اسلام آباد: 10 جولائی 2024۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس
وفاقی کابینہ نے وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی سفارش پر پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کوختم کرنے کے لائحہ عمل کی منظوری دے دی۔
منظور شدہ لائحہ عمل کے مطابق وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے پاکستان انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی بنائی جائے گی، جبکہ وفاقی حکومت کی زیر نگرانی صوبائی نوعیت کے تمام ترقیاتی منصوبوں کو متعلقہ صوبائی اداروں کے حوالے کیا جائے گا۔
اسی طرح پاک پی ڈبلیو ڈی کو تفویض شدہ دیکھ بھال اور مرمت کے کاموں کو جاری رکھنے کے لیے ایسٹ اینڈ فیسیلیٹی مینیجمینٹ کمپنی (Asset and Facility Management Company) کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کے عملے کی درجہ بندی کے بعد متعلقہ وزارتوں میں منتقلی کی جائے گی اور گولڈن ہینڈ شیک سکیم عمل میں لائی جائے گی۔ ملک میں پاک پی ڈبلیو ڈی کی تمام املاک کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی جائے گی۔ کابینہ نے ہدایت کی کہ ٹرانزیشن کا یہ عمل دو ہفتوں کے اندر اندر مکمل کیا جائے۔
کابینہ کو وزیر خزانہ کی سربراہی میں حکومتی حجم کو کم کرنے کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کی اب تک کی پیشرفت پر بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، امورِ کشمیر و گلگت بلتستان، ریاستوں اور سرحدی امور، صنعت و پیداوار اور قومی صحت کی وزارتوں کے غیر ضروری ذیلی اداروں کو بند کرنے اور ضروری اداروں کی رائٹ سائزنگ کے حوالے سے بنیادی معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، یہ عمل 12 جولائی تک مکمل ہو جائے گا۔ کمیٹی ان معلومات کی بنا پر متعلقہ وزارتوں کی مشاورت سے تجاویز مرتب کر کے کابینہ کو اگست کے پہلے ہفتے تک پیش کرے گی۔ اسی طرح 19 جولائی سے وفاقی حکومت کی دیگر وزارتوں سے اس نوعیت کی معلومات حاصل کر کے دیگر اداروں کو بند یا ضم کرنے کی سفارشات مرتب کی جائیں گی۔
کابینہ نے ملک میں قانونی طور پر رہائش پذیر 1.45 ملین افغان مہاجرین جن کے پروف آف رجسٹریشن کارڈز کی معیاد 30 جون 2024 کو ختم ہو چکی ہے، ان کے پی او آر کارڈز کی مدت میں ایک سال یعنی 30 جون 2025 تک توسیع کی منظوری دے دی۔
وفاقی کابینہ نے وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی سفارش پر پشاور میں فیڈرل لاج نمبر II کی عمارت کو دفتری استعمال کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتقل کرنے کی منظوری دے دی۔ اس عمارت میں صوبائی الیکشن کمشنر کا دفتر مستقل بنیادوں پر قائم کیا جائے گا۔
وفاقی کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی سفارش پر ملک کے مختلف شہروں میں ایپیلیٹ ٹریبیونل انلینڈ ریوینیو کے بینچوں سے 7 اکاؤنٹنٹ ممبران کو واپس ایف بی آر بھیجنے اور وزارت کی جانب سے نامزد 14 افسران کو ایپیلیٹ ٹریبیونل انلینڈ ریوینیو کے بینچوں پر تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔
وفاقی کابینہ نے وزارت صحت کی سفارش پر جوائنٹ سیکریٹری محمد اقبال کو بطور منتظم نیشنل کاؤنسل فار ہومیوپیتھی تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔
وفاقی کابینہ نے وزارت قومی صحت کی سفارش پر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے معیار پر پورا نہ اترنے کی بنا پر بہاولپور میڈیکل کالج کی 19 اپریل 2024 سے تسلیم شدہ حیثیت ختم کرنے کی منظوری دے دی۔ اس ادارے میں زیر تعلیم طلباء کو ملک کے دیگر میڈیکل کالجز میں منتقل کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے استفسار کیا کہ غیر معیاری ہونے کے باوجود بہاولپور میڈیکل کالج کو پی ایم ڈی سی نے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت کیوں دی. وزیرِ اعظم نے پرائم منسٹر انسپیکشن کمیشن کو تحقیقات کا حکم بھی دے دیا۔ وزیراعظم نے پی ایم ڈی سی کے معاملات کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ، ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب خان اور وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے صحت ملک مختار احمد بھرتھ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی اور انہیں ہدایت جاری کی کہ پی ایم ڈی سی کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے حوالے سے تجاویز کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کریں۔
وفاقی کابینہ نے وزارت صحت کی سفارش پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی اشتہارات کے حوالے سے کمیٹی کے 17ویں اور 18ویں اجلاس میں مجوزہ ادویات کے 53 اشتہارات کو ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں تشہیر کی منظوری دے دی۔
