اور کراچی“ کے عنوان سے سیشن منعقد کیا گیا جس کی نظامت ڈاکٹر جعفر احمد نے کی ۔شرکائے گفتگو میں حارث خلیق، ناظر محمود، جامی چانڈیو اور حوری نورانی شامل تھے۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے کہاکہ 1936 ءمیں انجمن ترقی پسند مصنفین قائم ہوئی جس کا مقصد ترقی پسند ادب کو فروغ دینا تھا، ترقی پسند ادب کامقصد زندگی کو تلاش کرنا اور ہموار کرنا تھا،ہمیں کونٹینٹ کو دیکھنا چاہیے ناں کہ لکھنے والے کو۔ ترقی پسند مصنفین نے پاکستان میں خاص طور پرکراچی میں مزدور تحریکوںمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1986 ءمیں کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی گولڈن جوبلی تقریب منعقد کی گئی جس میں ترقی پسند ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا۔ حوری نورانی نے کہا کہ ترقی پسند ادب شائع کرنے پر مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہماری شائع کی گئی کتابیں ضبط کرلی گئیں مگر ترقی پسند ادب شائع کرنا نہیں چھوڑا ۔ افتخار عارف ،شیخ ایاز، فہمیدہ ریا ض، ابراہیم جلیس ، سلمان حیدر و دیگر کی کتابیں شائع کیں۔ ناظر محمود نے کہا کہ کراچی میں ترقی پسند ادیبوں نے تحریک کا آغاز کیا ترقی پسند ادب نے وسائل کی منصفانہ تقسیم ضروری ہے اورجمہوریت پر یقین رکھنا اور اس کو قائم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہم عادلانہ اور مساویانہ نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی میں چھ سے زائد زبانوں میں رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ 1980 ءکی دہائی میں ترقی پسند تحریک نے جمہوریت کی بحالی اور ایم آرڈی کی مہم میں اہم کردار ادا کیا ۔حارث خلیق نے کہا کہ میری پیدائش کراچی کی ہے ،کراچی میں ہی بچپن گزارا، سبط حسن کی تحریریں پڑھ کر لکھنا سیکھا ۔1980 ءمیں ارتکاءرسالہ شائع ہونا شروع ہوا جس میں ترقی پسند تحریک میں اہم کردار ادا کیا۔ ارتکاءمیگزین بعد میں ارتکا ءانسٹیٹیوٹ بن گیا۔ارتکا ءانسٹیٹیوٹ نے ترقی پسند مصنفین اور ینگ رائٹرز کے لئے مختلف کورسز اور ورکشاپ منعقد کئے۔ارتکا ءمیگزین جوش نمبر ،کرشن چندر نمبر، فیض نمبر و دیگر اہم نمبر شائع کئے۔ جو بہت مقبول ہوئے۔ جامی چانڈیو نے کہا کہ جب سے ادب تخلیق ہوا ہے ترقی پسند تحریک جاری ہے ۔ پاکستان کی تقسیم سے پہلے سندھی ادب میں کام ہورہا تھا، ترقی پسند شاعری و ادب سندھی زبان میں شائع ہوتارہا ہے۔ 1920ءمیں شکار پور سے سندھی میں رسالے نکلتے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ نے سندھی کے ساتھ اردو میں بھی کہانیاں لکھیں۔ روشن خیالی اور ترقی پسندی میں بہت فرق ہے۔ ترقی پسند ادب کا مزاج ہے کہ ایک متبادل دنیا تخلیق کی جائے۔
=================================
خبر نمبر ۔ 4

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے آخری روز” ہاتھیوں کی لڑائی “ کے عنوان پر اجلاس کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے آخری روز ” ہاتھیوں کی لڑائی“ کے عنوان سے اجلاس کا انعقاد آڈیٹوریم I میں کیاگیا، اجلاس کے مہمان خصوصی مشہور سینئر صحافی سہیل وڑائچ اور مظہر عباس تھے ، نظامت کے فرائض عاصمہ شیرازی نے انجام دیے۔ یہ اجلاس در اصل کتابوں کی رونمائی کا حصہ تھا جس میں سہیل وڑائچ کی کتاب “ہاتھیوں کی لڑائی” لب کشائی کی گئی۔ ان کی اس کتاب میں 2020 سے لے کر 2023 تک کے وہ تمام کالمز شامل ہیں جس میں انہوں نے سیاسی، جمہوری اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق بڑے فن سے تمام حقائق درج کیے ہیں۔ اس دوران عاصمہ شیرازی نے سہیل وڑائچ سے سوال کیا کہ اس کتاب میں ہاتھی سے مراد کون ہے؟ اس پر سہیل وڑائچ نے جواب دیا کہ انہوں نے اپنی کتاب کو ہاتھیوں سے اس لیے تشبیہ دیا کہ ہاتھی ایک بھاری جانور ہے اور جہاں بھی ہاتھیوں کی لڑائی ہوتی ہے وہاں سبزہ تباہ ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی پاکستان کی زمین سرسبز ہے لہٰذا یہاں کی ہاتھیوں کی لڑائی میں بھی سبزہ ہی تباہ ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کام لکھا جاتا ہے تو عقل و فہم اور اپنی معلومات کے مطابق لکھا جاتا ہے میں بھی اسی بنیاد پر کالمز لکھتا ہوں۔انہوں نے بتایا کہ جب کالم میں لکھا کہ لگتا ہے :وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مقدمہ ہوگا اور وہ گرفتار کیے جاسکتے ہیں‘ اتفاق سے دو روز بعد ہی ان سے ملاقات ہوئی اور نواز شریف کہنے لگے ایسا آپ نے اپنے کالم میں کیوں لکھا ایسا تو کچھ نہیں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی سب ٹھیک ہے۔ جب کہ چند روز بعد ہی جو لکھا تھا وہ سچ ہوگیا’۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہاں کمپنی کے بارے میں بھی لکھنے کا بتایا جس پر عمران خان نے اعتراض کیا اور کہا سب ایک پیج پر ہیں مگر پھر وہی ہوگیا جو انہوں نے لکھا تھا۔ ان سب کے بعد ہاتھیوں کے بارے میں لکھا اور وہی ہوتا جارہا ہے، میڈیا کے ہاتھی سے متعلق جب مظہر عباس سے پوچھا گیا تو انہوں کہا کہ صحافی کا کام ہوتا ہے خبر ڈھونڈنا، نکالنا اسی لیے خبر میں تجزیہ نہیں ہوتا کیونکہ تجزیے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہوتا وہ ایک رائے ہوتی ہے۔ جب کہ اگر کالم کی بات کی جائے تو کالم پوری صفائی، مخلصی اور ایمانداری سے لکھا جاتا ہے جس کا اثر صرف ایک دن کا نہیں ہوتا وہ تاریخ کا حصہ بھی بن جاتا ہے۔ تاہم سہیل وڑائچ کی کتاب میں اصل میں ایک ہاتھی طاقتور ہے اور دوسرا ہاتھی اسے چیلنج کر رہا ہے۔ سہیل وڑائچ صاحب کا کہنا تھا انہیں بھی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ ابھی ان کے بارے میں کیا کہہ رہے کیونکہ انہیں بھی تاریخ کا حصہ بننا ہے، اسی پر مظہر عباس کا کہنا تھا کہ میرا آپ کا اور ہم سب کا کام ہے کہ نوجوان نسل کو سیاسی سمت دی جائے کیونکہ اگر انہیں نہیں دی گئی تو وہ انتہا پسندی اور شدت پسندی اور فنڈلزم کی طرف چلے جائیں گے، اس کی مثال حالیہ انتخابات سے ملتی ہے، جامعات میں سیاسی شعور سے دور رکھنے کے لیے طلبہ یونین پر پابندی لگائی لیکن انتخابات میں وہ اپنا حق استعمال کرنے کے لیے نکلے، انہوں نے سیاسی شعور اور جمہوری معاشرے کی اہمیت پر خوب روشنی ڈالی، سہیل وڑائچ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ کمپنی زیادہ دیر تک نہیں چلے گی، لڑائی میں دم بچے گی نہ ہی کچھ اور مگر شعور کا سفر آگے بڑھ رہا ہے اور دکھاتا ہے کہ میں نا امید نہ ہوں اور امید رکھوں کہ پاکستان میں بھی فلاحی اور جمہوری معاشرہ ضرور بنے گا۔
==========================
خبر نمبر ۔5

