کیپسٹی پیمنٹ کا جن قابو سے باہر ہوگیا، گزشتہ سال آئی پی پیز سے 1198ارب روپے کی بجلی کی خریداری کی گئی مگر 3127ارب کی ادائیگیاں کی گئیں، ایک سال میں آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر 1929ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی گئی، پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی 9ماہ میں83ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ لے اڑی۔ حکومت کی جانب سے آئی پی پیزکو کی جانے والی کیپسٹی پیمنٹ کی تفصیلات سامنے آگئیں۔ دستاویز کے مطابق زیرو فیصد پلانٹ فیکٹر والے پلانٹس میں حبکو، کیپکو، ایچ سی پی سی شامل ہیں، چار فیصد پلانٹ فیکٹر رکھنے والے ایک پلانٹ کو 7 ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی،
آٹھ فیصد پیداوار والے نندی پور پلانٹ کو 15 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ ادا کی گئی۔کیپسٹی سے 25 فیصد کم بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو 568 ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی گئی، 25 فیصد سے 83 فیصد تک بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو 1314 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی گئی۔ دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال 106 آئی پی پیز کو ایک ہزار 874 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی گئی،
تھرل کول بلاک ایک پاورجنریشن کو 9 ماہ میں 128 ارب روپے کیپسٹی کی مد میں ادا کیے گئے۔ چائنا پاور حب جنریشن کمپنی 9ماہ میں 103 ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں لے اڑی اور کمپنی نے 5 ماہ سے کوئی بجلی پیدا نہیں کی جبکہ 4ماہ پیداوار 18فیصد تک رہی۔ ہوانینگ شانڈنگ روئی انرجی کو 9 ماہ میں 95 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی گئی۔ پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی 9 ماہ میں 83 ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ لے اڑی۔ پنجاب تھرمل پاور پرائیویٹ کمپنی بھی 26 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی حقدار ٹھہری جبکہ واپڈا ہائیڈل کو 9 ماہ میں مجموعی طور پر 76 ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی گئی۔ کافی عرصے سے بند نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو 10 ارب روپے ادائیگی کی گئی۔ آئی پی پیز کو کی گئی کل ادائیگیوں میں 38 فیصد پیداواری لاگت آئی، 62فیصد کیپسٹی پیمنٹ کا انکشاف ہوا، 85 فیصد آئی پی پیز کی پیداوار 50فیصد سے کم مگر ادائیگیاں 100فیصد کی گئیں، زیرو فیصد پلانٹ فیکٹر والے پاور پلانٹس کو ایک سال میں 46 ارب 40 کروڑ روپے کیپسٹی پیمنٹ ادا کی گئی۔
=======================
حکومت غیر منصفانہ آئی پی پیز معاہدوں کیخلاف عالمی عدالت جائے، زاہد توصیف
فیصل آباد (- سینئر سیاستدان اور سابق رکن قومی اسمبلی رانا زاہد توصیف نے آئی پی پیز کو بجلی بنائے بغیر کیپسٹی چارجز کی ادائیگی کے غیر منصفانہ معاہدوں کو ختم کرنے کے لئے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ’’جنگ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدوں کا تقابل اسی عرصے کے دوران دیگر ممالک میں لگنے والے آئی پی پیز سے کرکے یہ بات باآسانی پتہ لگائی جا سکتی ہے کہ ان معاہدوں میں کتنی کرپشن ہوئی ہے۔ احتساب کیلئے منافع، کیپسٹی چارجز کی ڈالر میں ادائیگی کے حقائق سامنے لائے جائیں انہوں نے کہا کہ صنعتی تنظیموں نے آئی پی پیز کو کپیسٹی چارجز کی ادائیگی کے خلاف احتجاج کا اعلان کرکے بالکل درست فیصلہ کیا ہے کیونکہ اگر اب بھی خاموشی اختیار کی گئی تو اس سے پورےملک کا معاشی نظام تباہ ہو جائے گا۔ انہوں نےکہا کہ آج ملک میں صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور لوگ بجلی کے بھاری بل ادا کرنے اور پٹرول ڈلوانے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئی پی پیز سے غیر منصفانہ معاہدوں کی ذمہ داری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے کک بیکس اور کرپشن کے لئے ملک کو معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم اس سوال کا بھی جواب جاننا چاہتی ہے کہ اگر ملک کو صرف 20 ہزار میگاواٹ بجلی درکار تھی تو 47 ہزار میگاواٹ بجلی بنانے کے معاہدے کیوں کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کو منافع اور کیپسٹی چارجز کی ڈالر میں ادائیگی کے پس پردہ حقائق قوم کے سامنے آنے ضروری ہیں تاکہ ذمہ دار عناصر کا احتساب یقینی بنایا جا سکے۔
====================
80فیصد آئی پی پیز حکومت اور پاکستانی خاندانوں کی ہیں‘ سابق وفاقی وزیر
اسلام آباد (رپورٹ:حنیف خالد) آئی پی پیز کے ساتھ بلاشبہ ساورن ایگریمنٹ ہے‘ لیکن وہ یہ بات قوم کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت کی زیر ملکیتی 52فیصد انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کام کر رہی ہیں اور پاکستان کے نجی شعبہ کی زیرملکیت صرف 28فیصد آئی پی پیز ہیں لہٰذا 80فیصد آئی پی پیز پاکستانیوں کی زیرملکیت ہیں۔ 20فیصد اگر غیرملکی آئی پی پیز ہیں تو حکومت بعد میں کرپٹ معاہدوں پر نظر ثانی کروا لے لیکن 52فیصد حکومت کے زیر ملکیتی اور 28فیصد نجی شعبے کی ملکیت آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری اور ادائیگی کے معاہدوں پر نظر ثانی کر کے قوم کو 60روپے فی یونٹ تک بجلی کی خریداری سے بچا سکتی ہے۔کومت کا آئی پی پیز سے 750‘ کول 200‘ ہوا اور سولر سے 50ارب تک بجلی خریدنا لمحہ فکریہ یہ بات نگران دور کے سابق وفاقی وزیر تجارت‘ صنعت و پیداوار ڈاکٹر گوہر اعجاز نے ملکی میڈیا کے ذریعے قوم کو بتائی۔ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت خصوصی ایکشن لیکر آئی پی پیز کیساتھ معاہدوں سے کپیسٹی چارجز کی شق نکلوا سکتی ہے کپیسٹی چارجز ختم کرا کر حکومت تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس 10فیصدکم کر سکتی ہے تمام آئی پی پیز کا ڈیٹا معلومات جس میں ہر ایک کو ادا کی گئی رقم اور ہر آئی پی پی سے قوم کو فی یونٹ بجلی کی فراہمی کی لاگت شامل ہے‘ اب ہمارے پاس دستیاب ہے۔ یہ سب آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں ’’کپیسٹی‘‘ کی ادائیگی کی شق کی وجہ سے ہے جو پلانٹس کو منافع خوری کی اجازت دیتی ہے‘ جس کے نتیجے میں آئی پی پیز کو بغیر بجلی پیدا کئے کپیسٹی چارجز کی مد میں ہوشرباء ادائیگی کی جا رہی ہے۔ جب اُن سے اس کا حل پوچھا گیا تو سابق نگران وفاقی وزیر تجارت‘ صنعت و پیداوار اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے کہا کہ اس کا حل آئی پی پیز کو ’’کوئی کپیسٹی کی ادائیگی‘‘ نہ کرنے میں ہے‘ صرف سستی بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی کی خریداری کیلئے ادائیگی کی جائے‘ تمام آئی پی پیز کو کسی دوسرے بزنس کی طرح تجارتی پلانٹس کی طرح تصور کیا جائے۔ 52فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت ہیں جبکہ پرائیویٹ سیکٹر کے پاس صرف 28فیصد آئی پی پیز ہیں لہٰذا 80فیصد پاکستانیوں کے زیر کنٹرول ہیں جو ہمیں آٹھ دس روپے والی بجلی 60روپے فی یونٹ گھریلو‘ تجارتی‘ صنعتی صارفین کو بیچی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کے صرف ان بدعنوان معاہدوں‘ بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے دس بارہ روپے والی بجلی 60روپے فی یونٹ کے حساب سے پاکستان میں فروخت ہو رہی ہے۔ سب کو اپنے ملک کو بچانے کیلئے ان آئی پی پیز کپیسٹی چارجز معاہدوں کیخلاف کھڑا ہونا چاہئے جو ملک کے کم و بیش 40خاندانوں کو منافع دے رہے ہیں۔ سابق نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ اللہ کی پناہ صرف ایک پرائیویٹ آئی پی پی کمپنی کو ایک سال میں کپیسٹی چارجز شپ کی وجہ سے 200ارب روپے کی ادائیگی ہوئی۔ کسی کو 50ارب روپے کی ادائیگی ہوئی تو کسی کو 20ارب اور بہت سے ملکی گروپوں کو 10‘ 10ارب روپے کی ادائیگی کپیسٹی چارجز کی وجہ سے کی جا رہی ہے۔ بجلی کے گھریلو صارفین کو 50ہزار‘ 20ہزار‘ 10ہزار روپے ماہانہ تک کے مہنگے ترین بجلی کے بل دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اب تو متوسط گھریلو صارفین بھی بجلی کے بل دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ سابق نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ میرے پاس آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے ’’کرپٹ معاہدوں‘‘ کی مکمل تفاصیل اور سچائی پر مبنی ڈیٹا ہے۔ میں نے قوم کو یہ بتا دیا ہے‘ اب میں پاکستان کے آنرایبل فرزندوں پر چھوڑتا ہوں کہ وہ کرپٹ آئی پی پیز مافیا سے غریب پاکستانی کو محفوظ بنائیں۔ ڈاکٹر گوہر اعجاز یہ بات زور دیکر کہی کہ حکومت بعض آئی پی پیز پلانٹس سے 750روپے فی یونٹ تک بجلی خرید کر ادائیگی کر رہی ہے اور اس کا سارا بوجھ گھریلو‘ تجارتی‘ صنعتی صارفین پر ڈالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ قوم کے ساتھ آئی پی پیز کے حوالے سے معلومات شیئر کر رہے ہیں‘ یہ معلومات ہماری ٹیم نے پچھلے سال کے دوران فیول کی لاگت‘ کپیسٹی کی ادائیگیوں اور ہر آئی پی پیز کو ادا کئے جانے والے فی یونٹ خرچ کا جائزہ لیتے ہوئے حاصل کیں۔
============================
چینی بجلی گھروں کو درآمدی کے بجائے مقامی کوئلہ استعمال کرنے کا کہہ دینگے، وزیر توانائی
کراچی (نیوز ڈیسک) وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ حکومت ملک میں چینی بجلی گھر چلانے والی کمپنیوں سے اسی ماہ کہہ دے گی کہ وہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں میں درآمدی کے بجائے بتدریج تھر کے خطے سے نکالا جانے والا مقامی کوئلہ استعمال کریں۔ اویس لغاری نے کہا کہ اس سے درآمدات پر لاگت کی مد میں پاکستان کو سالانہ 200 ارب روپے (قریب 700 ملین ڈالر) کی بچت ہوگی, بجلی کی پیداواری لاگت کم ہو گی، ملکی صارفین کے لئے بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی کم ہو جائے گی، انہوں نے کہا، ʼʼہمیں امید ہے کہ ایسا کرنے سے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ڈھائی روپے تک کی کمی لائی جا سکے گی۔‘‘ برطانوی نیوز ایجنسی کو دیئے گئے انٹرویو میں اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان میں چینی کمپنیوں کے انتظام میں کام کرنے والے بجلی گھروں میں سے جو پاور پلانٹ کوئلے سے چلتے ہیں، ان میں ملک میں درآمد کردہ کوئلے کے بجائے آئندہ بتدریج مقامی کوئلہ استعمال کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ ملک میں چینی پاور پلانٹ چلانے والے ادارے اب کوئلے کی مقامی پیداوار کو استعمال کرنے کا طریقہ کار اپنا لیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ممکنہ طور پر اسی مہینے بیجنگ کے ساتھ اس بارے میں مذاکرات بھی شروع کر سکتا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے میں دیے گئے چینی قرضوں کی ʼʼری پروفائلنگ‘‘ کی جائے۔ اویس لغاری آئندہ دنوں چین کا دورہ کرنے والے اس پاکستانی وفد میں شامل ہوں گے، جو توانائی کے ملکی شعبے کے ڈھانچے میں اصلاحات سے متعلق مشاورت کے لیے بیجنگ جائے گا۔ پاکستان کے انرجی سیکٹر میں یہ وہ اصلاحات ہیں، جن کا اسلام آباد حکومت کو مشورہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی طرف سے انتہائی حد تک مقروض ملک پاکستان کی حکومت کو یہ مشورہ 7 ارب ڈالر کے اس تازہ ترین مالیاتی بیل آؤٹ پیکج کے پس منظر میں دیا گیا ہے، جس پر اطراف کے مابین ابھی گزشتہ ہفتے ہی اتفاق رائے ہوا تھا۔