وفاقی کابینہ نے کے-الیکٹرک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں حکومت پاکستان کی جانب سے جاوید قریشی کو ڈائریکٹر تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ تمام ریاستی اداروں کے غیر فعال اور نا مکمل بورڈز آف ڈائریکٹرز میں دو ہفتوں کے اندر پیشہ ورانہ طور پر اچھی شہرت کے حامل افراد تعینات کر کے ان کو فعال بنایا جائے۔
وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 27 جون 2024 کو ہونے والے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی توثیق کر دی۔
وفاقی کابینہ نے سرکاری ملکیتی اداروں کے حوالے سے کابینہ کمیٹی کے 4 جولائی 2024 کو ہونے والے اجلاس میں لیے گئے فیصلوں کی توثیق کر دی۔
=========================
اہم ترین—وزیراعظم۔۔۔وفاقی کابینہ اجلاس
معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے کڑوے فیصلے اور اصلاحات کرنا ہوں گی، معاشی اہداف کے حصول کے لئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے، وزیراعظم محمدشہبازشریف
اسلام آباد۔10جولائی (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہبازشریف نےمحرم الحرام میں امن و امان کے لئے صوبوں کے ساتھ مربوط رابطہ برقراررکھنے کی ہدایت کرتےہوئے کہا ہے کہ سکیورٹی معاملات میں تعاون سے قومی اتحاد اور یکجہتی کو تقویت ملے گی، معاشی اہداف کے حصول کے لئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے، معیشت کی سمت درست کرنے کے لئے کڑوے فیصلے اور اصلاحات کرنا ہوں گی،ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کے کام میں سستی اور تاخیری حربے برداشت نہیں کیے جائیں گے، پی ڈبلیو ڈی کوختم کرنے سے انکار کسی صورت قابل قبول نہیں ،چین کےساتھ تعاون کو فروغ پر تیزی سے پیشرفت یقینی بنانا ہو گی، روس کے صدر کے ساتھ ملاقات میں تجارتی اور سرمایہ کاری روابط کے فروغ پر جامع گفتگو ہوئی، ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سےقیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی،ملک بھر میں تیل سے چلنے والے 10 لاکھ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیاجائےگا، تمام وزارتوں کو کارکردگی بہتر بنانا ہو گی۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگوکرتےہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ کل خیبرپختونخوا میں وزیرستان میں شہادتیں ہوئی ہیں۔کراچی میں سی ٹی ڈی کے ڈی ایس پی کو بھی شہید کردیاگیا ۔ان کی بلندی درجات کے لئے دعاگو ہیں اور شہدا کے اہل خانہ سے تعزیت کرتےہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران وزارت داخلہ اور صوبوں اور دیگر متعلقہ اداروں کے درمیان مربوط رابطہ ہونا چاہیے۔ صوبوں کو وفاق کی طرف سے جو بھی تعاون درکار ہو انہیں فوری فراہم کیا جا نا چاہیے۔ اسی طرح آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کے ساتھ بھی قریبی رابطہ رکھا جائے۔ سکیورٹی معاملات میں تعاون سے قومی یکجہتی اور اتحاد کو تقویت ملے گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ انہوں نے تاجکستان کا دورہ کیا اور پھر شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی۔ مختلف ممالک کے سربراہان کے ساتھ مفیدملاقاتیں رہیں۔ روسی صدر پیوٹن کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری روابط کے فروغ کے لئے جامع گفتگوہوئی اور اس حوالےسے عملدرآمد کے لئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ دورہ چین کے بعد اہم شعبوں میں مزید تعاون کے لئے بریفنگ لی ہے۔ تمام وزارتوں کو چین کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون کے لئے بھرپور تیار ی اور اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ ملک اور پاکستان کے وسائل کا معاملہ ہے۔ ہم نے ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ چین کےساتھ تعاون کو فروغ پر تیزی سے پیشرفت یقینی بنانا ہو گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ بلوچستان میں 28ہزار ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ ، وزار ت پاور ڈویژن اور وزارت قانون کے حکام اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے اس کے لئے بہت کام کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی کامظاہرہ قابل تعریف ہے۔ٹیوب ویلوں کے لئے وفاق کی جانب سے دیئے جانے والے 80 ارب روپے ضائع ہو رہے تھے،ہم نے ایک بہت بڑا مرحلہ طے کیا۔ اس کے لئے وزارت خزانہ ،وزارت پاور ڈویژن اوربلوچستان کی حکومت اوربالخصوص وزیراعلیٰ بلوچستان کو خراج تحسین پیش کرتاہوں۔ انہوں نے بہت اچھے طریقے سے اس معاملے کو آگے بڑھانے کے لئے کا م کیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ ملک میں 10لاکھ ٹیوب ویل تیل پر چل رہے ہیں اور ہم سالانہ ساڑھے تین ارب ڈالر کا تیل درآمد کرتےہیں،ملک بھر میں تیل سے چلنے والے 10 لاکھ ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیاجائےگا، اس کےلئے ایک بزنس ماڈل بنانے اور صوبوں کے ساتھ قریبی رابطے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں 28 ہزار ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی ایک اہم اقدام ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان اور وفاق کے متعلقہ افسران نے محنت سے کام کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی سےقیمتی زرمبادلہ کی بچت ہو گی اور کسانوں کو سستی بجلی ملےگی۔بجلی کی ٹرانسمیشن لائنزکو بہتر بنانا اور بجلی چوری پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ شمسی توانائی سے پیداہونے والی سستی بجلی کافائدہ زراعت اور کاشتکار ہو گا اور زرعی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں معدنیات کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں جن سے استفادہ کرناہوگا۔ وقت تیزی کےساتھ گزر رہا ہے ،معاشی بہتری کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ پر کام ہو رہا ہے ، کسی وزارت نے بھی اس میں اگر سستی کامظاہرہ کیا اور تاخیری حربے استعمال کئے تواسے برداشت نہیں کیاجائےگا،کسی وزارت کے ذیلی ادارے کی اگر کوئی افادیت کے حوالےسے کہ کوئی جائز عذر ہے تو وہ الگ بات ہے لیکن اپنےفائدے کے لئے کسی محکم کے دفاع کو قبول نہیں کیاجائےگا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے پاس 10 سے 12 بحری جہاز ہیں لیکن تنخواہیں 500 ارب روپے ہیں اور 5 ارب ڈالر ملک سالانہ بحری جہازوں کے کرائے کی مد میں اداکرتاہے۔ کراچی بندر گاہ پر ہونے والے کرپشن کو روکنے کے اقدامات کرنا ہوں گے، کراچی بندر گاہ میں 1200 ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے، یہ پیسہ تو ترقیاتی منصوبوں داسو اور دیامر بھاشا ڈیم منصوبوں پر خرچ ہو سکتی ہے۔ کرپشن کا سد باب کرکے وسائل عوام کی بہبود پر خرچ کریں گے۔ بنگلہ دیش اور ہندوستان کے پاس ہم سے کئی گنا زیادہ بحری جہاز ہیں۔ معاشی اہداف کے حصول کے لئے شفافیت اور خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ ریئل سٹیٹ کے شعبے پر ٹیکسز سے 100 ارب روپے کے حصول کی توقع ہے۔انہو ں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دیاجائےاور دیگر ایسے شعبوں کو چھوڑ دیں جو ٹیکس دینے کی استعداد رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کڑوے فیصلے کرنا پڑیں گے اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنا ہوں گی، توقع ہے کہ آئی ایم ایف کا ممکنہ پروگرام پاکستان کا آخری پروگرام ہوگا،آئی ایم ایف سے نجات کا ہدف میں صرف باتوں سے حاصل نہیں ہوگا، آئی ایم ایف سے نجات کے ہدف کا حصول قربانی اور ایثارسے ممکن ہے، معیشت کی سمت درست کرنے کے لیے کڑوے فیصلے اور اصلاحات لانا ہوں گی ،کرپشن کے خاتمہ اور دیگر موثر انتظامی اقدامات کے ذریعے ملکی وسائل میں اضافہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ غریب اور نادار طبقے کی مشکلات کا بخوبی ادراک ہے، کرپشن کے خاتمے اور دیگر موثر انتظامی اقدامات کےذریعے ملکی وسائل میں اضافہ کیا جائے گا،غریب طبقے کو ریلیف کی فراہمی کے لیے وفاق نے ترقیاتی بجٹ سے 50 ارب روپے کا انتظام کیا ہے،تین ماہ کے لئے بجلی صارفین کو ریلیف دیاجائے گا لیکن اس عرصہ میں اضافی مالی وسائل کا انتظام کرنا ہو گا،ہمیں دن رات ایک کر کے معاشی اقدامات کو نتیجہ خیز بنانا ہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ ملک میں بجلی فاضل ہے لیکن لوڈ شیڈنگ ان علاقوں میں ہو رہی ہے جہاں پر بجلی چوری ہوتی ہے،اخراجات میں کمی کے لئے ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ کی خود نگرانی کررہا ہوں، پی ڈبلیو ڈی کی بندش کے فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کو برداشت نہیں کیاجائےگا،اس کےلئے 2 ہفتے دیئے گئے تھے وہ مکمل ہو چکے ہیں، ہم نے اس کو مکمل بند کرنا ہے اور اس حوالے سے متبادل سسٹم کا بھی انتظام کر لیا ہے،پنجاب کے ماڈل پر عمل کیا جائےگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا، قوم نتائج چاہتی ہے ، وزیر تجارت برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کے لئے پلان تیار کرے،پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہمیں معاشی چیلنجزپر قابو پاتے ہوئے آگے بڑھنا ہے، تمام وزارتوں کو اپنی کارکردگی مزید بہتر بنانا ہو گی۔