صحافی برادری کے لیے 2 “بری” خریں؟؟


صحافی برادری کے لیے 2 “بری” خریں؟؟

کراچی (تحریر: آغاخالد) صحافی برادری کے لیے 2 بڑی “بری” خبریں منتظر ہیں، دنیا چینل پر کراچی سے چلنے والا کامران خان شو بھی بند ہونے جارہاہے اور شاید اس ہفتے کا یہ آخری شو ہوگا کیونکہ لاہور مرکزی دفتر سے پروگرام بند کرنے کے احکامات موصول ہوگئے ہیں جبکہ روزنامہ جنگ کی کراچی میں مرکزی ڈیسک بنائی جارہی ہے جس کے بعد پنڈی،لاہور،مظفر آباد کے اخبار بھی جنگ لندن، ملتان اور کوئٹہ کی طرح کراچی سے تیار ہوکر جایا کریں گے اور بند کیے جانے والے اسٹیشنز کے صحافی بڑی تعداد میں بے روزگار ہوجائیں گے جبکہ کامران خان کہ شو سے وابستہ 25 سے 30 صحافی اور تکنیکی عملہ بے روزگار ہونے والا ہے ممکن ہے کامران خان بے روزگار ہونے والوں میں سے کچھ قابل اعتماد لوگوں کو اپنے ساتھ دبئی لے جائیں شنید ہے کہ وہ وہاں سے ملک ریاض کے یوٹیوب چینل پر نیا پروگرام شروع کرنے جارہے ہیں پھر بھی کافی لوگ بے روزگاری کاسامنا کرنے والے ہیں کامران خان جیسے جید اور پیشہ ور صحافی زیادہ دن بے روزگار نہیں رہ سکتے یہ قدرت سے اپنے لیے کھلی روزی لکھواکر لائے ہیں مگر انہیں سنجیدگی سے یہ سوچنا چاہیے کہ الیکٹرونک میڈیا پر موجودہ کڑے وقت میں ان سمیت ان کے ہم عصر مہنگے ترین میزبانوں کی لاکھوں کروڑوں میں تنخواہوں اور فرمائیشی پیکجز کو بڑا دخل ہے خدارا وہ اب تو اس سے رضاکارانہ دستبردار ہوجائیں تاکہ سینکڑوں صحافیوں کی نوکریاں بچ سکیں پاکستان کی اشتہارات کی مارکیٹ بہت محدود ہے اور اس مارکیٹ کا سب سے زیادہ منافع جیو لے جاتاہے اس کے بعد بچا کھچا 8/10 دوسرے چینلز میں تقسیم ہوجاتاہے اور وہ اتنا ہوتاہے کہ یہ چینل اس منافع سے اپنے عملہ کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات نہیں نکال سکتے اور ایک بڑی وجہ بحران کی یہ بھی ہے پھر اس پر 7/8 اینکرز کی مہنگی تنخواہیں جس میں بیسیوں لوگوں کی روزی سما سکتی ہے،

دنیا چینل کے ذرائع کے مطابق کامران خان کا شو انہیں ڈھائی سے تین کروڑ ماہانہ میں پڑتاتھا کیونکہ انہوں نے اپنے پسندیدہ لوگوں کی تنخواہیں بھی بھاری معاوضہ کی لگوائی تھیں ایک لحاظ سے یہ ان کی عظمت بھی ہے تو دوسری طرف ان کے پروگرام کے مجموعی بجٹ میں 200 لوگ کھپائے جاسکتے تھے بہر صورت وہ ملکی صحافت کا بڑا نام اور “پاکستان کے خان” ہیں ان کے علاوہ شاہ زیب خانزادہ، افتخار احمد، نجم سیٹھی،عائشہ خان، ایم مالک،شہزاد اقبال، عادل شاہ زیب، منصور علی خان، ماریہ میمن، فریحہ ادریس، ثناہاشمی، مہر بخاری، غریدہ فاروقی، کاشف عباسی، حبیب اکرم، مبشر لقمان، عاصمہ شیرازی، حامد میر اور دیگر بڑے نام ہماری ملکی صحافت کی مان ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے وقت کے دھارے کے ساتھ چلنا سیکھ لیا اور کاغذی صحافت سے بروقت زقند لگاکر الیکٹرونک صحافت میں داخل ہوگئے جس سے آج وہ شہرت کی بلندیوں پر ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملکی صحافت کے اصل اور معتبر نام یہی ہیں دنیابھر میں آج بھی اخباری صحافت الیکٹرونک سے زیادہ معتبر ہے مگر سائنسی اختراعات اور ہر لمحے نئی تبدیلیوں نے مقبولیت میں اسے پچھاڑ دیا اور اب تو الیکٹرونک میڈیا بھی سسکیاں لے رہاہے اس کی زندگی تو بھیڑیے سے بھی مختصر رہی جبکہ اخباری صحافت کی تاریخ کم از کم 10 صدیوں پر محیط ہے جو کسی نہ کسی شکل میں اس عظیم سیارے پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کرتی رہی، اور حد تو یہ ہے کہ 300 سالہ سائینسی ایجادات اور تبدیلیوں کے دور میں بھی اخباری صحافت مضبوطی سے کھڑی رہی، (باقی آئندہ