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی2024ءکے آخری روز ”اردو فارسی کے رنگ“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی2024ءکے آخری روز ”اردو فارسی کے رنگ“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم II میں کیا گیا۔ جس کی نظامت فاطمہ حسن نے کی جبکہ ڈاکٹر تقی عابدی اور ڈاکٹر وفایزداں منش شرکائے گفتگو تھے۔ سیشن کے آغاز میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کا کہنا تھا کہ عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی میں ہر جانب اردو ادب کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر فارسی اسکالر ڈاکٹر وفایزداں منش کا کہنا تھا کہ اردو کے لیے میری خدمت پرانی ہے جبکہ میں نے فارسی ادب کو اردو میں متعارف بھی کروایا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی متعدد زبانوں کے ادب سے متعلق ایران میں بہت کام ہورہا ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے کہا کہ اردو برصغیر کی پیداوار ہے جبکہ چار سو سال تک فارسی نے مغلوں کے محلوں میں راج کیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اردو اور فارسی کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن فارسی قدیم زبان ہے اور قومی شاعر علامہ اقبال کو سمجھنے کے لیے فارسی کو جاننا ضروری ہے۔ انھوں نے ڈاکٹر وفا یزداں منش کی فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب ”حکایت وفا در پاکستان“ پر ان کی کوششوں کو سراہا۔ ڈاکٹر تقی عابدی کا پاکستان کے سفر نامے پر لکھی جانے والی اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وفایزداں منش کی کتاب میں پاکستان کی عوام، بازاروں، جامعات کا بہت خوبصورتی سے ذکر کیا ہے۔ “حکایت وفا در پاکستان” میں پاکستان کا بہت خوبصورت انداز میں ترجمہ کیا ہے, لاہور کی تہذیب اور ثقافت کا بھی بہت بہترین انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے انکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی ثقافت سے متعلق جب کوئی باہر والا تعارف کرواتا ہے تو اس بات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ وفا یزداں منش کا اپنی کتاب سے متعلق کہنا تھا کہ میری کتاب کا اردو میں ترجمہ ہوچکا ہے جوکہ جلد پبلش ہو جائے گا، انکا مزید کہنا تھا کہ میں نے کراچی سمیت صوبہ سندھ کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا ہے، میری کتاب میں کراچی آرٹس کونسل، جامعہ کراچی اور انجمن اردو کی تاریخ سے متعلق مضامین شامل ہیں جبکہ سکھر، ٹھٹھہ اور خیرپور سے متعلق بھی کتاب میں مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ میری کتاب ”حکایت وفا در پاکستان“ میں تاریخ سے زیادہ یہاں کی تہذیب اور لوگوں سے متعلق میرے ذاتی تاثرات شامل ہیں۔ پاکستانی خواتین کی تعریف کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی خصوصاً کراچی کی خواتین میں اعتماد بہت زیادہ ہے۔
==================================
خبر نمبر۔ 6

