
کراچی یونیورسٹی میں رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا شخص کون نکلا ؟ سرکاری گاڑی میں خاتون کون تھی ؟ ڈاؤ یونیورسٹی میں انکوائری شروع ، کار میں فیملی کی خاتون تھی تو یہ شخص سیکیورٹی اہلکاروں سے معذرت اور معافیاں کیوں مانگتا رہا ؟ اپنے اس عمل کو خود غلط کیوں قرار دیا ؟ معاملے کو رفع دفع کرنے کے لیے کس نے دباؤ ڈالا ؟تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کراچی یونیورسٹی کے سنسان جنگل کے علاقے میں ایک شخص کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا گاڑی میں ایک خاتون موجود تھی سیکیورٹی اہلکاروں نے اس شخص کو اپنا تعارف کرانے کے لیے کہا اور خاتون سے بھی سوال جواب کیے دونوں کی گفتگو بے ربط تھی وہ شخص سوالات کا جواب دیتے وقت نروس تھا اور اعتماد کے ساتھ جواب نہیں دے پایا اور اس نے معذرت اور معافی مانگنی شروع کر دی اور خود تسلیم کیا کہ اس کا یہ عمل غلط ہے اس نے اپنے ساتھ موجود کو ایک ڈاکٹر قرار دے کر اس کی عزت کرنے کے لیے کہا سیکیورٹی ہیلتھ کاروں کا کہنا تھا کہ ہم اپ کی بھی عزت کرتے ہیں لیکن اپ اپنا تعارف کرائیے اور یہاں انے کی وجہ بتائیے سنسان علاقے میں کیوں ائے ہیں خاتون سے بھی سوالات پوچھے گئے یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر جتنے منہ اتنی باتیں ۔ طرح طرح کے تبصرے اور اس شخص کے بارے میں مختلف حوالے سامنے انے لگے کسی نے سرکاری گاڑی کو ایک یونیورسٹی کی گاڑی قرار دیا تو کسی نے اسے کراچی یونیورسٹی کا پروفیسر ۔ کچھ نہیں اسے ڈاؤ یونیورسٹی کے ساتھ جوڑا اور اسے ڈاؤ یونیورسٹی کا سکیورٹی اہلکار بتایا اور اس کا نام قائم الدین بتایا ۔ سیکورٹی افسر سرکاری گاڑی لے جامعہ کراچی میں کیا کر رہا تھا اس حوالے سے

لوگوں نے سوالات اٹھائے اور اب ڈاؤ یونیورسٹی کے ترجمان اور وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر انکوائری ہو رہی ہے گویا یہ معاملہ ڈاؤ یونیورسٹی سے تعلق رکھتا ہے اب اس کے بارے میں انکوائری کے بعد پتہ چلے گا کہ کیا سوالات پوچھیں گے اور اس معاملے کا نتیجہ کیا نکلا ۔ ادھر کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ طلبہ اور سکیورٹی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں بعض مرتبہ معاملات کو

دبا دیا جاتا ہے اس مرتبہ ویڈیو وائرل ہو چکی ہے تو اس حوالے سے بحث ہو رہی ہے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر گاڑی میں موجود خاتون اس شخص کی فیملی سے تعلق رکھتی تھی تو پھر وہ سکیورٹی اہلکاروں سے معذرت کیوں کر رہا تھا معافی کیوں مانگ رہا تھا اور اپنے عمل کو غلط کیوں قرار دے رہا تھا ۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہے اور اس حوالے سے بہت سے سوالات پوچھے جا رہے ہیں اب دیکھنا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی انکوائری کا مکمل ہوتی ہے اور اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے ۔ ادھر یہ سوالات بھی اٹھایا جا رہے ہیں کہ کیا سکیورٹی میں یونیورسٹی کو ریٹائرڈ لوگوں کو رکھنا چاہیے یا نہیں اور انہیں سرکاری گاڑیاں دینے کے بعد ان کی نگرانی ہونی چاہیے یا نہیں ؟ سرکاری گاڑیوں
کی سپردگی اور ان کی نگرانی کس کی ذمہ داری ہے ؟ اگر کراچی یونیورسٹی میں اس طرح کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں تو کراچی یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں اور اب تک کیا ایکشن ہوا ہے ؟ سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے بالکل صحیح طریقے سے اس شخص کو روکا اور سوال جواب کیے ۔سوشل میڈیا پر لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا کر ایکشن لیا جائے گا یا یہ معاملہ بھی دبا دیا جائے گا

====================================

ٹریننگ کا انعقاد
جامعہ کراچی ڈاکٹر اکمل وحید سر ڈاکٹر محمد حسان اوج اور اس ایم او صاحبہ کے تعاون سے تاریخ میں پہلی مرتبہ RJ Shopping مال گلستان جوہر افسران، سیکیورٹی و دیگر اسٹاف کے لئے ایمرجنسی رسپانس ٹریننگ کا انعقاد کیا گیا۔
یہ ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ سال کئی افراد اسی مال کے اندر دم گھٹنے کی باعث انتقال کر گئے، ترجمان RJ مال انتظامیہ
کلینک اٹینڈنٹ و فائرمین اسپیشلسٹ انسٹرکٹر کیجولٹی و ریسکیو سروس جامعہ کراچی حمزہ مبین کی جانب سے آگ، ریسکیو عمل، کیجولٹی، ابتدائی طبی امداد، سیفٹی، فائر سیلنڈرز کا استعمال، زندگی بچانے کی عملی تربیت فراہم کی گئی تھی۔ انسٹرکٹر حمزہ مبین
حادثہ یا آگ متاثرین کی خود ساختہ ہاتھوں کی مدد سے منتقلی کی عملی تربیت سمیت CPR کی عملی مشق بھی کرائی گئی۔ انسٹرکٹر حمزہ مبین
آر جے شاپنگ مال گلستان جوہر میں 100 سے زائد اسٹاف کی ایمرجنسی رسپانس ٹریننگ ہوگئ ہے مزید کی ٹریننگ کے بعد تمام دکانداروں کی بھی ٹریننگ کرانے کا فیصلہ، ترجمان آر جے مال انتظامیہ
خصوصی طور پر عمارت میں پھنس جانے کی صورتحال میں بحفاظت اسمبلی ایراں منتقلی کی عملی مشق بھی کرائی گئی۔