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے چوتھے اور آخری روز ” معیشت کی شہ رگ۔ کراچی“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے چوتھے اور آخری روز ” معیشت کی شہ رگ۔ کراچی“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیا گیا ، ماہرین معاشیات اسد سعید ، حارث گزدر اور ڈاکٹر اسما حیدر نے موضوع سے متعلق گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض امبر شمسی نے انجام دیے ، اسد سعید نے کہا کہ کراچی سے ساٹھ فیصد ٹیکسوں کی وصولی کے بیان میں خاصی حد تک مبالغہ آرائی ہے، معاشی حب اور پورٹ سٹی ہونے کے باعث بینکوں کے ہیڈ آفسز کراچی میں ہیں اور کراچی سرکل میں بینکوں کے ٹیکسوں کی ادائیگی کے سبب یہاں ٹیکس کلیکشن زیادہ ہوتا ہے ، تاہم یہ بات اہم ہے کہ صرف کراچی کا صدر ٹاو¿ن پورے لاہور سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے ، انہوں نے بتایا کہ کراچی کے ترقیاتی اخراجات 45 ارب روپے ہیں جن میں اسی (80) فیصد تنخواہوں اور پنشن کی مد میں خرچ ہو جاتا ہے، ڈاکٹر اسما حیدر نے کہا کہ پاکستان کی نوے فیصد تجارت سمندری راستے سے ہوتی ہے اور دونوں بڑے پورٹس کراچی میں ہیں ، انہوں نے ہیڈ گورنس کو کراچی کا اصل ایشو قرار دیا، حارث گزدر نے سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے کراچی کے معاشی شہ رگ ہونے سے اختلاف کرتے ہوئے دریائے سندھ کو ملک کی معاشی شہ رگ قرار دیا ، انہوں نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہے اور ملکی معیشت میں زراعت کا اہم حصہ ہے جبکہ زراعت کا انحصار دریائے سندھ پر ہے ، انہوں نے کہا کہ انگریز دور میں کراچی ، ممبئی اور کلکتہ جیسے ساحلی شہروں کو فروغ حاصل ہوا جبکہ اس سے قبل ملتان ، بھیرہ ، جیسلمیر اور شکار پور جیسے شہروں کو تجارتی اہمیت حاصل تھی، انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کے فروغ کے ساتھ اب تجارت کی نوعیت بدل چکی ہے ، پورٹ سٹیز کی اب پہلے جیسی اہمیت نہیں رہی، انہوں نے کہا کہ مستقبل میں کراچی کی معاشی ترقی میں اربن کلچر کا کردار اہم ہوگا ، اسد سعید نے کہا کہ کراچی دو دہائیوں تک امن و امان کے مسائل سے دو چار رہا، آج بھی ایکسپورٹ میں اس شہر کا حصہ چالیس فیصد اور صنعتوں کا حصہ تیس فیصد ہے ، ہر ماہ پینتالیس ہزار لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی کا رخ کرتے ہیں ، ڈاکٹر اسما حیدر نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ کراچی کے مزاج میں رواداری ہے ، احمد شاہ نے کراچی میں ایسی رونق لگائی جو دس پندرہ سال پہلے نظر نہیں آتی تھی۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے آخری روز ”کراچی کے مزاح نگار“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔جشن کراچی کے چوتھے اورآخری روز ”کراچی کے مزاح نگار“ کے عنوان سے سیشن منعقد کیا گیا۔ سیشن کی نظامت معروف صحافی خالدفرشوری نے کی جبکہ مقررین میں نصرت علی اور نذرالحسن نے اپنی گفتگوسے محفل کو زعفران بنادیا۔ خالد فرشوری نے اپنی صدا کاری سے محفل کو چار چاند لگا دیئے۔ مہمان نصرت علی کی فرمائش پر خالد فرشوری نے جاوید چوہدری اور مبشر لقمان کی پیروڈی کر کے حاضر ین محفل کو ہنسنے پر مجبور کردیا۔ خالد فرشوری کا کہنا تھا کہ آج یہاں کراچی کے مزاح نگاروں پر بات کی جارہی ہے۔ کراچی کے مزاح نگاروں نے بڑی بڑی کتابیں لکھیں، ٹی وی ، ریڈیو کے لیے لکھا ، اسٹیج اور تھیٹر کے لیے بھی لکھ رہے ہیں۔ نصرت علی نے ابن انشاءکی کتاب سے اقتباسات سنا کر حاضرین محفل سے خوب داد وصول کی۔ انہوں نے فیض کے بارے میں غالب کا لکھا ہو اخط بھی پڑھ کر سنایا۔ دوسرے مہمان نذرالحسن نے مشتاق یوسفی کی کتاب سے اقتباسات سنائے اور حاضرین محفل کوتالیاں بجانے پر مجبور کردیا۔ سیشن میں مرحوم اور عصر حاضر میں موجودہ مزاح نگاروں کوبھی یاد کیا گیا۔ خالدفرشوری کا کہناتھا کہ مزاح نگاروں میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔انہوں نے ٹی وی پرڈیوسر رفعت ہمایوں کی مثال دی جنھوں نے ٹی وی کے لیے شاندار کام کیا۔ اسی طرح پاکیزہ ڈائجسٹ کی ایڈیٹر انجم نثار کا نام بھی لیا جنھوں نے مزاح نگاری میں بہت کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی نے بڑے بڑے مزاح نگار پیدا کیے۔ جنھوں نے اپنی کتابوں کے ذریعے ،ریڈیوکے ذریعے اسٹیج اور تھیٹر کے ذریعے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹیں بکھیریں۔ ان کا کہنا تھا کہ عصر حاضر میں ایک معیاری مزاح اس لیے نہیں لکھا جارہا کہ ہر شخص سمجھتا ہے کہ وہ یہ کام کرسکتا ہے ۔تھیٹر اس کی زندہ مثال ہے ۔یہاں رائٹرز کو دبایا جارہا ہے حتیٰ کہ اگر کوئی مزاحیہ کلام لکھ رہا ہے تو اس کے کریڈٹ میں رائٹر کا نام نہیں جاتا۔ بڑے بڑے گلوکاروں نے مشہور نغموں کو اپنے نام سے موسوم کیا ہوا ہے۔ انہوں نے سعدیہ حریم کو بھی اچھی مزاحیہ شاعرہ قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے بے شمار لوگ ہیں جو کراچی سے ہیں اور لکھ رہے ہیں لیکن ان کا نام لینے میں ہمارا سارا وقت گزر جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ڈائجسٹی ادب کو بھی بہت ڈی گریڈ کردیتے ہیں، ڈائجسٹی ادیب جو کہ مزاح نگار ہوتاہے اس کو بالکل پی سی او جج کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ آخر میں ان کا کہنا تھا کہ مزاح نگار ادیب کو وہ درجہ نہیں ملتا جو سنجیدہ ادیب کوملتا ہے۔

=================
خبر نمبر ۔ 9

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی میں مصنوعی ذہانت پراہم نشست کا انعقاد

مصنوعی ذہانت سے ڈرنا نہیں،اس سے فائدہ اٹھانا ہے،ماہرین

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی میں مصنوعی ذہانت پراہم نشست ہوئی، اقصیٰ جونیجونے نظامت کرتے ہوئے اس نشست کی اہمیت کوواضح کیا، پینل میں حبیب یونی ورسٹی کراچی کی فیکلٹی ممبرکرسٹی لاو¿ڈر اورسوفٹ وئیربزنس سے وابستہ ارحم اشتیاق شامل تھے، کرسٹی لاو¿ڈرکاتعلق امریکہ سے ہے اوروہ پچھلے بارہ سال سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں کام کررہی ہیں، کرسٹی لاو¿ڈرکا کہنا تھا کہ یہ بات کسی مذاق سے کم نہیں ہوگی کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کی جگہ لے لی گی یاان کی نوکریاں کھاجائے گی۔ انہوں نے کہاکہ چیٹ جی پی ٹی کوآئے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے، تعلیمی شعبے میں ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس سے کیسے موثر اورمحفوظ طریقے سے کام لیا جاسکے، مصنوعی ذہانت اورچیٹ جی پی ٹی روزہ مرہ کے طریقہ تعلیم کوجوبہت بورنگ بھی ہوجاتا ہے تبدیل کرسکتا ہے، مس لاو¿ڈر نے خبردارکیا کہ صرف اپنی زندگیوں کوآسان بنانے کے لیے چیٹ جی پی ٹی استعمال نہ کریں ،اپنے ٹیچرکومضمون میں اپنے احساسات بتائیں ،والدہ کے ہاتھ کی بنی بریانی کی تعریف بھی خود سے کریں، چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے نہیں، ارحم اشتیاق نے کہاکہ فیصلہ کرنے کا اختیار مصنوعی ذہانت پرچھوڑنا خطرناک ہوگا، ہم چیزوں کوالگ الگ نظرسے دیکھتے ہیں اوریہی چیزانسانی قدر کو جنم دیتی ہے، مصنوعی ذہانت ایسا کبھی نہیں کرسکتی، ارحم اشتیاق کاکہنا تھا ہمیں مصنوعی ذہانت سے ڈرنا بھی نہیں ہے بلکہ اپنے کاموں کو آسان کرنے کے لیے اسے استعمال کرنا ہے،ارحم اشتیاق نے اس خدشے کوبھی رد کیا کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ہمیں نوکریوں سے نکال دیا جائے گا،انہوں نے کہا ہمیں نوکریوں سے وہ لوگ نکال سکتے ہیں جومصنوعی ذہانت کااستعمال کرتے ہیں،مصنوعی ذہانت ہمارے کاموں کو آسان اورجلد انجام دینے میں مدد دے سکتی ہے،وہ ہمارا وقت بچا کرہمیں وہ اپنی صلاحیتوں اورمہارتوں کوبڑھانے کاوقت دیتا ہے،ہم اس بچے ہوئے وقت کو کسی اوربہترکام میں استعمال کرسکتے ہیں،مصنوعی ذہانت کومدد کے لیے استعمال کرنا ہے خود کوتبدیل کرنے کے لیے نہیں۔ نشست کی ناظم اقصیٰ جونیجو نے حاضرین سے درخواست کی کہ وہ چیٹ جی پی ٹی کو کہیں کہ وہ کراچی کے موسم پرشاعری کرے،حاضرین میں سے دوافراد نے چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے کہی گئی نظمیں پیش کیں جسے حاضرین نے سراہا، زیادہ تر افراد کاخیال تھا کہ یہ ایک اچھی کوشش ہے، اس موقع پرارحم اشتیاق کا کہنا تھا کہ آپ ابتدائی معلومات دے کر مصنوعی ذہانت سے شعر توکہلوا سکتے ہیں لیکن اس کو یہ نہیں پتہ کہ کراچی اور بنگلور میں بیٹھے دو الگ الگ شاعر اس ایک چیز کو کیسے محسوس کریں گے اور ان کے بیان کا انداز کیا ہوگا، مصنوعی ذہانت شاعری کوجسم تو دے سکتا ہے لیکن روح نہیں، ہرتخلیقی شعبے میں انسان کی انسانیت مصنوعی ذہانت سے بالاترہوگی، شرکا میں موجود صحافیوں پیرزادہ سلمان اورتابان ظفر نے بھی مصنوعی ذہانت کے صحافت میں استعمال پراپنے تجربے اورمشاہدے سے آگاہ کیا
=======================================
خبر نمبر۔14

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے چوتھے اور آخری روز ”میں ہوں کراچی The Legends Of Sports World “ میں کرکٹر راشد لطیف، جویریہ خان اور ہاکی کھلاڑی اصلاح الدین پر سیشن کا انعقاد

کراچی ()آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری سترھویں عالمی اردو کانفرنس۔ جشن کراچی کے چوتھے اور آخری روز ”میں ہوں کراچی The Legends Of Sports World “ میں کرکٹر راشد لطیف، جویریہ خان اور ہاکی کھلاڑی اصلاح الدین نے موضوع سے متعلق گفتگو کی جس کی نظامت یحییٰ حسینی نے کی۔ راشد لطیف کا کہنا تھا کہ چیمپیئن ٹرافی ہونی ہی نہیں چاہیے، اس سے پہلے کے وہ منع کردیں ہمیں منع کردینا چاہیے ، راشد لطیف نے شکوہ کیا کہ ہم ماضی کے بہترین کھلاڑیوں کی دیکھ بھال نہیں کرسکے، بہت سے بہترین کھلاڑی اور ان کے اہل خانہ بدترین حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ وومن کرکٹ سے متعلق سوال پر راشد لطیف کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ خواتیں کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا، خواتیں کا ایک بھی کرکٹ گراونڈ پاکستان میں موجود نہیں ہے، انکا مزید کہنا تھا کہ کراچی کے علاقے ملیر نے پاکستان کو بہت اچھے کھلاڑی دیئے ہیں، کراچی میں ہاکی کا کلچر تھا جو اب ناجانے کیوں ختم ہوگیا ہے، صرف ملیر سے 13 گراونڈ ختم ہوچکے ہیں، غلطیاں سسٹم کی ہیں اور الزام پی سی بی پر لگایا جاتا ہے۔ ہاکی کھلاڑی اصلاح الدین نے دوران گفتگو بتایا کہ ہم نے کراچی کی سڑکوں کو روزانہ دھلتے ہوئے دیکھا ہے، آج گھروں میں استعمال کا پانی نہیں, میں نے پاکستان میں پیر الہی بخش کالونی سے بہترین بس اسٹاپ نہیں دیکھا۔ کھیلوں کے فروغ سے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ ہم آج بھی گوروں کی غلامی میں ہیں، جتنے پیسے گورے کو ٹریننگ کے لیے دیئے جاتے ہیں وہ اگر پاکستان کے تجربہ کار کھلاڑیوں کو دیئے جائیں تو وہ بہترین ٹریننگ دے سکتے ہیں جبکہ ہاکی اسکاش جیسے کھیلوں میں گوروں کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ناظم آباد میں موجود میری اکیڈمی میں کراچی کے 15 سے 20 اولمپیئن مختلف جامعات کے تقریبا 250 طالبعلموں کو تربیت دیتے ہیں انکا مزید کہنا تھا کہ کراچی کے لیے جو کام صدر آرٹس کونسل احمد شاہ اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری کر رہے ہیں وہ پورے پاکستان میں کہیں نہیں ہورہا۔ کرکٹر جویریہ خان نے دوران سیشن بتایا کہ حال ہی میں میں نے ریٹائرمنٹ لی ہے اور اب میں کھلاڑی نہیں رہی ہوں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ وومن کرکٹ میں اب لڑکیاں بہت کم آرہی ہیں، کیونکہ سہولیات نہیں ہیں انکا مزید کہنا تھا کہ لڑکیاں کلب میں کرکٹ نہیں کھیل سکتیں میں نے بھی چھت پر کھیل کر پریکٹس کی ہے، انکا کہنا تھا کہ آج کے دور میں لوگ کمانے کی فکر میں لگ گئے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح بہترین کھلاڑی نہیں آرہے، پہلے والدین کھیلوں کی اجازت دیتے تھے کیونکہ معاشی حالات بہتر تھے۔
=========================================

خبر نمبر ۔15

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کے آخری روز ”ہم ادب کا نوبل انعام جیت سکتے ہیں“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کے آخری روز ”ہم ادب کا نوبل انعام جیت سکتے ہیں“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد کیاگیا سیشن کے مہمان مقرر نمل یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر سفیر اعوان تھے جبکہ نظامت کے فرائض معروف ادیب اقبال خورشید نے انجام دیے۔ سیشن کے آغاز میں اقبال خورشید نے سوال اٹھایا کہ کیا اردو ادب میں نوبل انعام جیتنے کی اہلیت موجود ہے؟ انہوں نے قرة العین حیدر اور علامہ اقبال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے قریب پہنچے، مگر اردو ادب کو بین الاقوامی سطح پر وہ مقام کیوں نہیں مل سکا؟ کیا اردو ادب میں تنوع اور تکنیک کی کمی ہے؟ ڈاکٹر سفیر اعوان نے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مسئلہ قومی خود اعتمادی کی کمی کا ہے، ان کے مطابق اردو سمیت پاکستان کی دیگر زبانوں میں تاریخی، سماجی اور سیاسی شعور موجود ہے لیکن عالمی سطح پر اردو ادب کو روشناس کرانے کے لیے تراجم کی کمی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوبل انعام کی 124 سالہ تاریخ میں 92 انعامات غیر انگریزی زبانوں کے ادب کو ملے ہیں لیکن یہ زبانیں اس وقت عالمی توجہ حاصل کر سکیں جب ان کے ادب کو انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹر سفیر اعوان نے اس بات پر زور دیا کہ اردو ادب کو عالمی سطح پر روشناس کرانے کے لیے مترجمین کی تربیت اور اعلیٰ معیار کے تراجم کی اشد ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سفارت خانے اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، وہ اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے ادیبوں کے تراجم کو فروغ دیں اور مغربی دنیا میں ان کے تعارف کے لیے تقریبات کا انعقاد کریں۔ انہوں نے مصنف مستنصر حسین تارڑ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ناولز عالمی سطح پر پذیرائی کے مستحق ہیں لیکن ان کی ترجیح سفرنامے رہے جس کی وجہ سے ان کا سنجیدہ فکشن نظرانداز ہوا۔ سیشن کے اختتام پر ڈاکٹر سفیر اعوان نے کہا کہ اردو ادب میں نوبل انعام جیتنے کی صلاحیت موجود ہے بشرطیکہ ہم تراجم کے ذریعے اپنے ادب کو گلوبل لائم لائٹ میں لانے کے لیے اجتماعی طور پر کام کریں۔
=======================================

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کے چوتھے روز ”نئی نسل کی نمائندہ آوازیں۔علی زریون اور فریحہ نقوی“ پر سیشن کا انعقاد

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی کے چوتھے روز ”نئی نسل کی نمائندہ آوازیں“ پر سیشن کا انعقاد جون ایلیا لان میںکیا گیا ، ”نئی نسل کی نمائندہ آوازیں“ کے عنوان سے سیشن میں نوجوانوں کے مقبول ترین شاعر علی زریون اور فریحہ نقوی نے شرکت کی اور حاضرین کو اپنی خوبصورت شاعری اور باتوں سے محظوظ کیا، اس موقع پر آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا جون ایلیا لان نوجوانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جو اپنے محبوب شاعر کو سننے کے منتظر تھے، گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے فریحہ نقوی نے کہا کہ علی زریون کو میں دس پندرہ سال سے جانتی ہوں، علی زریون نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی شاعری کی ہے، علی زریون کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں ان کے پرستار موجود ہیں، علی زریون نے کہا کہ میں نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور ابتدائی عمر میں ہی حافظ بن گیا تھا، میرا تعلق اس خاندان سے ہے جہاں علم و تصوف کی باتیں ہوتی تھیں، گھر میں بہت ساری کتابیں بھی ان موضوعات پر موجود تھیں بس اسی ماحول نے مجھے متاثر کیا، انہوں نے کہا کہ شعر کے ہر مصرعہ کا ایک آہنگ ہوتا ہے اور ہم شاعر اسی آہنگ کو بحر کہتے ہیں، اس موقع پر علی زریون نے اپنے فارسی اشعار بھی سنائے، انہوں نے کہا کہ انگریزی کے مقابلے میں اردو اور ہماری علاقائی زبانیں بیحد زرخیز ہیں، ہمیں اپنے بچوں سے مادری زبان میں بات کرنی چاہیے، انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں نوجوانوں کے شعر و ادب سے دور بھاگنے کی وجہ بعض شاعروں کی طرف سے مشکل الفاظ اور استعارات کا استعمال ہے، میرے نزدیک شعر کا تعلق کسی دکھی کے دکھ میں شامل ہونے سے ہے اور یہ مقصد پورا ہونا چاہیے، بعدازاں علی زریون نے حاضرین کی فرمائش پر اپنا مقبول کلام سن کر سماں باندھ دیا، جس پر پرستاروں نے انہیں بھرپور داد سے نوازا۔
=================================

خبر نمبر ۔ 20

سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی میں معروف دانشور و مزاح نگار انور مقصود نے ”قائداعظم کا کراچی کے نام آیا ہوا خط“ پڑھ کر سنا دیا۔۔۔

کراچی () سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن کراچی میں معروف دانشور و مزاح نگار انور مقصود نے ”قائداعظم کا کراچی کے نام آیا ہوا خط“ پڑھ کر سنا دیا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ ”میرے کراچی تجھے یاد ہے سب سے پہلے میں نے کہا تھا کراچی پاکستان کا کیپٹل ہوگا، اس وجہ سے نہیں کہ میں یہاں پیدا ہوا تھا میرا تو مزار بھی یہی ہے، کراچی مجھے پسند تھا، مجھے اندازہ تھا اس شہر میں بسنے والے خیالات اور احساسات میں اس درجہ ہم آہنگی ہوگی جس کا فائدہ پاکستان کو پہنچے گا، مجھے معلوم تھا کہ یہ شہر پھیلے گا اور بڑا ہوگا ، آگے جائے گا، میں محسوس کرتا تھا وطن سے محبت کرنے والوں کی ہزاروں لاکھوں پگ گنڈیاں ہر جہت سے آکر اس عظیم شہر میں گم ہوجائیں گی، جس میں ہر مکتب فکر کے لوگ موجود ہوں گے، مختلف علاقوں میں رہنے والے مختلف بولیاں بولنے والے سب کراچی سے محبت کریں گے اور اس کو اپنا سمجھیں گے، یہ شہر پڑھے لکھوں سے بھرا ہوگا، کراچی تو ، تو میرا شہر تھا کھارا در میں میرا گھر ہے گرومندر کے قریب میرا مزار۔میرے مزار کی جگہ یہاں ایک بستی تھی ان لوگوں کو وہاں سے نکال دیا گیا اور شہر سے دور ان کو جگہ دے دی گئی، میرا مزار شہر سے دور لے جاتے تو بہت اچھا ہوتا ، میں آج اس بستی والوں سے شرمندہ ہوں، میرے مزار پر عبدالکلام آزاد آئے تھے تو جنگ اخبار میں رئیس امروہی نے لکھا تھا کہ قائد اعظم کا مزار عبدالکلام آزاد۔ میں تو تجھے روشنیوں سے بھرا چھوڑ کر آیا تھا میں نے دعا مانگی تھی کراچی کی روشنیاں ، اندھوں کو راستہ سمجھائیں ، لوگوں کو قوت گویائی عطا کریں ، سوئے ہوئے لوگوں کو جھنجھوڑ کر بے دار کریں ، قائد بننے کے ایک سال بعد تیرے پاس نہیں رہا، صحت اچھی نہیں تھی اور میرے ساتھ سلوک بھی اچھا نہیں ہوا، وہ ہی سلوک میرے بعد کراچی تیرے ساتھ کیاگیا، ”صاف شفاف کراچی “ بہت سی سڑکیں رات کے وقت دھوئی جاتی تھیں ، فوج بیرکوں میں اور سرکاری افسر کوارٹروں یا چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہتے تھے، باتھ آئی لینڈ، کوئنز روڈ، ملیر ڈرگ روڈ ۔ سرکاری افسروں کو بسوں میں سفر کرتے دیکھا تھا اور بہادروں کو سائیکلوں پر۔میرے جانے کے بعد ایسا ہی ماحول رہا پھر ایوب خاں آگئے۔ان کو کراچی تجھ میں ہجرت بہت نظر آئی۔الطاف گوہر نے ایوب خاں سے کہاکہ سر ہجرت بڑھتی جائے گی ان لوگوں کو صرف آبادی بڑھانے کا بہت شوق ہے۔نیا دارالخلافہ بناتے ہیں ، محمد علی ٹرام وے، محمد علی بس سروس ان سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا، کون کون ان میں بیٹھا نظر نہیں آتا تھا۔شاعر، مصور ایک صحافی، تنقید نگار، علمائے دین، گلوکار، پڑھنے اور پڑھانے والے مستور فقیر۔پی آئی بی کالونی سے کیماڑی بس جاتی تھی، سولجر بازار ، صدر سے ہوتے ہوئی ٹرام کیماڑی جاتی تھی، سب کچھ ٹھیک تھا، 25، 30سینما گھر تھے، آٹھ ، دس ہوٹل تھے، دوسرے شہروں سے ریل گاڑیاں بھری ہوئی آتی تھیں، آنے والے واپس نہیں جاتے تھے، کراچی تیری بانہیں ہر ایک کے لیے کھلی ہوئی تھیں، کراچی تو اس ملک کی ماں ہے، مجھے اندازہ نہیں تھا ایوب خان اتنی جلدی آجائیں گے، الطاف گوہر سول سرونٹ تھے تعلق پنجاب سے تھا، بہت ذہین، پڑھے لکھے تھے، وہ ہی ایوب خان کو ہر بات بتاتے تھے، ایک دن الطاف گوہر نے ایوب خان سے کہاکہ سر کیپٹل کراچی سے پنجاب کی طرف لے جائیں یہ شہر تو ہجرت کرنے والوں سے بھر ا ہوا ہے، پنجابی بولنے کو زبان ترس گئی ہے، نئے شہر کا نام رکھیں اسلام آباد ، ایوب خان مان گئے پاکستان کا کیپٹل اسلام آباد چلا گیا اور ساتھ ساتھ کراچی کا کیپٹل بھی اپنے ساتھ لے گیا، یہاں کیپٹل سے مراد پیسہ ہے۔جو لوگ اسلام آباد نہیں گئے ان میں جوش، صادقین، محمد حسن عسکری، شاکر علی، جمیل الدین عالی، عزیز حامد مدنی، رئیس امروہی، جون ایلیا ،سید محمد جعفری، ابن انشائ، دلاور فگار، بشیر مرزا، احمد پرویز، شاہد سجاد، جمیل نقش، زہرا نگاہ، فہمیدہ ریاض، پروین شاکر، فاطمہ ثریا بجیا، احمد علی، خلیل الرحمن، نصر اللہ خان ، ابراہیم جلیس ، سلیم احمد، مجید لاہوری، علی امام ،اداجعفری و سلیم زماں صدیقی اور ہزاروں بڑے نام ہیں جن کے لیے کراچی سب کچھ تھاجب سیاسی جماعتیں بننا شروع ہوگئیں تو کراچی پھر تو بگڑنا شروع ہوگیا،قومی پرچم کی جگہ تیری شاہراہوں پر سیاسی جماعتوں کے پرچم نظر آنے لگے، بڑی بڑی عمارتیں اور بڑے بڑے مکانات بننے لگے، شہر مختلف شہروں میں بٹ گیا، سندھی ، پٹھان ،بلوچی اور مہاجر سب الگ ہوگئے، میرے مزار کی طرح 77سالوں سے تو خاموش ہے، تیری زمین بغیر بولی لگائے بکنے لگی، جو حکومت آئی اس نے تیری زمین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔“
===========================================

خبر نمبر۔18

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام سترھویں عالمی اردو کانفرنس ۔جشن میں پیش کی جانے والی قراردادیں۔۔۔۔۔

کراچی () آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی چار روزہ سترھویں عالمی اردو کانفرنس جو۵سے۸ دسمبر ۴۲۰۲ءکو منعقد ہوئی، کانفرنس کے اختتام پر مندرجہ ذیل قراردادیں پیش کی گئیں۔ یہ قراردادیں پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرونِ ملک سے تشریف لانے والے مندوبین کی جانب سے منظور شدہ ہیں۔ ان قراردادوں کے مخاطب ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں اور وہ سب افراد اور ادارے ہیں جن پر علم و ادب اور تعلیم و ثقافت کے فروغ کی ذمہ داری ا زروئے آئین اور بحیثیت معاشرتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔(۱) گذشتہ برس کی طرح اس سال بھی اس کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے وقت ہورہا ہے جبکہ عالمی منظر پر غزہ کی تباہی اور بربادی ،فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی بربریت کے موضوعات چھائے ہوئے ہیں۔ ہم نے پچھلے سال اہل فلسطین کے ساتھ اپنی گہری وابستگی اور یکجہتی کا اظہار کیا تھا ،اس کانفرنس میں بھی ہم انہی احساسات کا ازسرِنو اظہار کرتے ہیں ۔ ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے ماضی میںبھی اور پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں فلسطین کے موضوع پر بیش بہا ادب تخلیق کیا ہے ۔ہم فلسطینی عوام اور خاص طور پروہاں کے اہلِ قلم کے ساتھ اپنی ذہنی ہم آہنگی اور یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔(۲)ہم کشمیر کے حقِ خودارادی کی بھی تائید کرتے ہیں ۔آرٹس کونسل نے اپنی ایک کانفرنس مظفر آباد آزاد کشمیر میں جا کر وہاں کے اہلِ قلم کی بھر پور شرکت کے ساتھ منعقد کی۔جس سے اس پیغام کو دور دراز پہنچانا مقصود تھاکہ پاکستان کے سب اہلِ قلم کشمیر کے حقِ خودارادی کو وہاں کے لوگوں کا اساسی حق سمجھتے ہیں اور ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کرناچاہتے ہیں۔(۳)آرٹس کونسل کی یہ کانفرنس خود کونسل کی گذشتہ برسوں کی توسیعی سرگرمیوں کی پر زور تحسین کرتی ہے ۔پچھلے چند برسوں میںآرٹس کونسل کراچی نے پاکستان لٹریچر فیسٹول کی بنیاد رکھی ۔یہ فیسٹول اب تک لاہور ،آزاد کشمیر ،سکھراور کوئٹہ میں منعقد ہوچکے ہیں ۔ان میں سے ہر فیسٹول اہلِ قلم اور شرکاءکی تعداد کے حوالے سے پچھلے فیسٹول سے کہیںزیادہ بڑھ کرتھا ´۔اب یہ فیسٹول مزید شہروں میں منعقد کرنے کا آرٹس کونسل کا ارادہ یقیناََ مزید کامیابیوں کا مظہر ثابت ہوگا۔آرٹس کونسل نے لٹریچر فیسٹول کے علاوہ بے شمار مختلف پروگرام اور فیسٹول منعقد کیے ہیں ۔عالمی کلچرل فیسٹول ، تھیٹر فیسٹول،بچوں اور نوجوانوں کے لیے منعقد کیے جانے والے کئی کئی پروگرام، یہ وہ سب سرگرمیاں ہیں جنہوں نے آرٹس کونسل کو پاکستان کا سب سے اہم اور فعال تہذیبی ادارہ بنا دیا ہے ۔ہم سب اہلِ قلم جو اس فیسٹول میں شامل ہیں خود کو آرٹس کونسل کی اس اٹھان کا حصہ سمجھتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں ۔ (۴) گذشتہ چند برسوں سے جملہ پروگراموں کے اندر پوری کوشش اس چیز کی کی جاتی رہی ہے کہ نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ ان سرگرمیوں کا حصہ بنایا جائے ۔پاکستان کی آبادی کا ۰۶ فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ان کو ایک بہتر مستقبل فراہم کرنا ہماری حکومتوں اور تعلیمی اداروں کا کام ہے ،لیکن ہم یہ بھی سجھتے ہیں کہ ایک فرد اور معاشرے کی ثقافتی حوالوں سے نشوونمابہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ ہماری نئی نسل غیرمعمولی تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہے لیکن بد قسمتی سے اس کو انتہا پسند جماعتوں ، بے مقصد نصاب ِ تعلیم اور بے روح تعلیمی اداروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گےاہے۔اس رجحان کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا بہت بڑا سماجی سرمایہ (سوشل کیپٹل)ضائع ہو رہا ہے۔آرٹس کونسل کی گذشتہ چند برسوں کی سرگرمیوں کا حاصل یہ ہے کہ اگر ہم ادب و ثقافت کے حوالے سے نئی نسل کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ ہماری رفتار سے بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ ان سرگرمیوں کی طرف آتے ہیں۔یہ تاثر صرف کراچی کی کانفرنسوں کا ہی نہیں ہے، بلکہ سکھر، لاہور، آزادکشمیر اور کوئٹہ میں جس انداز اور جس پیمانے پر طالب علموں اور نوجوانوں نے آرٹس کونسل کے پروگرواموں میں شرکت کی اور اپنی صلاحتیوں کامظاہرہ کیا اور دوسروں کی تخلیقی سرگرمیوں کا بھر پور انداز میں استقبال کیا ،یہ سب چیزیں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ معاشرے کوغیر مسلح کرنے ،مافیاوں سے آزاد کروانے اور ہر قسم کے جبر کی مزاحمت کرنے کے لیے کلچر ہی سب سے بڑا اور مضبوط وسیلہ ہے۔(۵)ہم اہلِ قلم اس امر پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کی حکومتیں خواہ وہ مرکز میں ہوں یا صوبوں میں، اپنی ان آئینی ذمہ داریوں کی تکمیل میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتیںجو مختلف صوبوں کے درمیان ثقافتی رشتوں کو مضبوط بنانے کے نقطہ نظر سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ہمارے دستور کی اٹھارہویں ترمیم نے تعلیم و ثقافت کو صوبوں کے حوالے کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے بین الصوبائی ادارے بھی بنا د یے ہیں، جو مختلف صوبوں میں ہم آہنگی بڑھانے کے لیے متعارف کیے گئے ہیں۔بہت ضروری ہے کہ بین الصوبائی اداروں کی وزارتیں مختلف صوبوں کے درمیان تعلیمی و ثقافتی روابط کو مضبوط بنائیں، شہریوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو دوسرے صوبوں میں جانے، وہاںاپنا وقت گزارنے ،اوران اداروں کی سرگرمیوں کا حصہ بننے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ (۶)ہمارا خیال ہے کہ ہر پاکستانی طالبِ علم کو اسکو ل کی تعلیم کے زمانے میں اپنی مادری زبان کے علاوہ ایک دوسری زبان کو سیکھنا اور اس کے ادب سے واقفیت حاصل کرنا لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔(۷) ہمارا یقین ہے کہ پاکستان کی سب زبانیں غیر معمولی وَرثے کی حامل ہیں۔ ان زبانوں کی ترقی اور ان کا فروغ حکومتوں کی ذمہ داری ہے جس کوخانہ پُری کے طور پر نہیں بلکہ ٹھوس پالیسیوں کی شکل میں پورا ہونا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تاریخ نے اور دوسرے ملکوں کے تجربات نے یہ بات بہت اچھی طرح واضح کر دی ہے کہ معاشروں میں اتحاد کسی حکم نامے کے تحت نافذ نہیں ہوتا بلکہ اتحاد اور اتفاق کثرت میں وحدت کے اصول کو اپنانے سے یقینی بنتا ہے۔(۸)ہم پاکستان میں کتابوں ،رسائل وجرائد کی اشاعت،ان کی ترسیل اور ان کی ترویج کے لیے پُر زور آواز بلندکرتے ہیں۔حالیہ برسوںمیں جس طرح پاکستانی روپے کی قیمت گری ہے اس نے بیرونِ ملک سے کتابوں کی درآمد کو بہت مہنگا کردیاہے۔ ہم پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت کتابوں کی درآمد کے لیے خصوصی رعایتی اسکیمیں متعارف کروائے۔(۹)برسہابرس سے ہمارے یہاں یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ کتابیں اس لیے مہنگی ہیں کیو نکہ ہمیں کاغذ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میںکاغذ کے کارخانے لگانے کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ملک میں کاغذ کے کارخانے لگائے جائیں اور کتابوں ، اخبارات ،رسائل وجرائد کی اشاعت کے لیے جن اشیاءکی ضرورت ہے ان سب کو مناسب قیمت پر فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کی جائے۔(۰۱)ہم اخباروں کے مالکان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اخباروں کے ڈیجیٹل ایڈیشن چھاپنے کو عذر بنا کر مطبوعہ ایڈیشن کے صفحات کم کر دیے ہیں ،یہاں تک کہ کچھ اخبا ر محض ڈمی بن کے رہ گئے ہیں ۔دنیا کے دوسرے ملکوں کے تجربات ہمیں بتاتے ہیں کہ کچھ اخباروں نے اپنے ماضی کے انداز سے ہٹ کر نیا انداز اپنا لیا ہے ۔اب سیکٹروں خبروں کے بجائے ان اخباروں میں منتخب خبریں بھر پور تخلیقی انداز میں پیش کی جاتی ہیں۔جن اخباروں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے وہ پہلے سے زیادہ مقبول ہوتے جا رہے ہیں ۔ہم پاکستان کے اخبارات کے مالکان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مطبوعہ اخبار کو زندہ رکھنے اور اس کو پہلے سے بہتر انداز دینے کی ذمہ داری قبول کریں۔ اس سے نہ صرف پڑھنے والوں کی تشفی ہوگی بلکہ بڑے اخباروں سے صحافتی عملے کوجس طرح فارغ کیا جارہا ہے اس طرزِعمل کی بھی روک تھام ہو سکے گی۔ آخر میں تمام شرکاءنے ہاتھ اٹھا کر قراردوں کے حق میں ہاتھ بلند کیے۔